www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم، ایک پاکیزہ ترین ذات کی طرف سے، پاکیزہ ترین قلب پر نازل ھوئی۔ اسی وجہ سے صرف وہ لوگ

قرآن کریم کے قریب جا سکتے ہیں جو ظاھری اور باطنی اعتبار سے پاک و پاکیزہ ھوں۔ " انہ لقرآن کریم، فی کتاب مکنون، لایمسہ الا المطھرون" (۱)
موضوع کی ظرافت کو ملحوظ نظر رکھتے ھوئے بھتر ہے کہ ابتدا میں طھارت کے مصادیق کو گنوایا جائے اور اس کے بارے میں تھوڑی بھت فکر کی جائے:
جسم کی طھارت
قرآن کریم کو مس کرنے کی پھلی شرط یہ ہے کہ جسم پاک ھو امام خمینی (رہ) کے فتوی کے مطابق " قرآن کریم کے خط کو مس کرنا یعنی بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ تک پھنچانا بغیر وضو کے حرام ہے"۔(۲)
وضو ایسی چیز ہے جس کو انجام دینے سے ھمارا ذھن تمام خیالات سے خالی ھو جاتا ہے اور صرف معنوی افکار ھمارے ذھن میں حاوی ھو جاتے ہیں۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے وضو کی معنوی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:
جب وضو کرنے کا ارادہ کرو اور پانی کے نزدیک جاو تو اس شخص کی طرح ھو جاو جو پرور دگار عالم کی رحمت کے قریب ھونا چاھتا ہے اس لیے کہ خدا نے پانی کو اپنے قریب کرنے اور مناجات کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ (۳)
زبان اور منہ کی طھارت
زبان کی پاکیزگی اور طھارت کے بارے میں آئمہ معصومین علیھم السلام سے چند حدیثیں نقل ھوئی ہیں :
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا؛ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
قرآن کے راستے کو پاکیزہ رکھیں۔
پوچھا: اے رسول خدا قرآن کا راستہ کون سا ہے؟
فرمایا: آپ کے منہ۔
پوچھا: کیسے پاکیزہ رکھیں؟
فرمایا: مسواک کے ذریعے۔ (۴)
امام رضا علیہ السلام نے اپنے اباء و اجداد کے ذریعہ رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا: آپ کی زبانیں کلام الھی کا راستہ ہیں انھیں پاکیزہ رکھیں۔ (۵)
وہ زبان جو غیبت، تھمت، جھوٹ جیسے گناھان کبیرہ سے آلودہ ھو ۔
وہ زبان جو حرام کھانوں کا مزہ لیتی رھی ھو۔
وہ زبان جو دوسروں کی دل شکنی کا سبب بنی ھو۔
وہ زبان جس کے شر سے دوسرے مسلمان ھمیشہ اذیت میں ھوں۔
کیسے کلام الھی اس پر جاری ھو سکتا ہے؟
جی ھاں، اس پاکیزہ کلام کی تلاوت کے لیے زبان کی پاکیزگی ضروری ہے ورنہ صاف پانی بھی ایک گندی نالی میں گندہ ھو جاتا ہے اور استعمال کے قابل نھیں رھتا۔ اور اگر قرآن کریم ناپاک زبان پر جاری ھو گا تو " رب تال القرآن و القرآن یلعنہ" (کتنے ایسے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے )(۶)کا مصداق بن جائے گا۔
آنکھ کی طھارت
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ھوا ہے کہ آپ نے فرمایا:" اعط العین حقھا" آنکھ کا حق ادا کرو۔
عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آنکھ کا حق کیا ہے؟
فرمایا:" النظر الی المصحف"؛ قرآن پر نگاہ کرنا۔
اس لیے کہ قرآن کریم کی دیکھ کر تلاوت کرنا ثواب رکھتا ہے اور اگر آنکھ آلودہ ھو ناپاک ھو تو قرآن پر نگاہ کرنے کی توفیق حاصل نھیں کرے گی۔ (۷)
روح کی طھارت
وہ ناپاک روح جو شیطانی وسوسوں میں اسیر ھو جو اپنی طھارت اور پاکیزگی کو کھو چکی ھو جو مادیات کے ساتھ اس قدر وابستہ ھو کہ اس سے منہ پھیرنا محال ھو چکا ھو، جو گناھوں کی آلودگی سے کثیف ھو چکی ھو وہ قرآن پاک کی معنویت اور اس کے نورانی پیغام کو کیسے ادراک کر سکتی ہے؟
لیکن پاکیزہ روح جس کا مادیات کے ساتھ کوئی سرو کار نہ ھو جس نے خود سازی کے ذریعے اپنی پاکیزگی کو محفوظ رکھا ھو۔
جس نے آثار کبرائی میں تفکر و تدبر کے ذریعے شیطانی وسواس اور شرک آلود افکار سے کنارہ کشی اختیار کی ھو۔
ایسی پاک و پاکیزہ روح تلاوت قرآن کے دوران قرآن کی معنویت اور نورانیت سے لطف اندوز ھوتی ہے اور اس سے معنوی غذا حاصل کرتی ہے۔
باقی اعضائے بدن کی طھارت
آیت اللہ جوادی آملی کے بقول: کان، آنکھ ھاتھ اور دیگر اعضا بھی قرآن کریم کے ادراک کے راستے ہیں (۸)
وہ کان جو قرآن کی دلربا آواز کو سنتا ہے اور اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا وہ کان جو قرآن کا مخاطب واقع ھوتا ہے لیکن ایک کان سے سن کر دوسرے سے باھر نکال دیتا ہے وہ کان جو غیبت، تھمت وغیرہ سن کر لذت کا احساس کرتا ہے ایسا کان پاکیزہ نھیں ہے۔ قرآن کی تلاوت کا اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا۔
وہ ھاتھ جو دوسروں کا مال لوٹ گھسوٹ کرنے کا عادی رھا ہے وہ ھاتھ جس سے دوسروں پر ظلم کرتا رھا ہے وہ قرآن کریم کو کیسے مس کر سکتا ہے "لا یمسہ الا المطھرون"(۹)
لھذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت اور اس کے ظاھر اورباطن کو ادراک کرنے کے لیے بدن کے تمام اعضاء پاکیزہ ھوں۔تاکہ قرآن کی نورانیت اس پر اثر کرے۔
جسم کی ظاھری طھارت تو بھت آسان ہے ایک نیت اور چند چلو پانی سے بدن کو ظاھری طورپر پاک کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ظاھر قرآن کو لمس کیا جا سکتا ہے لیکن باطن قرآن کو سمجھنے کے لیے بدن کی باطنی طھارت شرط ہے اور باطنی طھارت اور پاکیزگی کا حاصل کرنا اتنا آسان نھیں ہے۔
تلاوت قرآن کو سننے کے آداب
سزاوار ہے کہ قرآن کریم کی جب تلاوت ھو رھی ھو تو انسان سکوت اور خاموشی اختیار کرے اور توجہ کے ساتھ اسے سنے۔
اپنےدل سے کلام الھی کا احترام کرے۔
اللہ کے کلام کو سننے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرے۔
آیات قرآن پر تدبر اور تفکر کرے۔
آیات قرآن کے معانی کو اپنے وجود کے اندر محسوس کرے
اور روح کو اس نورانی کلام سے جلا بخشے۔(۱۰)
قاریان قرآن امام صادق علیہ السلام کی نظر میں
امام صادق علیہ السلام نے قاریان قرآن کو تین گروھوں میں تقسیم کیا ہے:
۱: ایک گروہ وہ ہے جو سلاطین اور بادشاھوں کے قریب ھونے اور لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے تلاوت قرآن کرتاہے یہ گروہ اھل جھنم ہے۔
۲: ایک گروہ ایسا ہے جس نے قرآن کے الفاظ کو ازبر کر رکھا ہے لیکن اس کے معنی سے اسے کوئی مطلب نھیں ہے یہ گروہ بھی اھل جھنم میں سے ہے۔
۳: ایک گروہ وہ ہے جو قرآن کی تلاوت کرتاہے اس کے معنی اور مفھوم کا ادراک کرتا ہے اس کے محکم اور متشابہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے حلال و حرام کو سمجھتا اور ان پر عمل پیرا ھوتا ہے۔ یہ گروہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نجات عطا کرتا ہے اور انھیں بھشت کی نعمتوں سے نوازتا ہے اور وہ جس کے بارے میں بھی چاھیں حق شفاعت رکھتے ہیں۔ (۱۱)
حفظ قرآن کے آداب
۱: بچوں کو بچپنے سے حفظ قرآن کی عادت ڈالنا چاھیے۔
۲: حفظ کرنے سے پھلے قرآن ٹھیک سے پڑھنا آنا چاھیے۔
۳: آیات کو عربی لب ولھجہ میں تلاوت کیا جائے اور حفظ کے ساتھ ساتھ اس مفھوم سے اشنائی بھی حاصل کی جائے۔
۴:ترتیل کو سیکھا جائے اور ترتیل کے طریقہ سے قرآن کو حفظ کیا جائے۔
۵:حفظ کے دوران ایک جلد اور ایک معین خط سے قرآن یاد کیا جائے۔
۶:روزانہ آدھا گھنٹہ مشق کی جائے دھیرے دھیرے اس میں اضافہ کیا جائے۔
۷: ایک معین وقت میں مثال کے طور پر ھر روز صبح سات بجے حفظ کیا جائے۔
۸:حفظ چھوٹے سوروں سے آغاذ کیا جانا چاھیے۔
۹: غصہ، بھوک و پیاس کی حالت میں قرآن کو حفظ نھیں کیا جائے۔
۱۰:آیات کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ آیات کے نمبر اور صفحات بھی ذھن میں رکھے جائیں۔
۱۱: حفظ قرآن روزانہ تکرار کا محتاج ہے۔
۱۲: سفر میں زیادہ تکرار کیا جا سکتا ہے۔
۱۳: حفظ کے لیے ترجمہ شدہ قرآن سے استفادہ نہ کریں۔
۱۴:لمبے سوروں کو تھوڑا تھوڑا کر کے حفظ کیا جائے۔
۱۵: دو آدمی مل کر مباحثہ کی صورت میں جلدی اور آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کے آثار
۱: دلی نورانیت
عن رسول اللہ (ص) :" ان ھذہ القلوب تصدا کالحدید۔ قیل: یا رسول اللہ فما جلاء ھا؟
قال: تلاوۃ القرآن۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ان دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوھے کو زنگ لگتا ہے۔ کہھا گیا : یا رسول اللہ ان کو کیسے جِلا دیں؟ فرمایا: تلاوت قرآن سے۔
عن امیر المومنین: "ان اللہ سبحانہ لم یعظ احدا بمثل ھذا القرآن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقلب جلاء غیرہ"
خدا وند متعال نے قرآن کریم کی حد تک کسی چیز کو بھی نصیحت کے ذریعہ نھیں دیا۔ اس لیے کہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی اور اطمینان بخش دستاویز ہے اس میں دلوں کی بھار ہے اور علم کے چشمے ہیں لھذا قرآن کے علاوہ دلوں کو جِلا دینے والی کوئی چیز نھیں ھو سکتی۔
۲: حافظہ کا قوی ھونا
۳: اھل خانہ کے درمیان معنویت کا پیدا ھونا
عن رسول اللہ [ص]: ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ و یتدارسونہ بینھم الا نزلت علیھم السکینۃ و غشیتھم الرحمہ و حفتھم الملائکۃ ۔۔
کوئی گروہ کسی گھر میں تلاوت قرآن کرنے اور ایک دوسرے کو درس قرآن دینےکے لیے جمع نھیں ھو گا مگر خدا وند عالم انھیں اطمینان اور سکون عطا کرے گا اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔
۴: سعہ صدر اور وسعت رزق
قال النبی (ص): "نوروا بیوتکم بتلاوۃ القرآن فان لبیت اذا کثر فیہ تلاوۃ القرآن کثر خیرہ و امتع اھلہ"۔
اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے منور کرو اس لیے کہ وہ گھر جن میں تلاوت قرآن کثرت سے ھوتی ہے خدا وند عالم اس گھر پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کی فراوانی کر دیتا ہے۔
عن علی (ع):" افضل الذکر القرآن بہ تشرح الصدور و تستنیر السرائر"
بھترین ذکر قران ہے قرآن کے ذریعے اپنے سینوں میں فراخ دلی پیدا کرو اور اپنے باطن کو نورانی کرو۔
۵: مشکلات کا مقابلہ کرنے پر قدرت اور اللہ پر بھروسہ ۔(۱۴)
حوالہ جات:
۱ـ دیوان اقبال.
۲ـ سورہ واقعه، ۷۹ ـ ۷۷.
۳ـ توضیح المسائل ، مسئله ۳۱۷.
۴ـ مصباح الشریعه، باب دهم.
۵ـ الحیات، ج ۲، ص ۱۶۱ ـ ۱۶۲.
۶ـ وھی حوالہ.
۷ـ مستدرک ،ج ۱ ،ص ۲۹۱..
۸ـ آداب قرآن، مهدى مشایخى،ص ۱۰۴.
۹ـ وھی حوالہ، ص ۱۰۵.
۱۰ـ سورہ واقعه، ۷۹.
۱۱ـ آداب قرآن، مهدى مشایخى، ص ۱۶۶.
۱۲ـ امالى صدوق، ص ،۱۷۹ والحیات ج ۲، ص ۱۷۱.
۱۳ـ الحیاه، ج ۲، ص ۱۷۲.
۱۴ـ با استفاده از آموزش قرآن، عبدالرحیم موگهى.
 

Add comment


Security code
Refresh