www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں کامل ترین کتاب( قرآن )نازل ہھوئی ہے اس رات کوشب بیداری میں گزارناچاھیے تا کہ اس کے فیض 

اورمعنوی بر کتوں سے استفادہ کریں اور ساتھ ھی ساتھ قرآن کے سایہ ائمہ (ع) سے توسل کر کے خدا وند عالم سے گناھوں کی مغفرت طلب کریں اور قرآن کی نوارنی آیات ھمیشہ ھماری فکر و اندیشہ میں ھوں اور اس مبارک رات میں خضوع و خشوع کی حالت کے ساتھ اپنے آپ سے عھد کر یں کہ ھمیشہ اس عظیم کتاب کے بلند و عالی دستوارت کو واقعی طور پر اپنی عمل زندگی میںجاری کریںتاکہ ھماری زندگی قرآنی اور خدائی بن جائے ۔
حضرت آیة اللہ حسن زادہ آملی دام ظلہ فر ماتے ہیں :
شب قدر میں قرآن کو دل میں اتارو نہ یہ کہ قرآن کو فقط سر پر رکھو . پھلی صورت میں قرآن تمھاری ذات کا حصہ بن جا تا ہے اور دوسری صورت میں قرآن ذات کا حصہ نھیں بنتا ہے بلکہ تیری ذات سے جدا ھوجاتا ہے ۔(۱)
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ اگر شب قدر بیداری میں گزاریں تو اس شب کی عبادت کی اھمیت دوسری راتوں سے زیادہ ھو جاتی ہے اور اس رات کے حسین لمحات میں ملائکہ جوق در جوق صبح تک مومنین اور مؤمنات پر دور و سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ملائکہ خود اشرف المخلوقات انسان کے رکوع و سجود کے شاھد و گواہ ھوتے ہیں تا کہ یہ ملائکہ دوسرے ملائکوں کے سامنے انسان کے اشرف و خلیفہ خدا ھونے کی تفسیر و تشریح کریں اور حضرت آدم کے سامنے ملائکہ کے سجود کر نے کا راز کشف کریں ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان سالک سیر و سلوک کی طولانی راہ کو ایک رات میں طے کر لیتا ہے اور اس رات میں انسان بھتر طر یقے سے اپنے نفس کی تھذیب و تزکیہ کر سکتا ہے کیو نکہ اس رات میں تمام شیاطین قید میں ھوتے ہیں اور تمام انسان اس رات میں شیاطین کے وسوسوں سے امان میں ھوتے ہیں مگر یہ کہ انسان خدانخواستہ اپنے نا شائستہ فعل سے شیاطین کی رسیوں کو کھول کر انھیں اسارت سے آزاد کر دے ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں معنویات زندہ ھو جاتی ہیں، کثرت تلاوت قرآن کی وجہ سے انسان کانفس زندہ ھوجاتا ہے، تو بہ اور دعائیں قبول ھوتی ہیں ،انسان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے بشرطیکہ انسان اس شب کی عظمت کو درک کر ے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان کے ایک سالہ امور مشخص کئے جاتے ہیں اور تمام موجودت عالم کی تقدیر اس رات میں رقم کی جاتی ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں حضرت امام مھدی(عج) ھر انسان کے ایک سالہ مقدّارت پر دستخط کرتے ہیں اور یہ رات امام عصر کی شناخت کی رات ہے اور خلاصہ یہ کہ شب قدر انسان کامل کی رات ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں اھل معرفت و عرفان اپنے معشوق کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ھو تے ہیں۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں ایک انسان کا مل حضرت علی علیہ السلام کی شھادت واقع ھوئی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں عاشق اپنے معشوق سے ملاقات کرتا ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں مسلمانان عالم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ اگر نہ ہوتی تو انسان کی بد بختی انتہا تک نہ پہنچتی اور اس کی نیک بختی کبھی بھی طلوع نہ کر تی، استعماری طاقتوں کی اسارت سے کبھی بھی آ زاد نہ ہو تا۔
شب قدر بشر کی آزادی، انسانی حقوق اور حکومت عدل کے اعلان کی رات ہے ۔
شب قدر محروم اور غفلت میں پڑی ہوئی اور فساد و گمراہی میں آلودہ ہوئی ملتوں کی ہدایت،کا میابی اور بیداری کی رات ہے۔
شب قدر ایسی رات ہے کہ جس میں ایک ایسی کتاب نازل ھوئی ہے کہ جو رھتی دنیا تک باقی رھے گی اور اس کتاب کی عظمت کے لئے اتنا ھی کافی ہے کہ انسان کی سعادت و ھدایت کی ضامن ہے انسان کو ظلمتوں سے نکال کر نوارنی راتوں میں پھنچاتی ہے۔
اگر یہ رات نہ ھوتی، نہ اسلام ھوتا اور نہ ھی مسلمان ، نہ مسجدھوتی اور نہ ھی نمازی ، نہ آزادی ھوتی اور نہ ھی معارف واخلاق اور نہ ھی مکتب اسلام میں عظیم شخصیات ھوتیں اور نہ ھی اخلاق ،حقوق، فقہ، فلسفہ و عرفان کی گرانقدر کتابیں ھوتیں اور نہ ھی جدید ٹیکنالوجی ھوتی بالاخرہ نہ ھی آج کے دور میں انسان کی یہ بلند پروازیں ھوتیں ... یہ تمام چیزیں اسی رات کی برکتوں سے ہیں انسان نے قرآن کے نزول کے بعد جو مراحل طے کئے ہیں یا وہ مراحل جو ابھی طے نھیں کئے ہیں تمام اسی شب کی برکتوں سے ہیں ۔
یھاں جو کتاب اس مبارک شب میں نازل ھوئی ، اس نے اندیشہ و افکارکو بدل دیا، انسان کی شخصیت کو احترام بخشا ، انسانی حقوق کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ، انسانوں کی پرستش کی مذمت کی ، مطلق العنان حکومتوں کی ربوبیت توڑدی ، اسراف و تبذیر،نسلی امتیازات، لوگوں کو اذیت و آزار وغیرہ تمام کی کھل کر مذمت کی۔ بالاخرہ حاکم و محکوم ،امیرو مامور،غلام و آقا تمام کے حقوق کو یکسان قراد دیاہے۔
شب قدر ایک عظیم اور قیمتی فرصت کا نام ہے پس ھمیں چاھیے کہ اس رات کو قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ دینے میں گزار یں اور یہ دیکھیں کہ ھم نے قرآنی تعلیمات کے ساتھ کتنا ارتباط بر قرار کیا ہے ھم نے اپنی عملی زندگیوں کو قرآن کے مطابق کتنا چلایا ہے ؟ اگرھماری زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں تو خداوند عالم سے مزید توفیقات کا تقاضا کریں اور اگر یہ دیکھ نظر آئے کہ ھماری زندگیاں قرآن کی تعلیمات کے بجائے کسی اور سمت میں جارھی ہیں تو ھمیں چاھیے کہ خداوند عالم سے عھد وپیمان کریں کہ آج کے بعد ھم قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو منورو مزیّن کر یں گے۔
ان تمام تفاصیل کو مد نظر رکھتے ھوئے فیصلہ کریں کہ آیا شائستہ ہے کہ ایک مسلمان انسان اس شب کی عظیم برکات وفیوضات سے اپنے آپ کو محروم کرے ۔(۲)
حوالہ:
۱۔ھزار ویک نکتہ،آیت اللہ حسن زادہ آملی،نکتہ ٤٩٠۔
۲۔ تلخیص ازمکتب عالی تربیت واخلاق،آیت اللہ صافی، ص ٢٠٧۔

 

Add comment


Security code
Refresh