www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سید بن طاووس(رہ) اپنی کتاب "مھج الدعوات" میں امام صادق علیہ السلام کی دعاوں کے حصے میں یوں لکھتے ہیں: منصور نے اپنے دوران

 حکومت سات مرتبہ امام صادق علیہ السلام کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ کبھی مدینہ میں ، کبھی ربذہ میں اور اس کے بعد کوفہ و بغداد میں۔ اور ھر مرتبہ آپ کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔ اور ھر مرتبہ امام کے ساتھ برے رفتار سے پیش آتا رھا اور آپ کو برا بھلا کھتا رھا ہے۔ یھاں پر شیخ عباس قمی (رہ) کی کتاب "منتھی الآمال "سے ایک غم انگیز واقعہ نقل کرتے ہیں:
ایک دن منصور اپنے قصر میں بیٹھا ھوا تھا اور جب بھی وہ اس قصر میں بیٹھتا تھا تو اس دن کو "یوم ذبح" کھا جاتا تھا اس لیے کہ جب وہ اس جگہ بیٹھتا تھا تو کسی نہ کسی کا خون ضرور کرتا تھا۔ ان ایام میں امام صادق علیہ السلام کو اس نے مدینہ سے بلوا رکھا تھا۔ جب رات ھوئی اور اس نے ربیع کو بلا کر کھا: جاو جعفر بن محمد کو میرے پاس لاو چاھے جس حالت میں بھی ھوں۔ ربیع کھتا ہے میں باھر نکلا اور کھا "اِنّا للّهِ وَ اِنّا اِلَیْهِ راَجِعُونَ" اگر میں امام کو اس وقت اس کے پاس لایا تو ھر گز یہ انھیں معاف نھیں کرے گا اور انھیں شھید کر دے گا۔ اور میری آخرت برباد ھو جائے گی اور اگر میں نھیں لاوں گا تو مجھے قتل کرکے میری نسل ختم کر دے اور میرا مال لوٹ لے گا۔ میں اسی تردید میں پڑ گیا کہ دنیا کو انتخاب کروں یا آخرت کو۔ آخر کار میں میرا نفس دنیا کی طرف راغب ھو گیا اور میں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔
امام کے پاس گیا امام نماز میں مشغول تھے میں نے کھا خلیفہ نے آپ کو طلب کیا ہے۔ فرمایا: ٹھہرو میں دعا پڑھ لوں اور لباس پھن لوں۔ میں نے کھا اجازت نھیں ہے فرمایا: ٹھہرو میں غسل کر لوں اور موت کے لیے تیار ھو جاوں۔ میں نے کھا: اس کام کی بھی اجازت نھیں دوں گا۔ پس میں اس ضعیف مرد کو ایک پیراھن کے ساتھ سر و پا برھنہ گھر سے باھر لایا۔ تھوڑا راستہ چلنے کے بعد دیکھا کہ امام میں چلنے کی طاقت نھیں ہے اور زمین پر گرے جا رھے ہیں تو مجھے رحم آ گیا میں نے اپنی سواری امام کو دی اور خود پا پیادہ دربار خلیفہ تک گیا۔ دربار کے پاس پھنچا تو امام نے فرمایا: اے ربیع! تو تو ھماری نسبت اتنا سنگ دل نھیں تھا تھوڑی اجازت دے کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں اور اپنے خدا کے ساتھ مناجات کر لوں۔ میں نے اجازت دے دی۔ امام نے دو رکعت نماز ادا کی اور کافی دیر تک گریہ و زاری کے ساتھ خدا سے راز و نیاز کرتے رھے۔ جب فارغ ھوئے تو میں نے ان کا ھاتھ پکڑا اور دربار میں لے گیا۔ جب امام دربار میں داخل ھوئے اور منصور کی نگاہ آپ پر پڑی تو اس نے غصے سے کھا: اے جعفر آپ بنی عباس کی نسبت اپنی سرکشی اور دشمنی کو نھیں چھوڑیں گے؟ آپ کتنی بھی کوشش کریں ھماری حکومت کو ٹھیس نھیں پھنچا سکتے۔ امام نے فرمایا: خدا کی قسم جو تم کہہ رھے ھو ایسا میں نے کچھ نھیں کیا۔ تم جانتے ھو کہ میں نے بنی امیہ کہ جو ھم اور تمھاری نسبت سب سے زیادہ بدتر تھے کے دور میں بھی ایسا کچھ نھیں کیا۔ میں نے انکے لیے برا نھیں سوچا اور تمھارے لیے بھی برا نھیں سوچا ہے۔۔۔ اس کے بعد منصور نے کچھ دیر کے لیے سر جھکا دیا۔ وہ جس تکیے سے ٹیک لگائے ھوئے تھا ھمیشہ اس کے نیچے تلوار رکھتا تھا۔ اس کے بعد اس نے کھا: آپ جھوٹ بول رھے ہیں۔ اس نے تخت کے نیچے سے کچھ خطوط نکالے اور امام کی طرف پھینک کر کھا: یہ آپ کے خطوط ہیں جو آپ نے خراسان والوں کی طرف لکھے ہیں کہ میری بیعت توڑ دیں اور آپ کی بیعت کریں۔ امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ مجھ پر تھمت ہے، میں نے ایسا کوئی خط نھیں لکھا اور نہ ایسا ارادہ رکھتا ھوں۔۔۔، اچانک منصور نے تکیے کے نیچے سے تلوار کھینچی۔ ربیع کھتا ہے: جب میں نےدیکھا کہ منصور نے تلوار کھینچ لی ہے تو میں کانپ گیا اور یقین کر لیا کہ اب امام کو شھید کر دے گا۔ لیکن اس نے دوبارہ تلوار نیچے رکھ دی اور کھا: آپ کو شرم نھیں آتی کہ آپ اس عمر میں فتنہ برپا کرنا چاھتے ہیں اور خون بھانا چاھتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے دوبارہ کھا: خدا کی قسم میں نے ان خطوط کو نھیں لکھا ان پر میری دستخت اور مھر نھیں ہے۔ پھر منصور نے تھوڑی دیر کے لیے سر جھکا دیا۔ اس کے بعد امام سے کھا: سچ کہہ رھے ہیں آپ یہ خطوط آپ کے نھیں ہیں۔ اس کے بعد امام (ع) کو اپنے پاس بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد امام کو واپس گھر روانہ کر دیا۔
ربیع کھتا ہے کہ مجھے بھت تعجب ھوا کہ کیسے ھو سکتا ہے کہ منصور کا ارادہ بدل گیا ھو جبکہ وہ اتنا غضبناک تھا۔ دربار سے باھر نکلنے کے بعد میں نے امام سے پوچھا: یابن رسول اللہ! مجھے تعجب ہے کہ کیسے منصور نے شروع میں آپ کے ساتھ ویسا سلوک کیا اور آخر میں ایسا۔۔۔ اور جتنا منصور غضبناک ھو رھا تھا آپ پر اس کا کوئی اثر نھیں ھو رھا تھا۔ حضرت نے فرمایا: جس شخص کے دل میں خداوند ذوالجلال کی جلالت و عظمت حاکم ھو وہ مخلوق کے غصے سے نھیں گھبراتا۔جو خدا سے ڈرتا ھو وہ مخلوق سے نھیں ڈرتا۔
ربیع کھتا ہے کہ جب میں خلیفہ کے پاس واپس گیا تو اس کی عجیب رفتار کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے کھا: اے ربیع! جب میں نے انھیں بلایا تھا تو میں ان کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا اور ان کا کوئی عذر قبول نھیں کرنا چاھتا تھا۔ اس لیے کہ چاھے وہ میرے خلاف تلوار سے قیام نہ کریں لیکن ان کا زندہ رھنا ھی میرے لیے قیام نہ کرنے سے بدتر ہے۔ اس لیے میں جانتا ھوں لوگ انھیں اور ان کے آباو اجداد کو امام مانتے ہیں۔ اور انھیں واجب الاطاعہ سمجھتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ عالمتر، زاھد تر اور خوش اخلاق تر ہیں بنی امیہ کے دور میں، میں ان کے حالات سے با خبر رھا ھوں۔ جب پھلی مرتبہ میں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار نکالی تو میری آنکھوں کے سامنے رسول خدا(ص) آ گئے اور میرے اور ان کے درمیان حائل ھو گئے۔ اور اپنی آستینیں الٹ کر غضبناک حالت میں میری طرف دیکھ رھے تھے۔ تو میں نےخوف سے تلوار کو نیام میں رکھ دیا۔ دوسری بار بھی جب میں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو پھر رسول خدا(ص) اسی حالت میں میرے سامنے آ گئے اور اس قدر غصے کی حالت میں تھے کہ اگر میں انھیں قتل کرتا تو وہ مجھے کبھی زندہ نہ چھوڑتے۔ میں اس وجہ سے منصرف ھو گیا اور انھیں احترام سے واپس بھیج دیا۔ یہ اولاد زھرا ہیں اور کوئی ان کے حق میں جفا نھیں کر سکتا مگر وہ جو دین سے بالکل بے بھرہ ھو۔ منصور نے دشمن امام ھونے کے باوجود آپ کے کمالات و فضائل کا اعتراف کیا۔ لیکن اس کے باوجود کہ وہ عظمت اھلبیت(ع) واقف تھا دولت کا نشہ اس کے دل و دماغ میں چڑ گیا اور اس نے کر ھی دیا جو اس کو نھیں کرنا چاھیے تھا۔
مشکاۃ الانوار میں نقل ھوا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کی زندگی کے آخری لمحوں میں ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ھوا۔ امام علیہ السلام اس زھر کی وجہ سے جو منصور دوانیقی نے آپ کو دیا تھا اتنا نھیف و کمزور ھو چکے تھے کہ آپ کے بدن پر گوشت نام کی کوئی چیز نھیں تھی۔ امام کے صحابی آپ کو دیکھ کر گریہ کرنے لگے۔ امام نے فرمایا: کیوں رو رھے ھو؟ کھا: کیسے نہ رووں جبکہ آپ کی یہ حالت ہے؟ فرمایا: ایسا نہ کرو، مومن وہ ہے جس پر جسے جو بھی پیش آئے وہ اسے خیر سمجھے اگر اس کے رشتہ دار اس سے دور ھو جائیں تو یہ بھی اس کے لیے بھتری ہے اور اگر وہ مشرق و مغرب کا مالک بن جائے تو وہ بھی اس کے لیے خیر اور بھلائی ہے۔ امام صادق علیہ السلام آخر کار منصور دوانیقی کی طرف سے دئے گئے زھر کی وجہ سے شھید ھو گئے۔
تاریخ میں نقل ھوا ہے کہ شھادت کے بعد امام موسی کاظم علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کو دو سفید کپڑوں میں جو ان کا احرام تھا اور ایک پیراھن اور عمامہ جو امام زین العابدین (ع) کی نشانی تھی کے ساتھ کفن کیا اور جنت البقیع میں اپنے اجداد کے ساتھ دفن کر دیا۔ امام کاظم علیہ السلام نے دستور دیا کہ آپ کے والد بزرگوار کے حجرے کا چراغ روشن رکھا جائے اور یہ چراغ جب تک امام کاظم علیہ السلام مدینہ میں تھے ھمیشہ روشن رکھا۔
مگر افسوس کہ آج ان کی قبر مبارک بے چراغ ہے، گنبد ہے نہ روضہ ہے ۔۔۔
 

Add comment


Security code
Refresh