www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مالک بن انس: "ما رَأَتْ عَیْنٌ وَلا سَمِعَتْ اذُنٌ وَ لا خَطَرَ عَلى‏ قَلْبِ بَشَرٍ افْضَلُ مِنْ جَعْفَرِبْنِ مُحَمَّدٍ فی علم و عبادۃ و تقویٰ"علم، عبادت اور پرھیزگاری

 میں جعفر بن محمد سے برتر نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں خطور کیا۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شخصیت کا ایک اھم پھلو آپ کا علمی کمال تھا۔ اھلسنت و الجماعت کے بڑے بڑے اماموں نے آپ کے آگے زانو ادب تہہ کئے اور آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کر کے اس پر فخر کیا اور امام علیہ السلام کے علمی مقام کی تعریف و تمجید کی۔ ذیل میں اھلسنت کے دو اماموں کے اعترافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کے بعد دیگر علماء اھلسنت کے اقوال بھی اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں:
۱۔ ابو حنیفہ
فرقہ حنفی کے بانی ابو حنیفہ کھتے ہیں: میں نے جعفر بن محمد سے زیادہ عالم کسی کو نھیں دیکھا۔(۱)
انھوں نے ایک اور مقام پر کھا: جب منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کو اپنے دربار میں بلوایا تو مجھے طلب کیا اور کھا: لوگ جعفر بن محمد کے گرویدہ ھو گئے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں ان کی اھمیت کو ختم کرنے کے لیے تم مشکل سے مشکل سوال تیار کرو۔ میں نے چالیس مشکل سوال تیار کئے۔ پھر ایک دن منصور نے مجھے بلایا۔ جب میں مجلس میں داخل ھوا تو دیکھا کہ جعفر بن محمد بھی اس کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میری نگاہ ان پر پڑی تو میں ان کی عظمت اور جلالت سے اس قدر متاثر ھوا کہ اتنا کبھی کسی سے نھیں ھوا تھا۔
میں نے سلام کیا اور منصور کے اشارے سے بیٹھ گیا۔ منصور نے ان کی طرف رخ کیا اور کھا: یہ ابو حنیفہ ہیں۔ انھوں نے کھا: ھاں میں انھیں جانتا ھوں۔
اس کے بعد منصور نے میری طرف مڑ کر کھا: اے ابو حنیفہ! اپنے سوالات ابو عبد اللہ سے پوچھو۔
میں نے سوالات کرنا شروع کئے، جو مسئلہ میں بیان کرتا تھا جعفر بن محمد اس کے جواب میں فرماتے تھے: تمھارا عقیدہ اس سلسلے میں یہ ہے اھل مدینہ کا عقیدہ یہ ہے اور ھمارا عقیدہ یہ ہے۔
بعض مسائل میں وہ ھمارے عقیدے سے موافق، بعض میں اھل مدینہ کے عقیدہ سے موافق اور بعض میں دونوں کے ساتھ مخالف تھے۔
میں نے چالیس سوال پیش کئے اور انھوں نے سب کے قانع کنندہ جواب دئیے۔
اس کے بعد ابو حنیفہ کا کھنا ہے: "حضرت امام صادق علیہ السلام تمام علماء سے زیادہ عالم اور فقھی مسائل میں علماء کے اختلافات سے بھی آگاہ تھے"۔(۲)
تاریخ میں ہے کہ دسیوں مقامات پر ابو حنیفہ نے امام صادق علیہ السلام کی شاگردی پر فخر کرتے ھوئے اسے اپنی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کا یہ جملہ معروف ہے "لولا سنتان لھلک نعمان"( اگر نعمان دو سال جعفر بن محمد کی شاگردی نہ کرتا تو ھلاک ھو گیا ھوتا)۔(۳)
۲۔ مالک بن انس
اھلسنت کے معروف چار اماموں میں سے ایک اور فرقہ مالکی کے بانی مالک بن انس کھتے ہیں: ایک مدت تک میری جعفر بن محمد کے پاس رفت و آمد رھی، میں نے ھمیشہ انھیں تین حالتوں میں سے ایک میں دیکھا یا نماز کی حالت میں یا روزے کی حالت میں یا تلاوت قرآن کی حالت میں۔ اور کبھی میں نے انھیں نھیں دیکھا کہ وہ بغیر وضو کے حدیث بیان کریں۔ (۴)
اس کے بعد انھوں نے کھا: "ما رَأَتْ عَیْنٌ وَلا سَمِعَتْ اذُنٌ وَ لا خَطَرَ عَلى‏ قَلْبِ بَشَرٍ افْضَلُ مِنْ جَعْفَرِبْنِ مُحَمَّدٍ فی علم و عبادۃ و تقویٰ"علم، عبادت اور پرھیزگاری میں جعفر بن محمد سے برتر نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں خطور کیا۔(۵)
۳۔ ابن حجر ھیثمی
ابن حجر ھیثمی لکھتے ہیں کہ جعفر بن محمد سے اس قدرعلوم نشر ھوئے کہ آپ ھر انسان کا ورد زباں ھو گئے اور ھر جگہ آپ کا چرچا ھو گیا اور فقہ و حدیث کے بزرگترین علماء جیسے یحییٰ بن سعید، ابن جریح، مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابو حنیفہ، شعبہ اور ایوب سجستانی نے آپ سے حدیثیں نقل کرتے تھے۔(۶)
۴۔ ابو بحر جاحظ
تیسری صدی ھجری کے معروف دانشمند ابو بحر جاحظ کھتے ہیں: جعفر بن محمد وہ شخص ہیں جن کا علم پوری دنیا پر چھا گیا ہے اور کھا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری ان کے شاگرد تھے اور ان دو افراد کا جعفر بن محمد کا شاگرد ھونا ان کے علمی مقام کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔(۷)
۵۔ابن خلکان
معروف مورخ لکھتے ہیں: جعفر بن محمد فرقہ امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک اور خاندان پیغمبر(ص) کے بزرگان میں سے ہیں کہ آپ کی سچائی اور صداقت کی بنا پر آپ کو صادق کھا جاتا ہے۔(۸)
حوالہ جات:
۱۔ ذهبى، شمس الدین محمد، تذکرة الحفاظ، بیروت، داراحیا، التراث العربى، ج ۱، ص ۱۶۶۔
۲۔ مجلسى، بحارالانوار، ط۲، تهران، المکتبة الاسلامیه، ۱۳۹۵ ھ.ق ج ۴۷، ص ۲۱۷- حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة، ط ۲، بیروت، دارالکتاب العربى، ۱۳۹۰ ھ.ق، ج ۴، ص ۳۳۵۔
۳۔ مختصر التحفه الاثني عشريه، ص ۸، الامام صادق عليه‏السلام، ج ۱، ص ۵۸، اعلام الهدايه، ج ۸، ص ۲۳.
۴۔ ابن حجر العسقلانى، تهذیب التهذیب، ط ۱، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۴ ھ.ق ج ۱، ص ۸۸۔
۵۔ حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة ، ج ۱، ص ۵۳۔
۶۔ الصواعق المحرقه، ط 2، قاهره، مکتبة القاهره، ۱۳۸۵ ھ.ق، ص ۲۰۱۔
۷۔ حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاهب الاربعة ، ج ۱، ص ۵۵(به نقل از رسائل جاحظ)۔
۸۔ وفیات الاعیان، تحقیق: دکتر احسان عباس، ط ۲، قم، منشورات الشریف الرضى، ۱۳۶۴ ھ.ش، ج ۱، ص ۳۲۷۔
 

Add comment


Security code
Refresh