www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ولادت

 قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کے والد حجت الاسلام والمسلمين حاج سيد جواد حسيني خامنہ اي مرحوم تھے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي۲۸ صفر تيرہ سو اٹھاون ھجري قمري کو مشھد مقدس ميں پيدا ھوئے

آپ اپنے خاندان کے دوسرے فرزند تھے آپ کے والد سيد جواد خامنہ اي کي زندگي ديني علوم کے ديگر اساتذہ اور علمائے دين کي مانند انتھائي سادہ تھي؟ان کي شريک حيات اور اولاد نے بھي قناعت اور سادہ زندگي گزارنے کے گھرے معني ان سے سيکھے اور اس پر عمل کرتے ھیں۔

قائد انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اپني اور اپنے اھل خانہ کي زندگي اور حالات کے بارے ميں اپني بچپن کي يادوں کو بيان کرتے ھوئے فرماتے ہيں:

ميرے والد ايک مشھور عالم دين تھے ليکن بھت ھي پارسا اور گوشہ نشين۔

ھماري زندگي تنگ دستي ميں بسر ھوتي تھي؟مجھے ياد ہے کہ بعض اوقات ايسا بھي ھوتا تھا کہ ھمارے گھر ميں رات کا کھانا نھيں ھوتا تھا اور ھماري والدہ بڑي مشکل سے ھمارے ليے کھانے کا بندوبست کرتي تھيں اور ... وہ رات کا کھانا بھي کشمش اور روٹي ھوتي تھی۔

ليکن جس گھر ميں سيد جواد کا خاندان رھتا تھا اس کے بارے ميں قائد انقلاب اسلامي کچھ يوں بيان کرتے ہيں:

ميرے والد صاحب کا گھر کہ جھاں ميري پيدائش ھوئي اور ميرے بچپن کے چار پانچ سال وھيں گزرے ، ساٹھ ستر ميٹر کا ايک گھر تھا جو مشھد کے ايک غريب علاقے ميں واقع تھا۔ اس گھر ميں صرف ايک ھي کمرہ اور ايک تنگ و تاريک سرداب(تھہ خانہ)تھا۔جب کوئي مھمان ھمارے والد سے ملنے کے ليے آتا ،ھمارے والد چونکہ عالم دين تھے اس ليے عام طور پر لوگ ان سے ملنے کے ليے آتے تھے تو ھم سب گھر والوں کوسرداب( تھہ خانہ ) ميں جانا پڑتا اور مھمان کے جانے تک وھيں پر رھتے۔بعد ميں ميرے والد کے کچھ عقيدت مندوں نے ھمارے گھر کے ساتھ والي زمين خريد کر ميرے والد صاحب کو دے دي اور پھر ھمارا گھر تين کمروں کا ھو گيا۔

قائد انقلاب اسلامي نے ايک غريب ليکن ديندار ، پاکيزہ اور علم دوست گھرانے ميں تربيت پائي اور چار سال کي عمر ميں اپنے بڑے بھائي سيد محمد کے ھمراہ مکتب بھيج ديے گئے تا کہ قرآن پڑھنا سيکھ ليں۔اس کے بعد دونوں بھائيوں نے تازہ قائم ھونے والے اسلامي اسکول دارالتعليم ديانتي ميں ابتدائي تعليم حاصل کي۔

ديني درسگاہ ميں

آپ ھائي اسکول کے بعد ديني درسگاہ ميں داخل ھو گئے اور اپنے والد اور اس وقت کے ديگر اساتذہ سے عربي ادب اور مقدمات(قواعد) کي تعليم حاصل کي ۔ آپ ديني درسگاہ ميں داخلے اور ديني تعليم کے انتخاب کے محرک کے بارے ميں کھتے ہيں:

اس نوراني راستے کے انتخاب ميں بنيادي عنصر اور محرک ميرے والد کا عالم دين ھونا تھا اور ميري والدہ کي خواھش تھي۔

آپ نے جامع المقدمات ، سيوطي اور مغني کي مانند عربي ادب کي کتابيں مدرسہ سليمان خان اور مدرسہ نواب کے اساتذہ سے پڑھيں اور آپ کے والد بھي اپنے بچوں کي تعليم پر نظر رکھتے تھےاسي دوران آپ نے کتاب معالم بھي پڑھي۔اس کے بعد آپ نے شرائع الاسلام اور شرح لمعہ اپنے والد سے اور ان کے بعض حصے آقا ميرزا مدرس يزدي مرحوم سے پڑھے اور رسائل و مکاسب حاج شيخ ھاشم قزويني سے اور فقہ و اصول کے دروس سطح اپنے والد سے پڑھے۔آپ نے حيرت انگيز طور پر صرف ساڑھے پانچ سال کے عرصے ميں مقدمات اور سطح کے کورس مکمل کر لیاآپ کے والد سيد جواد مرحوم نے ان تمام مراحل ميں اپنے چھيتے بيٹے کي ترقي و پيشرفت ميں اھم کردار ادا کيا۔ قائد انقلاب اسلامي نے منطق اور فلسفہ ميں کتاب منظومہ سبزواري پھلے آيت اللہ ميرزا جواد آقا تھراني مرحوم اور بعد ميں شيخ محمد رضا ايسي سے پڑھي۔

نجف اشرف کي ديني درسگاہ ميں

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ، کہ جنھوں نے اٹھارہ سال کي عمر ميں مشھد ميں عظيم مرجع آيت اللہ العظمي ميلاني مرحوم سے فقہ اور اصول کا درس خارج پڑھنا شروع کيا تھا، سن ۱۹۵۷ء ميں مقدس مقامات کي زيارت کے ليے نجف اشرف تشريف لے گئے اور سيد محسن حکيم مرحوم،سيد محمود شاھرودي ، ميرزا باقر زنجاني ، سيد يحيي ، يزدي اور ميرزا حسن بجنوردي سميت نجف اشرف کے عظيم مجتھدين کے دروس ميں شرکت کي۔آپ کو يھاں درس و تدريس اور تحقيق کا معيار پسند آيا اور نجف ميں تعليم جاري رکھنے کے اپنے فيصلے سے اپنے والد کو آگاہ کيا ليکن وہ راضي نہ ھوئے چنانچہ آپ کچھ عرصے کے بعد مشھد واپس لوٹ آئے۔

قم کي ديني درسگاہ ميں

حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ سن ۱۹۵۸ء سے لے کر سن ۱۹۶۴ء تک قم کي ديني درسگاہ ميں فقہ، اصول اور فلسفہ کي اعلي تعليم ميں مشغول رھ اور آيت اللہ العظمي بروجردي، امام خميني رحم اللہ عليہ ، شيخ مرتضي حائري يزدي اور علامہ طباطبائي جيسے عظيم اساتذہ سے کسب فيض کيا۔۱۹۶۴ء ميں قائد انقلاب اسلامي کو اپنے والد سے خط و کتابت کے بعد پتہ چلا ان کے والد کي ايک آنکھ کي بينائي موتيا کے مرض کي وجہ سے جا چکي ہے آپ کو يہ خبر سن کر بھت دکھ پھنچا۔آپ قم کي عظيم درسگاہ ميں رہ کر اپني تعليم کو جاري رکھنے اور مشھد واپس جا کر اپنے والد کي ديکھ بھال کرنے کے سلسلے ميں شش و پنج کا شکار ھو گئے حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي اس نتيجے پر پھنچے کہ انھيں اللہ کي رضا کے لئے مشھد واپس جانا چاھيے اور اپنے والد کي ديکھ بھال کرني چاھئے۔اس بارے ميں آپ فرماتے ہيں:

ميں مشھد گيا اور خدا نے مجھے بھت زيادہ توفيقات عنايت فرمائيں۔بھرحال ميں اپنے کام اور ذمہ داريوں ميں مشغول ھوگيا۔اگر مجھے زندگي ميں کوئي توفيق حاصل ھوئي ہے تو ميرا يہ خيال ہے کہ وہ اس نيکي کا صلہ ہے جو ميں نے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ کي تھي۔ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے اس دو راھے پر صحيح راستے کا انتخاب کياآپ کے بعض اساتذہ اور ساتھي افسوس کرتے تھے کہ کيوں آپ نے اتني جلدي قم کو چھوڑ ديا اگر وہ وھاں رہ جاتے تو آئندہ يہ بن جاتے وہ بن جاتے... ليکن مستقبل نے ظاہر کر ديا کہ ان کا فيصلہ صحيح تھا اور الہي فيصلے نے لوگوں کے اندازوں سے کھيں بھتر ان کي تقدير لکھي تھي۔ کيا کوئي يہ سوچ سکتا تھا کہ يہ پچيس سالہ باصلاحيت عالم دين جو اپنے والدين کي خدمت کے ليے قم چھوڑ کر مشھد واپس چلا گيا تھا، پچيس سال بعد ولايت امر مسلمين کے اعلي مقام و مرتبے پر پہنچ جائے گا؟

آپ نے مشھد ميں بھي اپني اعلي تعليم کا سلسلہ جاري رکھا اور تعطيلات،جدوجھد،جيل اور سفر کے علاوہ ۱۹۶۸ء تک مشھد کے عظيم اساتذہ خصوصا" آيت اللہ ميلاني "سے با قاعدہ طور پر تعليم حاصل کي۔اسي طرح سن ۱۹۶۴ء سے کہ جب آپ مشھد ميں مقيم تھے ، تعليم حاصل کرنے اور بوڑھے اور بيمار والد کي ديکھ بھال اور خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نوجوان طلبہ کو فقہ و اصول اور ديني علوم کي ديگر کتابيں بھي پڑھاتے تھے۔

سياسي جدوجھد

حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي بقول خود ان کے، امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے فقھي ، اصولي ،سياسي اور انقلابي شاگردوں ميں سے ہيں ليکن ان کے ذھن ميں طاغوت کے خلاف دشمني اور سياست و جدوحھد کي پھلي کرن عظيم مجاھد اور شھيد راہ اسلام سيد مجتبي نواب صفوي نے ڈالي۔جب نواب صفوي چند فدائيان اسلام کے ساتھ سن ۱۹۵۲ء ميں مشھد گئے تو انہھوں نے مدرسہ سليمان خان ميں احيائے اسلام اور احکام الھي کي حاکميت کے موضوع پر ايک ولولہ انگيز تقرير کي اور شاہ اور برطانيہ کے مکر و فريب اور ملت ايران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کيا۔ حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي ان دنوں مدرسہ سليمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوي کي جوشيلي تقرير سے آپ بھت متاثر ھوئے ۔آپ کھتے ہيں:اسي وقت نواب صفوي کے ذريعے ميرے اندر انقلاب اسلامي کا دھماکہ ھوا چنانچہ مجھے اس بات ميں کوئي شک و شبہ نھيں ہے کہ پھلي آگ نواب صفوي مرحوم نے ميرے اندر روشن کي۔

Add comment


Security code
Refresh