www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

منجی عالم بشریت کے وجود اور روئے زمین پر عدل کے قیام پر عقیدہ، آسمانی ادیان سے مخصوص نھیں ہے بلکہ تمام مکاتب فکر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک شخص آئے گا

جو پوری دنیا کو ظلم و جور سے نجات دلائے گا اور روئے زمین پر عدل و انصاف کا قیام عمل میں لائے گا۔ مثال کے طور پر "مکتب کمیونزم" جو تاریخ کو تضاد کی بنیاد پر تفسیر کرتا ہے کھتا ہے:
" ایک دن ایسا آئے گا جس میں تمام تضاد ختم ھو جائیں گے اور دنیا میں امن و شانتی قائم ھو جائے گی"۔(۱)
ایسے مفکرین اور دانشمند جن کا کسی مذھب اور دین پر ایمان نھیں ہے وہ بھی "مصلح جھانی" پر عقیدہ رکھتے ہیں جیسے معروف برطانوی فلاسفر برٹرینڈ رسل کھتے ہیں:
"دنیا کو ایک ایسے مصلح کی انتظار ہے جو ایک پرچم اور ایک نعرے تلے سب کو جمع کرے"(۲)
دنیا کے معروف فیزیک دان البرٹ آئنسٹائن لکھتے ہیں:
" وہ دن جس میں تمام دنیا کے اندر امن و سکون برقرار ھو گا اور لوگ پیار و محبت سے آپس میں زندگی گزاریں گے زیادہ دور نھیں
ایئرلینڈ کے مفکر "برنادرشاو" نے مزید دقت اور وضاحت کے ساتھ عالمی مصلح کے ظھور کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھا ہے:
" وہ زندہ ہے اور قوی جسمانی ھیکل کا مالک ہے اس کے پاس فوق العادہ عقل و فکر ہے۔ وہ ایسا کامل انسان ہے کہ دوسرے انسان اپنی تلاش و کوشش کے ساتھ اس کے کمالات کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس کی عمر طولانی ھو گی اور تقریبا تین سو سال تک پھنچ جائے گی اور وہ اپنی اس طولانی زندگی کے تجربات سے خوب استفادہ کر سکے گا"۔(۴)
جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ تمام آسمانی ادیان، ایک عالمی مصلح کے ظھور کو یقینی جانتے ہیں اگر کوئی شخص ان کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کرے تو اسے پتا چلے گا کہ جو عالمی مصلح کے بارے میں آسمانی بشارتیں پائی جاتی ہیں وہ عالمی مصلح اور منجی عالم بشریت در حقیقت وھی "مھدی صاحب الزمان"ہیں۔(۵)
قاضی ساباطی نے کتاب مقدس کے عھد عتیق کی کتاب اشعیاء میں موجود بشارتوں کے بارے میں تحقیق کی اور کھا:
"یہ عبارتیں وضاحت کے ساتھ کھتی ہیں کہ وہ مھدی ھو گا"۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:
"امامیہ کھتے ہیں کہ وہ محمد بن حسن عسکری ہیں کہ جو سن ۲۵۵ ھجری میں معتمد عباسی کے دور حکومت میں سامرا میں پیدا ھوئے۔ ان کی ماں نرجس امام حسن عسکری کی کنیز تھیں۔ وہ ایک سال کے لیے غائب ھوگئے پھر دوبارہ ظاھر ھو گئے اور دوبارہ غائب ھو گئے جسے غیبت کبریٰ کھا جاتا ہے اور اس کے بعد جب تک اللہ نھیں چاھتا ظھور نھیں کریں گے۔

چونکہ یہ عبارت شیعہ عقیدہ کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے اس لیے اسے نقل کیا ہے اور میرا مقصد امت محمد(ص) کا دفاع کرنا ہے مذھبی تعصب سے قطع نظر۔ میں نے اسی لیے کھا کہ جو شیعہ مذھب کا عقیدہ ہے وہ کتاب مقدس کی نص کے عین مطابق ہے"۔(۶)
نیز محمد رضا فخر الاسلام جو پھلے عیسائی تھے اور اس کے بعد مسلمان ھوئے اور اسلام کے مختلف فرقوں میں سے شیعہ مذھب انھوں نے اختیار کیا بھی اس نتیجہ پر پھنچے ہیں۔
انھوں نے یھود و نصاریٰ کی رد میں کتاب انیس الاعلام لکھی جو انسائکلوپیڈیا کے مشابہ ہے اس میں انھوں نے "کتاب مقدس" میں اس حوالے سے بیان ھوئی بشارتوں پر تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پھنچے کہ یہ کتاب مقدس کی نص "مھدی بن حسن عسکری" پر تطبیق کرتی ہے۔(۷)
جو شخص کتاب مقدس کی بشارتوں پر دقیق نگاہ دوڑائے جو ان میں عالمی مصلح کے بارے میں بیان کی گئی ہیں صفات امام مھدی (عج) کے علاوہ کسی پر بھی تطبیق نھیں کرتی اور اگر کوئی شیعہ عقیدہ سے ناآشنا ھو تو وہ کتاب مقدس کی بشارتوں کو سمجھ نھیں پائے گا جیسا کہ کتاب مقدس کے مفسرین نے ایسی باتیں لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر انجیل کے مفسرین نے "سفر رویا" کے ۱ اور ۱۷ بند کے بارے میں لکھا ہے:
وہ شخص جس کے بارے میں یہ بشارتیں خوشخبری دیتی ہیں وہ ابھی پیدا نھیں ھوا ہے اس وجہ سے ان جملوں کی واضح تفسیر آئندہ معلوم ھو گی کہ عالمی مصلح نے ظھور کیا ہے"۔(۸)
نیز بعض اھل سنت کے علماء بھی اسی نتیجہ پر پھنچے ہیں کہ جو ھم نے بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر استاد سعید ایوب نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ کتاب مقدس کے سفر رویا کی بشارتوں کا مصداق امامیہ عقیدہ ہے۔
انھوں نے لکھا ہے:
’’اسفار انبیاء میں لکھا ھوا ہے کہ مھدی کے عمل میں کوئی عیب نھیں ہے"۔
اس کے بعد اس جملے کی وضاحت کرتے ھوئے کھتے ہیں:
" میں گواھی دیتا ھوں کہ مھدی کو ان صفات کے ساتھ میں نے اھل کتاب کی کتابوں میں پایا ہے اور بیشک اھل کتاب نے مھدی کے بارے میں پائے جانے والی خبروں کی پیشگوئی کی ہے جیسا کہ ان کے جد (حضرت محمد مصطفیٰ) کے بارے میں پیشگوئی کی۔ سفر رویا میں ایک خاتون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سے بارہ مرد پیدا ھوں گے"۔
اس کے بعد ایک دوسری خاتون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی وہ خاتون جو آخری مرد جنم دے گی وہ پھلی خاتون کے صلب سے ھو گا اس سفر میں یوں آیا ہے:
"اس عورت کو بھت ساری مشکلات اور خطرات کا سامنا ھو گا اور ان مشکلات کا سمبل تنین(اژدھا) ہے۔ تنین اس عورت کے سامنے کھڑا ھو گا جو منتظر ھو گا کہ وہ بچے کو جنم دے اور وہ اسے نگل جائے"۔(۹)
یہ بات اشارہ کررھی ہے کہ حاکم وقت گویا اژدھا کی طرح اس بچے کے قتل کے لیے کوشاں ھو گا۔
معروف فلاسفر بارکلی اس بچے کی ولادت کے بارے میں وضاحت کرتے ھوئے لکھتے ہیں:

"جب خطرات نے اس خاتون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو خدا نے اس کے بیٹے کو نظروں سے غائب کر دیا تا کہ اسے محفوظ رکھ سکے"۔(۱۰)
اس سفر میں مزید لکھا ہے:
"اس بچے کی غیبت ۱۲۶۰ دن ھو گی اور یہ وہ مدت ہے جو اھل کتاب کے نزدیک رمز و علامت ہے"۔
اس کے بعد بارکلی پھلی خاتون کی نسل کے بارے میں لکھتے ہیں:
تنین(اژدھا) اس عورت کی نسل کے ساتھ بھیانک جنگ وجود میں لائے گا جیسا کہ سفر میں آیا ہے؛ تنین اس عورت پر غضبناک ھو جائے گا اور اس کی نسل کے ساتھ وحشیانہ انداز میں جنگ کرے گا چونکہ وہ الھی احکامات کی حفاظت کر رھے ھوں گے"۔(۱۱)
استاد سعید ایوب ان جملوں کی وضاحت میں لکھتے ہین:
"یہ تمام اوصاف و صفات مھدی کے ہیں اور انھیں صفات کی وجہ سے شیعہ اثنا عشری مھدی کے قائل ہیں"۔(۱۲)
حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ واضح ھونے کی وجہ سے متعدد اور مفصل کتابیں لکھی گئی ہیں اور ائمہ طاھرین سے بھی منقولہ روایات کو جمع کیا گیا ہے ھم یھاں پر صرف امام علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں علمائے اھل سنت کے چند اقوال نقل کرتے ہیں جن میں انھوں نے اھل سنت کے رائج عقیدہ کے برخلاف آپ کی ولادت کے حوالے سے اعتراف کیا ہے کہ آپ کی ولادت ھو چکی ہے چونکہ اھل سنت کا عام عقیدہ یہ ہے کہ امام مھدی کی ابھی ولادت نھیں ھوئی ہے اس وجہ سے وہ شیعوں کی طرح امام مھدی (ع) کے ظھور کے منتظر نھیں ہیں بلکہ ان کی ولادت کے منتظر ہیں۔
علمائے اھل سنت کا ولادت امام مھدی(ع) پر اعتراف
اھل سنت کے بھت سارے علماء نے حضرت امام مھدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور بھت سارے علماء نے اپنی کتابوں میں ان اعترافات کو جمع کیا ہے۔ امام عصر کی غیبت صغریٰ( ۲۶۰ سے ۳۲۹ ھ ق تک) سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
ھم اس مختصر تحریر میں چند علماء کے اعترافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور مزید مطالعہ کے لیے اصلی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں(۱۳):
۱۔ ابن اثیر جزری عزالدین( متوفیٰ ۶۳۰ھ)
انھوں نے کتاب الکامل فی التاریخ، میں ۲۶۰ ھجری قمری کے واقعات تحریر کرتے ھوئے لکھا ہے:
" اس سال ابومحمد علوی عسکری دنیا سے رخصت ھوئے۔ آپ امامیہ عقائد کی بنا پر گیارھویں امام تھے اور محمد کے والد تھے جنھیں امام منتظر کیا جاتا ہے"(۱۴)
۲۔ابن خلکان( متوفیٰ ۶۸۱ھ)
وہ اپنی کتاب وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں:
"ابوالقاسم محمد بن حسن عسکری بن علی الھادی بن محمد الجواد شیعوں کے بارھویں امام اور حجت کے عنوان سے معروف ہیں۔ ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ھجری میں آپ کی ولادت ھوئی"۔
اس کے بعد انھوں نے معروف سیاح ابن ازرق فارقی( متوفیٰ ۵۷۷) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے تاریخ میافارقین میں کھا ہے:
" یہ مذکورہ حجت ربیع الاول کی نویں تاریخ سن ۲۵۵ ھجری کو پیدا ھوئی اور کھا گیا ہے کہ ان کی ولادت آٹھ شعبان سن ۲۵۶ ھجری کو واقع ھوئی اور یھی صحیح ہے"۔(۱۵)
امام مھدی (عج) کی ولادت کے سلسلے میں صحیح قول ابن خلکان کا قول ہے یعنی آپ روز جمعہ ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ھجری کو دنیا میں تشریف لائے اور تمام علمائے تشیع کا اسی قول پر اتفاق ہے۔ اس بارے میں صحیح روایات نقل ھوئی ہیں جن پر بزرگ علماء نے تاکید بھی کی ہے۔
شیخ کلینی کہ جنھوں نے تقریبا غیبت صغریٰ کے زمانے کو درک کیا ہے اس تاریخ کو مسلمات میں سے جانا ہے اور اس تاریخ سے مربوطہ روایات کو دیگر روایات پر ترجیح دی ہے انھوں نے آنحضرت کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے:
"آپ نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ھجری قمری کو پیدا ھوئے"۔(۱۶)
شیخ صدوق (متوفیٰ ۳۸۱) نے اپنے استاد محمد بن محمد عصام کلینی انھوں نے محمد بن یعقوب کلینی انھوں نے علی بن محمد بن بندار سے روایت کی ہے:
"صاحب الزمان(عج) نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ھجری کو پیدا ھوئے"۔(۱۷)
قابل ذکر ہے کہ کلینی نے اپنے قول کو علی بن محمد کی طرف منسوب نھیں کیا اس لیے کہ یہ قول معروف اور سب کے نزدیک مورد قبول ہے۔
۳۔الذھبی (متوفیٰ ۷۴۸)
انھوں نے اپنی تین کتابوں میں امام مھدی(عج) کی ولادت پر اعتراف کیا ہے؛
کتاب العبر میں لکھتے ہیں:
"سن ۲۵۶ ھجری میں محمد بن حسن بن علی الھادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی پیدا ھوئے ۔ وہ وھی ابوالقاسم ہیں جنھیں رافضی حجت کھتے ہیں اور مھدی، منتظر اور صاحب الزمان کے جیسے القاب دیتے ہیں وہ ان کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں"۔(۱۸)
اس طرح تاریخ دول الاسلام میں امام حسن عسکری (ع) کے حالات لکھتے ھوئے رقمطراز ہیں:
حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسی بن جعفر الصادق، ابو محمد الھاشمی حسینی شیعوں کے ایک امام ہیں جن کی عصمت کے وہ قائل ہیں اور انھیں حسن عسکری کھا جاتا ہے اس لیے کہ وہ سامرا میں سکونت پذیر تھے اور اس شھر کو عسکر کھا جاتا تھا۔
 آپ رافضیوں کے امام منتظر کے والد ہیں آپ آٹھ ربیع الاول سن ۲۶۰ ھجری کو دنیا سے رخصت ھوئے اور آپ کو آپ کے والد کے پاس سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن آپ کے بیٹا محمد بن حسن کہ رافضی جنھیں قائم اور حجت کھتے ہیں سن ۲۵۸ ھجری میں پیدا ھوئے"۔(۱۹)
نیز کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:
"منتظر شریف، ابوالقاسم محمد بن حسن العسکری بن علی الھادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین بن الحسین الشھید بن الامام علی بن ابی طالب العلوی الحسینی بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں"۔(۲۰)
یہ بات مخفی نہ رھے کہ ھم نے ذھبی کے قول کو اس بات پر تائید کے عنوان سے نقل کیا ہے کہ وہ امام مھدی (عج) کی ولادت کے قائل ہیں اگر چہ ان کے نزدیک ولادت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
۴۔ ابن الوردی( متوفیٰ ۷۴۹)
تاریخ ابن الوردی میں بھی یوں نقل ھوا ہے:
"محمد بن حسن الخالص نے سن ۲۵۵ ھجری میں دنیا میں قدم رکھا"۔(۲۱)
۵۔ احمد بن حجر ھیثمی شافعی (متوفیٰ ۹۷۶)
انھوں نے الصواعق المحرقہ کے گیارھویں باب کی آخری فصل میں یوں لکھا ہے:
"ابو محمد الحسن الخالص کہ ابن خلکان نے جنھیں عسکری کا نام دیا ہے سن ۲۳۲ ھجری میں پیدا ھوئے، اور ۲۸ سال کی عمر میں سامرا میں دنیا سے رخصت ھوئے اور اپنے والد اور پھوپھی کے پاس سپرد خاک کیے گئے۔ کھا جاتا ہے کہ انھیں زھر دیا گیا۔ ان کے یھاں ابوالقاسم محمد الحجۃ کے علاوہ کوئی بیٹا نھیں تھا جو اپنی والد کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے لیکن خداوند عالم نے انھیں اسی عمر میں حکمت سے نوازا تھا انھیں منتظر اور قائم کھا جاتا ہے چونکہ کھا گیا ہے کہ وہ مدینہ میں نظروں سے اوجھل ھو گئے اور معلوم نھیں ھوا کہ کھاں گئے"۔(۲۲)
۶۔ شبراوی شافعی( متوفیٰ ۱۱۷۱)
انھوں نے کتاب الاتحاف میں وضاحت کی ہے کہ حضرت مھدی محمد بن حسن عسکری نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ھجری میں رات کے وقت پیدا ھوئے"(۲۳)
۷۔ مومن بن حسن شبلنجی( متوفیٰ ۱۳۰۸)
انھوں نے اپنی کتاب نور الابصار میں امام مھدی(عج) کا اسم گرامی، شجرہ نسب، کنیت اور القاب کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ: "آپ مکتب امامیہ کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں"۔(۲۴)
۸۔ خیر الدین زرکلی( متوفیٰ ۱۳۹۶)
انھوں نے کتاب اعلام میں امام مھدی کے حالات لکھتے ھوئے بیان کیا ہے:
" محمد بن حسن عسکری الخالص بن علی الھادی ابوالقاسم مکتب امامیہ کے بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں ۔۔۔ آپ سامرا میں پیدا ھوئے جب آپ پانچ سال کی عمر میں تھے تو آپ کے والد کا انتقال ھو گیا کھا جاتا ہے کہ آپ نیمہ شعبان سن ۲۵۵ ھجری کو پیدا ھوئے اور سن ۲۶۵ ھجری میں غیب صغریٰ میں چلے گئے"۔(۲۵)
یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیب صغریٰ کا سلسلہ سن ۲۶۰ ھجری سے شروع ھوا اور شاید کتاب اعلام میں ۲۶۵ ھجری جو آیا ہے وہ غلطی سے چھپ گیا ھو چونکہ اس کتاب میں عدد سے لکھا گیا ہے عدد میں خطا کا احتمال زیادہ رھتا ہے خاص طور پر عربی میں پانچ اور صفر چونکہ شکل میں بھت قریب ہیں اس غلطی کا احتمال قوی ہے۔
 حوالہ جات
۱۔بحث حول المھدی، آیت اللہ باقر الصدرص۸۷۔
۲۔المھدی الموعود و دفع الشبھات عنہ، عبد الرضا شھرستانی، ص۶۔
۳۔ وھی حوالہ
۴۔ برنارد شاو، عباس محمود العقاد: ۱۲۴،۱۲۵۔
۵۔ بشارات عھدین، محمد صادقی۔
۶۔ البراھین الساباطیہ، بنقل از کشف الاستار، تالید میرزای نوری۔ ص۸۴۔
۷۔ بشارات عھدین، محمد صادقی، ۲۳۲۔
۸۔ بشارات عھدین، ۲۶۴۔
۹۔ سفر رویا، ۳،۱۲۔
۱۰۔ سفر رویا؛ ۱۲/۵۔
۱۱۔ سفر رویا، ۱۲/ ۱۳۔
۱۲۔ المسیح الدجال۔ سعید ایوب؛ ۳۷۹ تا ۳۸۰۔
۱۳۔ رجوع کریں: کتاب الایمان الصحیح؛ الامام المھدی فی نھج البلاغہ، شیخ مھدی فقیہ قزوینی ایمانی، من ھو المھدی؟ یزدی حائری، الامام المھدی، استاد محمد علی دخیل؛ دفاع عن الکافی، سید ثامر العمیدی۔
۱۴۔ الکامل فی التاریخ، ج۷ ص۲۷۴۔
۱۵۔ وفیات الاعیان ج۴ ص ۵۶۲ و ۱۷۶۔
۱۶۔ اصول کافی، ج۱، ص۵۱۴، باب ۱۲۵۔
۱۷۔ کمال الدین، ج۲، ص۴۳۰ باب ۴۲۔
۱۸۔ العبر فی خبر من غبر ج۳ ص۳۱۔
۱۹۔ تاریخ الاسلام، ج۱۹ ص۱۱۳۔
۲۰۔ سیر اعلام النبلاء، ج۱۳ ص۱۱۹۔
۲۱۔ نور الابصار، ۱۸۶۔
۲۲۔ الصواعق المحرقہ، ابن حجر ہیثمی، چاپ اول، ص۲۰۷ چاپ دوم، ص۱۲۴۔
۲۳۔ الاتحاف بحب الاشراف، ۶۸۔
۲۴۔ نور الابصار، ۱۸۶۔
۲۵۔ الاعلام، ۶ ، ۸۰۔
بقلم: سید افتخار علی جعفری
 

Add comment


Security code
Refresh