www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مامون كى موت كے بعد ۲۱۸ھجری ميں اس كا بھائي اس كى جگہ پر خلافت كے منصب بيٹھا اور امام جواد (ع) كے سلسلہ ميں اس نے مامون والى ھى سياست اختيار كى ،

 جب مدينہ ميں امام كى فعاليت سے خوفزدہ ھوا تو وہ ۲۲۰ ھ ميں امام (ع) كو زبر دستى مدينہ سے بغداد لے آيا تا كہ نزديك سے ان كى نگرانى كر سكے اسكى حكومت ميں ايك شخص نے چورى كا اقرار كيا اور اس نے خليفہ سے يہ خواھش ظاھر كى كہ الھى حدود جارى كر كے اس كو پاك كرديا جائے ، معتصم نے تمام فقیھوں كو جلسہ ميں جمع كيا اور امام جواد (ع)كو بھى بلايا ۔
پہھلے اس نے '' ابن ابى داؤد'' (۱) سے سوال كيا كہ چور كا ھاتھ كھاں سے كاٹنا چاھيے ؟
ابن ابى داؤد نے كہا كہ '' كلائي سے'' اور اپنى دليل ميں قرآن كى آيت '' فاغسلوا وجوھكم و ايديكم ... '' پڑھي۔
فقھاء كا ايك گروہ ان كى موافقت ميں تھا ليكن دوسرے گروہ نے ان كے نظريہ كى مخالفت كى اور كھا كہ كھنيوں سے ھاتھ كاٹنا چاھيے اور انھوں نے اپنے نظريہ كہ تائيد ميں آيہ '' فاغسلوا وجوھكم و ايديكم الى المرافق ''(۲) كو دليل بنايا ۔
معتصم نے امام جواد (ع) كى طرف رخ كيا اور پوچھا '' اس مسئلہ ميں آپكا نظريہ كيا ہے ؟ امام (ع) نے فرمايا يہ لوگ اپنا نظريہ پيش كر چكے اب مجھے معاف ركھ۔
معتصم نے اصرار كيا اور امام (ع) كو قسم دے كر كھا : آپ اپنا نظريہ بيان كريں ۔
امام (ع) نے فرمايا: چونكہ تم نے قسم دلائي ہے اس لئے ميں اپنا نظريہ بيان كرتا ھوں دونوں فريقوں نے غلط فيصلہ كيا ہے ۔ كيونكہ چور كى فقط انگلياں كاٹى جائيں گى ۔
آپ (ع) نے فرمايا : اس لئے كہ رسول خدا(ص) نے فرمايا ہے كہ سجدہ سات اعضاء پر واجب ہے ۔ چھرہ ، پيشانى ،دونوں ھاتھوں كى ھتھيلياں ،دونوں گھٹنے اور دونوں پيروں كے انگھوٹھے لھذا چور كا ھاتھ اگر كھنيوں سے كا ٹا جائے تو اس كا ھاتھ نھيں بچے گا كہ وہ سجدہ بجالائے اور دوسرے يہ كہ خدا فرماتا ہے كہ ''انّ المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احداً''(۳) سجدوں كى جگھيں خدا كے لئے ہيں پس خدا كے ساتھ كسى كو نہ پكارو'' لھذا جو خداكيلئے ہے اس كو قطع نھيں كيا جائے گا ۔
معتصم كو امام (ع) كا نظريہ پسند آيا اور اس نے حكم ديا كہ چور كى انگلياں كاٹى جائيں ۔
''ابن ابى داود ''جو خود اس واقعہ كے ناقل ہيں فرماتے ہيں كہ اس مجلس ميں ميں نے (شرم و حيا سے ) موت كى تمنّا كى۔
وہ تين دن كے بعد معتصم كے پاس گيا اوركھا كہ چند دن پھلے والى نشست تمھارى حكومت كے لئے اچھى نھيں تھي، اس لئے كہ تمام علماء اور مملكت كے بزرگ افراد كے سامنے تم نے ابوجعفر(ع) كےفتوى كو جن كو آدھے مسلمان اپنا پيشوا مانتے ہيں اور امر خلافت كے لئے تم سے زيادہ مناسب سمجھتے ہيں دوسروں كے نظريہ پر ترجيح دى يہ خبر لوگوں كے در ميان پھيل گئي اور خود ان كے شيعوں كے لئے برھان بن گئي ہے۔
معتصم جو پھلے ھى سے ھر طرح كى دشمنى اپنے دل ميں ركھتا تھا اور امام (ع) كو راستہ سے ھٹانے كے لئے موقع كى تلاش ميں رھتا تھا ، اس كو ابن ابى داود كى باتوں سے سخت جھٹكالگا اور امام (ع) كو قتل كرنے كے بارے ميں سوچنے لگا۔(۴)
آخر كار اس نے اپنے منحوس منصوبہ كو عملى جامہ پھناديا اور امام جواد(ع)كو جن كى عمر شريف ۲۵ سال سے زيادہ نہ تھى آخر ذى القعدہ ۲۲۰ ھ ق ميں آپ (ع) كو بغداد بلايا اور زھر سے شھيد كرديا۔(۵)
آپ (ع) كے جسد اطھر كو آپ (ع) كے جد گرامى قدر حضرت امام موسى ابن جعفر (ع) كے پھلو ميں سپرد لحد كيا گيا آج بھى ان دونوں اماموں كا مزار مقدس كاظمين كے نام سے مشھور ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ مامون،معتصم،واثق اور متوكل كے زمانہ كے بغداد كے بڑے قاضى القضا ميں سے ايك تھے۔
۲۔ سورہ مائدہ /۶۔
۳۔ سورہ جن/۲۸۔
۴۔ بحار جلد ۵۰/۷۔۵،منقول ازتفسير عياشى ج ۵/۳۲۰۔۳۱۹،انوار البھية/۲۴۳۔۲۴۱۔
۵۔ بحار جلد ۵۰/ ۱ بعض روايتوں ميں يہ آيا ہے كہ معتصم نے مامون كى بيٹى ام الفضل كے ذريعہ امام كو زہر دے ديا بحار جلد ۵۰/۱۰و اعيان الشيعة ج ۲/۳۶۔

Add comment


Security code
Refresh