www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بلاشبہ قرآن مجید اللہ کی آخری آسمانی کتاب ہے اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے آخری رسول ہیں۔ دنیا کا ہر مسلمان قرآن مجید کی صداقت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھتا ہے۔

قرآن مجید اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر یقین اور ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ھر مسلمان کو سو فیصد اطمینان ہے کہ جو کچھ قرآن مجید اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ نے بیان کیا ہے، وہ سب کا سب سچ ہے اور ان کا کھا ھوا ھر لفظ اپنے وقت اور مقام پر سچ ثابت ھو کر رھے گا۔
انسان جب اس یقین اور اطمینان کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو اس نتیجے پر پھنچتا ہے کہ ابھی تک قرآن مجید کی بھت ساری آیات ویسے متحقق نھیں ھوئی ہیں جیسا کہ حق ہے۔ اس لئے ھر مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ عنقریب وہ وقت ضرور آئے گا جب ان آیات کی صداقت اقوام عالم پر پوری طرح آشکار ھوجائے گی۔
ان آیات میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
"إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ، وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً"۔(1)
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور لوگوں کو دیکھو کہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ھو رھے ہیں تو اپنے خداوند کی تسبیح پڑھو اس کی حمد کے ساتھ، اور اس سے مغفرت مانگو۔ بے شک وہ بڑا ھی معاف کر دینے والا ہے۔
ھم جانتے ہیں کہ ابھی تک دنیا میں بھت سارے لوگوں تک دین کا پیغام پھنچا ھی نھیں اور بے دین لوگوں کی تعداد صاحبان ایمان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اللہ کی مدد سے لوگ فوج در فوج دین خدا میں داخل ھونگے۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کھے کہ یہ آیہ مجیدہ فتح مکہ سے متعلق ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ جی ھاں، اس آیہ مجیدہ کا ایک مصداق فتح مکہ کا دن بھی ہے اور اگر ھم اس سورہ کے لحن کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ کا مصداق کامل ابھی وجود میں نھیں آیا اور یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ جب اللہ کے دین کی ایسی شان ھوگی کہ لوگ ھر طرف سے جوق در جوق اس میں شامل ھوں گے۔
اسی طرح اگر آپ مندرجہ ذیل تین آیات کو سامنے رکھیں تو آپ اس نتیجے پر پھنچیں گے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب خدا کا دین دیگر ادیان پر غالب آکر رھے گا۔
"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ"۔(2)
"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ"۔(3)
"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً"۔(4)
اسی طرح مندرجہ ذیل آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کو وعدہ دیا ہے کہ وہ انھیں زمین پر حکومت دے گا:
"وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ"۔ (5)
نیز خداوند عالم نے یہ وعدہ بھی دیا ہے کہ وہ مستضضعفین کو زمین پر حکومت دے گا اور انھیں پیشوا بنائے گا:
"وَنُرِ‌يدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِ‌ثِينَ"۔(6)

اگر ھم تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس آٓیت کے سب سے کامل مصداق اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ ہیں کہ جن پر بے شمار مظالم ڈھائے گئے اور انھیں مستضعف کیا گیا۔ پس اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کرہ زمین پر وہ وقت آکر رھے گا کہ جب یھاں مکمل طور پر اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی حکومت قائم ھوگی اور تمام لوگ انھیں اپنا پیشوا تسلیم کریں گے اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا"۔(7)
جبکہ ھم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک باطل نابود نھیں ھوا بلکہ دنیا میں حق کو مٹانے کی سعی کی جا رھی ہے۔ کھیں پر سلمان رشدی جیسے لوگ حق کے خلاف زھر اگل رھے ہیں اور کھیں پر طالبان، القاعدہ اور سعودی عرب جیسے ناعاقبت اندیش اسلام دشمنوں کے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاکر حق کے خلاف کھڑے ہیں۔
اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی نشانیوں کو مٹایا جا رھا ہے، صحابہ کرام کی قبور کو اکھاڑا جا رھا ہے، مسجدوں میں نمازیوں کو شھید کیا جا رھا ہے اور بے گناہ انسانوں کے خون سے ھولی کھیلی جارھی ہے۔
اگرچہ یہ سب کچھ ھو رھا ہے تو ایسے حالات میں جو چیز ایک مسلمان کو امید عطا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قران مجید کی اس آیت کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ جب مکمل طور پر حق آجائے گا اور باطل حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا اور یہ ظلم و ستم کے رسیا خس و خاشاک کی طرح بھہ جائیں گے۔ اسی طرح ارشاد پروردگار ہے:
"وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ"۔(8)
اس آیت کے مطابق اللہ نے زبور میں بھی عالم بشریت کو یہ پیغام دیا ہے کہ زمین پر اس کے نیک بندے حکومت کریں گے جبکہ ھم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک زمین کے بڑے حصے پر اس کے دشمن حکومت کر رھے ہیں۔ اس طرح کی متعدد آیات قرآن مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعے سے انسان کے دل میں ایک الٰھی حکومت کا انتظار پیدا ھوتا ہے اور اسے مکمل طور پر یہ یقین ھوجاتا ہے کہ الٰھی وعدے کے مطابق اس زمین پر حق اور اللہ کے نیک بندوں کی حکومت ضرور قائم ھوکر رھے گی۔
اھل سنت اور شیعہ حضرات کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ الٰھی حکومت جس کا خداوند عالم نے بنی نوع انسان کو وعدہ دے رکھا ہے، وہ حضرت امام مھدی (عجَّل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف) کی حکومت ھوگی۔ بحیثیت مسلمان ھمیں یہ معلوم ھونا چاھئے کہ اگرچہ تمام مسلمان امام مھدی (عجَّل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف) کے قیام کے قائل ہیں۔ جیسا کہ سنی روایات میں اسی طرح درج ہے:
"حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت نھیں آئے گی جب تک میرے اھل بیت کا ایک مرد امور کو اپنے ھاتھوں میں نہ لے لے اور اس کا نام میر انام ہے۔"(9)
اور اسی طرح نمونے کے طور پر ایک شیعہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔
"رسول اکرم نے فرمایا کہ قائم میری اولاد میں سے ہے، اس کا نام میرا نام ہے۔ اس کی کنیت میری کنیت ہے، اس کے شمائل میرے شمائل اور اس کی سنت و روش میری سنت و روش ہے۔(10)
شیعہ روایات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے بارہ سو سال قبل (15 شعبان سنہ 255 ھ کو) عراق میں حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے ھاں حضرت امام مھدی (عج) کی ولادت ھوچکی ہے۔ شیعہ چونکہ امام کے منصوص من اللہ اور معصوم ھونے کے قائل ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک حضرت امام مھدی (عج) بھی معصوم اور منصوص من اللہ ہیں۔
جیسا کہ احمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا اور آپ کے جانشین کے بارے میں سوال کرنا چاھتا تھا۔ میرے سوال کرنے سے پھلے ھی امام نے فرمایا کہ اے احمد! خداوند عالم نے جس وقت حضرت آدم کو پیدا کیا، اس وقت سے آج تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نھیں رکھا اور قیامت تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نھیں رکھے گا۔ حجت خدا کی بدولت زمین والوں سے بلائیں دور ھوتی ہیں۔ بارش ھوتی ہے۔ اور زمیں سے برکتیں ظاھر ھوتی ہیں۔
میں نے عرض کیا اے فرزند رسول! آپ کے بعد امام اور جانشین کون ھوگا؟ فوراً حضرت اندرون خانہ تشریف لے گئے اور جب باھر تشریف لائے تو آپ کے مبارک ھاتھوں پر ایک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ھوا تین سالہ بچہ تھا۔
آپ نے فرمایا اے احمد بن اسحاق اگر خداوند عالم اور اس کی حجتوں کے نزدیک تم محترم نہ ھوتے تو یہ بچہ تمھیں نہ دکھاتا۔ جان لو کہ یہ بچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھم نام ہے۔ اس کی کنیت پیغمبر کی کنیت ہے اور یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ھوگی۔
اے احمد بن اسحاق یہ بچہ اس امت میں "خضر" اور "ذوالقرنین" کی طرح ہے۔ خدا کی قسم۔ یہ نگاھوں سے پوشیدہ ھو جائے گا، غیبت کے زمانے صرف وھی لوگ نجات پائیں گے جن کو خدا اس کی امامت پر ثابت قدم ر کھے گا اور انھیں اس بات کی توفیق دے گا کہ اس کے ظھور میں تعجیل کے لئے دعا کریں۔
میں نے عرض کیا میرے آقا ایسی کوئی نشانی ہے جس سے میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ھو؟ اس موقع پر بچہ نے فصیح عربی میں کھا :"میں زمین میں وہ بقیة اللہ ھوں جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لے گا۔ اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے اثرات کی فکر میں نہ رھو"۔ (11)
شیعی روایات کے مطابق آپ پندرہ (15) شعبان 255 ھ میں حسن عسکری علیہ السلام کے ھاں پیدا ھوچکے ہیں۔ چونکہ روایات و احادیث کی روشنی میں عباسی حلفاء اس بات سے آگاہ ھوچکے تھے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صلب سے امام مھدی (عج) کی ولادت ھونی ہے۔
چنانچہ خدا نے حضرت موسٰی کی ولادت کی طرح حضرت امام مھدی (عج) کی ولادت کو بھی مخفی رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت وقت نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو اپنے پایہ تخت سامرہ میں مقید کر رکھا تھا، تاکہ آپ کی کڑی نگرانی کی جاسکے۔
جب 260ھ میں حضرت امام حسن عسکری شھید کر دیئے گئے تو پھر 329ھ تک تقریباً 69 سال حضرت امام مھدی (عج) نے مشیت ایزدی کے تحت غیبت صغریٰ اختیار کیئے رکھی۔ اگر آپ اس دوران غیبت اختیار نہ کرتے تو دیگر گیارہ اماموں کی طرح آپ کو بھی شھید کر دیا جاتا۔
غیبت صغریٰ کا ایک اھم مقصد عوام الناس کو غیبت کبریٰ کے لئے مشق کرانا تھا، تاکہ لوگ "امام مھدی (عج)" کی عدم موجودگی میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرسکیں۔
غیبت صغریٰ کے دوران آپ اپنے مخصوص نائبین جنھیں نواب اربعہ کھا جاتا ہے، ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے۔
نواب اربعہ کی ترتیب حسب ذیل ہے:
1۔ ابو عمر و عثمان بن سعید عمری۔
2۔ ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری۔
3۔ ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی۔
4۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری۔
آخری نائب ابو الحسن علی بن محمد سمری کی وفات 923ھ میں ھوئی، جنھیں امام مھدی (عج) نے کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کی ھدایت کی تھی۔ یوں ابوالحسن علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ھوگیا۔ غیبت کبریٰ کے دوران لوگوں کی ھدایت و رھنمائی کے بارے میں شیخ طوسی، شیخ صدوق اور شیخ طبرسی نے کتاب احتجاج میں یہ روایت نقل کی ہے کہ "زمانے کے مسائل کے بارے میں ھماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔ وہ میری جانب سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ھوں۔"
اسی طرح کتاب احتجاج میں شیخ طبرسی نے امام سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ھر وہ فقیہ جو اپنے نفس کا مراقب ھو۔ اپنے دین کا محافظ اور اپنے مولا کا فرمانبردار ھو تو عوام پر لازم ہے کہ اسکی تقلید کریں۔ اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غیبت صغریٰ میں تو امام کا ھر نائب مخصوص اور متعین ھوتا تھا، جبکہ غیبت کبریٰ میں امام زمانہ نے علماء حقہ کو اپنی طرف سے عوام پر حجت قرار دیا ہے۔
لھذا عصر حاضر میں حضرت امام مھدی (عج) سے مربوط رھنے کے لئے عوام کے لئے لازمی ہے کہ وہ علماء دین کے اجتھاد کی تقلید کرتے ھوئے اپنے اعمال انجام دیں۔
جھاں تک امام کے ظھور کا تعلق ہے تو اس بارے میں علامات تو بتائی گئی ہیں، جن میں سے کچھ حتمی ہیں اور کچھ غیر حتمی، لیکن وقت کا تعین نھیں کیا گیا جیسا کہ "فضیل کے دریافت کرنے پر امام باقرعلیہ السلام نے تین مرتبہ فرمایا ہے کذب الوقاتون یعنی وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(12)
اسی طرح اسحق بن یعقوب نے محمد بن عثمان کے ذریعے امام زمان(عج) کی خدمت میں ایک خط لکھ کر کچھ سوال پوچھے تو امام نے اپنے ظھور کے وقت کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:
"واما ظهور الفرج فانه الی الله تعالی ذكره وكذب الوقاتون"۔جھاں تک ظھور کا تعلق ہے تو یہ خداوند عالم کے حکم پر منحصر ہے اور وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ (13)
عصر حاضر میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کا عقیدہ مھدویت تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ھر قسم کی فرقہ بندی سے بلند ھوکر اپنے مشترکہ امام حضرت امام مھدی (عج) کے ظھور کے لئے جدوجھد اور کوشش کرنی چاھیے۔
چونکہ ظھور امام کے دور میں شیطانی مکر اور طاغوتی شر زوروں پر ھوگا جس کی وجہ سے لوگ گمراھی اور فتہ فساد میں مبتلا ھوجائیں گے۔
لھذا مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شیطانی قوتوں کے مقابلے میں دین اسلام کی تعلیمات کی نشرواشاعت کریں اور تبلیغ دین کے ذریعے لوگوں کی ھدایت کریں، تاکہ لوگ شیطانی شر سے ھلاک ھونے کی بجائے دین اسلام پر عمل کرکے نجات حاصل کرسکیں۔
نتیجہ:۔
ظھور امام مھدی (عجَّل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف) پر تمام مسلمان بالخصوص اور دیگر ادیان بالعموم، عقیدہ رکھتے ہیں۔ چونکہ اسلام آخری اور کامل دین ہے، لھذا حضرت امام مھدی (عجَّل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف) کی شخصیت، اھداف اور اسلام کی حقانیت سے دیگر مذاھب اور عالم بشریت کو آگاہ کرنا امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ عقیدہ مھدویت دراصل قرآن و سنت کی حقانیت اور قرآن اور سنت میں دیئے گئے وعدوں کی سچائی کا دوسرا نام ہے۔
حوالہ جات:
1۔ سورہ نصر۔
2۔ سورہ توبہ آیت 33۔
3۔ سورہ صف آیت 9۔
4۔ سورہ فتح آیت 28۔
5۔ سورہ نور آیت 55۔
6۔ سورہ قصص آیت 5۔
7۔ سورہ اسرا کی آیت 81۔
8۔ سورہ انبیا آیت 105۔
9۔ مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 99۔
10۔ اعلام الوری۔
11۔ اکمال الدین ج 2 ص 55، 57۔
12۔ غیبت شیخ طوسی۔
13۔ کمال الدین ج 2 ص 140۔
تحریر: نذر حافی
 

Add comment


Security code
Refresh