www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

444444
کیا حسنِ اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اپنوں اور پرایوں میں امین و صادق کی شھرت رکھتے ہیں، ان کی اولاد صالحین و طاھرین میں سے امام جعفر ابن محمد جو صادق کے لقب سے جانے اور پھچانے جاتے ہیں، اسی ماہ مقدس میں پیدا ھوئے، جو پیغمبر گرامی قدر کی ولادت کا مھینہ ہے۔
آئمہ اھل بیت علیھم السلام سے مروی بھت سی روایات میں ان دونوں سچوں یعنی صادقَین کی ولادت باسعادت کی تاریخ 17ربیع الاول بیان کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مسعود بعض روایات میں 12ربیع الاول اور بعض میں دیگر تواریخ کو بھی منقول ہے، اسی لئے امت اسلامیہ کی وحدت و اتحاد کا علَم لے کر اٹھنے والے رھبر امام خمینی﴿رہ﴾ نے 12 تا 17 ربیع الاول کو ھفتۂ وحدت قرار دے دیا، تاکہ ان تمام ایام میں سارا عالم اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد کو مل جل کر منائے۔ ایسے میں انھی ایام میں آپ کے اس فرزند گرامی کا ذکر بھی آنحضرتؐ کے سرورآگیں ذکر کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔
متعدد علماء و محدثین نے لکھا ہے کہ امام جعفر صادق ابن محمد باقر علیھما السلام کی ولادت باسعادت 17ربیع الاول سنہ 83ھ کو مدینہ منورہ میں ھوئی۔ آپ کا دور اپنی خاص صورت حال کی وجہ سے کچھ مختلف تھا۔ بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ اسی دور میں ھوا اور آپ کی زندگی ھی میں بنی عباس کی حکومت قائم ھوگئی۔ حکومتوں کے اس الٹ پلٹ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کو اسلامی تعلیمات کی ترویج کا مناسب موقع مل گیا۔ آپ کے خوانِ علم سے ایک کثیر تعداد نے فیض اٹھایا۔
بعض روایات کے مطابق مختلف مواقع اور ادوار میں آپ سے اکتساب علم کرنے والے افراد کی تعداد چار ھزار تک پھنچتی ہے۔ ان میں عالم اسلام کی بھت سی ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ چنانچہ برصغیر کے نامور اھل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان قنوجی اپنی کتاب ’’تشریف البشر بذکر الائمۃ الاثنی عشر‘‘میں لکھتے ہیں: ’’ایک جماعت اعیان و اعلام آئمہ کی ان سے راوی ہے، جیسے یحییٰ بن سعید و ابن جریح و مالک بن انس و ثوری و ابن عیینہ و امام ابوحنیفہ و ابو ایوب سجستانی وغیرہ۔"
امام ابو حنیفہ کے آپ کی شاگردی اختیار کرنے کے بارے میں بھت سے علماء نے لکھا ہے اور اس سلسلے میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں۔ خود امام ابو حنیفہ کے کئی اقوال اس سلسلے میں منقول ہیں اور ایک قول تو شھرہ آفاق ہے: لولا السنتان لھلک النعمان۔ یعنی اگر وہ دو سال نہ ھوتے جن میں، میں نے جعفر ابن محمد سے کسب فیض کیا تو (میں) نعمان ھلاک ھو جاتا۔
حیرت ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے منھج فکر کے مطابق اس مسئلے پر انگشت نمائی کی ہے۔ چنانچہ برصغیر کے نامور محقق علامہ شبلی نعمانی نے امام ابو حنیفہ پر لکھی گئی اپنی کتاب سیرۃ النعمان میں اس کا جواب دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ابو حنیفہ ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر رھے اور فقہ و حدیث کے متعلق بھت بڑا ذخیرہ حضرت ممدوح کا فیض صحبت تھا۔
امام صاحب نے ان کے فرزند رشید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پرفیض صحبت سے بھی بھت کچھ فائدہ اٹھایا، جس کا ذکر عموماً تاریخوں میں پایا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ خیال کی ہے کہ امام ابو حنیفہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ھم عصر تھے، لیکن یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اور خیرہ چشمی ہے، امام ابو حنیفہ لاکھ مجتھد اور فقیہ ھوں، لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت جعفر صادق سے کیا نسبت، حدیث وفقہ بلکہ تمام مذھبی علوم اھل بیت کے گھر سے نکلے ہیں۔ ’’وصاحب البیت ادری بمافیھا‘‘ [گھر والے ھی بھتر جانتے ہیں کہ گھر میں کیا ہے]۔ (سیرۃ النعمان ص ۵۴، طبع آگرہ﴾
نواب صدیق حسن نے اپنی مذکورہ کتاب میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے بھت سے فضائل و کمالات اور معجزات و کرامات نقل کئے ہیں۔ ھم چند عبارات اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں:
* ابو حاتم نے کھا ہے: جعفر صادق ثقۃ لا یسئل عن مثلہ
جعفر صادق ثقہ ہیں اور ایسی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال نھیں کیا جاتا۔
* جعفر علیہ السلام مجاب الدعوۃ تھے۔
یعنی ان کی ھر دعا اللہ کے حضور قبول ھوتی تھی۔
وضاحت کرتے ھوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
جب اللہ سے کوئی سوال کرتے ھنوز قول تمام نہ ھوتا تھا کہ وہ شے سامنے ان کے آموجود ھوتی۔
* داؤد بن علی بن عباس نے معلی بن حسین غلام جعفر صادق علیہ السلام کو قتل کرکے سارا مال اس کا لے لیا تھا۔ یہ خبر جعفر (علیہ السلام) کو پھنچی، اپنے گھر کو چلے گئے اور ساری رات صبح تک کھڑے رھے۔ جب وقت سحر کا ھوا سنا، کھتے ہیں: یا ذا القوۃ القویۃ یا ذا المحال الشدید یا ذالعزۃ التی کل خلقک لھا ذلیل اکفنا ھذہ الطاغیۃ وانتقم لنا منہ [اے زبردست قوت والے، اے شدید گرفت کرنے والے، اے ایسی عزت والے کہ جس کے سامنے اس کی ساری مخلوق عاجز و ذلیل ہے، اس ظالم کے مقابلے میں ھماری مدد فرما اور اس سے ھمارا انتقام لے۔]
یہ کہہ رھے تھے کہ اتنے میں آوازیں بلند ھوئیں کہ داؤد بن علی [عباسی] ناگھاں مر گیا۔
چند بزرگ علماء کے اقوال امام صادق علیہ السلام کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں:
امام مالک بن انس کھتے ہیں کہ: "میں نے جب بھی امام صادق علیہ السلام کو دیکھا، ان کو تین میں سے ایک حالت میں پایا، یا آپ نماز پڑھ رھے ھوتے، یا روزے سے ھوتے، یا تلاوت قرآن میں مشغول ھوتے اور میں نے کبھی بھی آپ کو بے وضو نھیں دیکھا۔" (ابن حجر عسقلانی تھذیب التھذیب، ج۲﴾
ایک اور روایت میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل ھوا ہے: "جعفر بن محمد سے افضل علم، عبادت اور ورع کے لحاظ سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں آیا۔" (الامام الصادق، والمذاھب الاربعہ،ج۱﴾
امام ابو حنیفہ کھتے ہیں: "میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ فقیہ تر کسی کو نھیں پایا۔" (تذکرۃ الحفاظ، ج۱﴾
ابو نعیم اصفھانی اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں عمر وبن المقدام سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کھا: "میری نگاہ جعفر بن محمد پر پڑی تو میں جان گیا کہ آپ سلالۃ النبیین میں سے ہیں۔ یعنی آپ انبیاء کا حاصل ہیں۔" (حلیۃ الاولیاء،ج۳﴾
ابن حجر عسقلانی نے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں ابن حبان کا یہ قول نقل کیا ہے: "آپ اھل بیت کے سرداروں میں سے ہیں۔ آپ فقیہ و علیم و فاضل تھے اور ھم آپ کے کلام کے نیازمند تھے۔" (تھذیب التھذیب،ج۲﴾
معروف عالم شبلنجی نے اپنی کتاب نور الابصار میں وھی بات لکھی ہے، جو ھم قبل ازیں مولانا صدیق حسن کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
کان جعفر الصادق (رضی اللہ عنہ) مستجاب الدعوۃ واذا سأل اللہ شیئاً لم یتم قولہ الا و ھو بین یدیہ۔
یعنی جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) مستجاب الدعوۃ تھے، وہ اللہ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کرتے تو ابھی آپ کی بات ختم بھی نہ ھوتی تھی کہ وہ چیز آپ کے سامنے ھوتی تھی۔
ابن خلکان کھتے ہیں: "آپ اھل بیت کے سرداروں میں سے تھے اور آپ کے کلام کی سچائی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق پڑ گیا تھا۔" (وفیات الاعیان،ج۱﴾
یہ اور ایسی بھت سی عبارتیں کتب اھل سنت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں نقل ھوئی ہیں، جن سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ آپ کا وجودِ ذی جود امت اسلامیہ اور ساری انسانیت کا اثاثہ و سرمایہ ہے۔ آپ کے بارے میں سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رھیں گی۔ اھل مغرب نے بھی آپ کے فلسفی اور سائنسی نظریات پر تحقیق کی ہے اور زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دانش و حکمت کا ایک بھت بڑا ذخیرہ آپ سے منقول ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ھم اس مشترکہ علمی ذخیرے کو اپنی قیمتی وراثت سمجھتے ھوئے اس سے استفادہ کریں۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh