www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

ایسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانین کو پیش نظر رکھنے کے بعد پہلا خیال یہی پیدا ھوتا ھے کہ انسان ایسی زبان کو حاصل ھی کیوں کرے

 جس میں اس طرح کے قواعد ھوں اورجس کے استعمال کے لئے غیر معمولی اور غیر ضروری زحمت کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ خیال بالکل غلط ھے ۔ ایک غیر مسلم تو یہ بات سوچ بھی سکتا ھے مگر مسلمان کے امکان میں یہ بالکل نھیں ھے ۔مسلمان کی اپنی کتاب اور اس کا دستور زندگی عربی میں ھی نازل ھوا ھے۔ اس کی دنیا و آخرت کا پیغام عربی زبان ھی میں ھے اور وہ دستور ، قانون زندگی ھونے کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا معجزہ اور اس کی برتری کی دلیل بھی ھے ۔ اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر دیا گیا تو اسلام کا امتیاز ھی کیا رھے گا اور رسالت پیغمبر اسلام (ص) کوثابت کرنے کا وسیلہ کیا ھوگا ۔

 

قرآن صرف دستور حیات ھوتا تو ممکن تھا کہ انسان کسی طرح بھی تلفظ کرکے مطلب نکال لیتا اور عمل کرنا شروع کر دیتا ۔ دستور زندگی معنی چاھتا ھے اسے الفاظ کے حسن سے زیادہ دلچسپی نھیں ھوتی ۔ لیکن قرآن کریم معجزہ بھی ھے ۔ وہ قدم قدم پر اپنی تلاوت کی دعوت بھی دیتا ھے ۔اپنی فصاحت و بلاغت کا اعلان بھی کرتا ھے اور اپنے سے وابستہ افراد کو متوجہ بھی کراتا ھے کہ اس کے محاسن پر غور کریں اور اس کی خوبیوں کو عالم آشکار کریں ۔

 

یہ ناممکن ھے کہ کوئی شخص اس کے ماننے والوں میں شمار ھو اور اس کی طرف سے بے توجہ ھو جائے ۔لھذا جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ھو گی اور جب تلاوت کی منزل میں آئے گا تو ان تمام اصول و آداب کو سیکھنا پڑے گا جن سے زبان کا حسن و امتیاز ظاھر ھوتا ھے ۔

 

قرآن مجید تو خود بھی ترتیل وغیرہ کا حکم دیتا ھے جس سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ بھر طور تلاوت کرا کے اپنے حسن کو پامال نھیں کرانا چاھتا اور اس کا منشاء یھی ھے کہ اس کی تلاوت کی جائے تو انھیں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کی عظمت اور اس کا حسن وابستہ ھے۔

 

اس مقام پر یہ بھی ممکن ھے کہ کوئی انسان ان امتیازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بھت سے بھت ثواب سے محروم ھو جائے ۔اس پر کوئی ایسا دباؤ نھیں ھوتا کہ وہ تلاوت کی ذمہ داری لیکر ان تمام مشکلات میں گرفتار ھو لیکن اسلام نے نماز میں حمد و سورہ وغیرہ واجب کرکے اس آزادی کو بھی ختم کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ تلاوت قرآن ھر مسلمان کا فرض ھے نیز تلاوت عربی زبان کے بغیر نھیں ھو سکتی ۔

 

 زبان کا عربی رہ جانا بھی اس بات پر موقوف ھے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس میں کوئی ترمیم اور تبدیلی نہ کی جائے ۔ جس کے بعد یہ کہنا بھی صحیح ھے کہ علم تجوید اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ سھی لیکن ایک مقدار تک واجب ضرور ھے اور اس کے بغیر نماز کی صحت مشکل ھے اور نماز ھی کی قبولیت پر سارے اعمال کی قبولیت کا دارومدار ھے۔ اب اگر کوئی شخص تجوید کے ضروری قواعد کو نظر انداز کر دیتا ھے تو قراٴت قرآن کی طرح نماز کو بھی برباد کرتا ھے اور جو نماز کو برباد کرتا ھے، اس کے سارے اعمال کی قبولیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور یھی علم تجوید کی عظمت و برتری کی بھترین دلیل ھے۔

 

علم تجوید اور اس کی اھمیت و ضرورت

 

تجوید کے معنی:

بھتر اور خوبصورت بنانا۔

 

تجوید کی تعریف:

 تجوید اس علم کا نام ھے جس سے قرآن کے الفاظ اور حروف کی بھتر سے بھتر ادائیگی اور آیات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ھوتے ھیں ۔

 

اس علم کی سب سے زیادہ اھمیت یہ ھے کہ دنیا کی ھر زبان اپنی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ھے کہ اس کا طرز و لھجہ دوسری زبانوں سے مختلف ھوتا ھے اور یھی لھجہ اس زبان کی شیرینی ،چاشنی اور اس کی لطافت کا پتا دیتا ھے ۔

 

جب تک لھجہ و انداز باقی رھتا ھے زبان دلچسپ اور شیریں معلوم ھوتی ھے اور جب لھجہ بدل جاتا ھے تو زبان کا خاصہ ختم ھو جاتا ھے ۔ ضرورت ھے کہ کسی زبان کو سیکھتے وقت اور اس میں تکلم کرتے وقت اس با ت لحاظ رکھا جائے کہ اس کے الفاظ اس انداز سے ادا ھوںکہ جس انداز سے اھل زبان ادا کرتے ھیں اور اس میں حتی الامکان وہ لھجہ باقی رکھا جائے جو اھل زبان کا لھجہ ھے اس لئے بغیر تجوید، زبان تو وھی رھے گی لیکن اھل زبان اسے زبان کی بر بادی ھی کھیں گے ۔

 

اردو زبان میں بے شمار الفاظ ھیں جن میں ت اور د کا لفظ آتا ھے اور انگریزی زبان میں ایسا کوئی لفظ نھیں ھے ۔ انگیریزی بولنے والا جب اردو کے ایسے لفظ کو استعمال کرتا ھے تو تم  کے بجائے ٹم اور دین  کے بجائے ڈین کھتا ھے جو کسی طرح بھی اردو کھے جانے کے لائق نھیں ھے ۔

 

یھی حال عربی زبان کا بھی ھے کہ اس میں بھی الفاظ و حروف کے علاوہ تلفظ و ادا ئیگی کو بھی بے حد دخل ھے اور زبان کی لطافت کا زیادہ حصہ اسی ایک بات سے وابستہ ھے۔ اس کے سیکھنے والے کا فرض ھے کہ ان تمام آداب پر نظر رکھے جو اھل زبان نے اپنی زبان کے لئے مقرر کئے ھیں اور ان کے بغیر تکلم کر کے وہ دوسرے کی زبان کو برباد نہ کرے ۔

       

اقسام حروف

حروف تھجی کی انداز، ادا ئیگی، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ھیں ۔

 

حروف مد

 

واو ، ی ، الف ۔ ان حروف کو اس وقت حروف مد کھا جاتا ھے جب  " واؤ  " سے پھلے پیش " الف" سے پھلے زبر اور "  ی " سے پھلے زیر ھو اور اس کے بعد ھمزہ یا کوئی ساکن حرف ھو جیسے سوء ۔ غفور۔جآء ۔ صآد ۔ جیٓء ( ج ی ء ) جیٓم وغیرہ ۔

 

بعد کے ھمزہ یا حرف ساکن کو سبب کھتے ھیں۔ مد کے معنی آواز کےکھینچنے کے ھیں ۔

 

حروف لین

 

" واو" اور " یسے پھلے زیر ھو تو ان دونوں کو حروف لین کھتے ھیں۔

 

" لین "  کے معنی ھیں نرمی۔ ان حالات میں یہ دونوں حروف ، مد کو آسانی سے قبول کر لیتے ھیں جیسے خوفٌ ۔ طیر ۔

 

اگر حرف لین کے بعد کوئی حرف ساکن بھی ھے تو اس حرف پر مد لگانا ضروری ھے جیسےکٓھٓیٰٓعٓصٓ ( کآف ھا یا عین صاد) کہ اس کلمہ میں مثلا ًعین کی " ی " لین ھے اور اس کے بعد نون ساکن ھے جس کی بنا پر عین کی " ی " کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ھے ۔

 

حروف شمسی

 

وہ حروف ھیں جن سے پھلے اگر   الف " لام  آ جائے تو ملا کر پڑھنے میں ساقط ھو جاتا ھے جیسے ت ، ث ، د ، ذ ، ر ، ز ، س ، ش ، ص ، ض ، ط ، ظ ، ل ، ن  ۔ ملا کر پڑھتے وقت ان کا الف لام ساقط ھو جاتا ھے جیسے و الطور ۔ و الشمس ، و التین و غیرہ ۔

 

حروف قمری

 

وہ حروف ھیں جن کے پھلے الف لام آجائے تو ملانے میں بھی پڑھا جاتا ھے مگر الف نھیں پڑھا جاتا جیسے ا، ب، ج، ح، غ، ف، ق، ک، م۔ و۔ ھ ، ی۔ کہ انکو ملا کر پڑھنے میں لام ساقط نھیں ھوتا جیسے و القمر، و الکاظمین، و المجاھیلن، و الخیل و اللیل و غیرہ ۔

       

کیفیات و صفات حروف

 

جس طرح حروف مخارج سے ادا ھوتے ھیں اسی طرح حروف کی مختلف صفتیں ھوتی ھیں مثلاً استعلاء ،جھر ، قلقلہ وغیرہ۔ کبھی مخرج اور صفت میں اتحادھوتا ھے جیسے " ح"  اور" عین" اور کبھی مخرج ایک ھوتا ھے اور صفت الگ ھوتی ھے جیسے "ھمزہ" اور "ہ "۔

 

۱۔ حروف قلقلہ

 

خ ۔د:ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر یہ حروف درمیان یا آخر کلمہ میں ھوں اور ساکن بھی ھوں تو انھیں اس زور سے ادا کرنا چاھئے کہ متحرک معلوم ھوں جیسے یدخلون ۔لم یلد ۔

 

۲۔ حروف استعلاء

 

یہ سات حروف ھیںص ، ض ، ط، ظ ، غ ، ق ، خ۔ ان کو حروف استعلاء اس لئے کھا جاتا ھے کہ ان کی ادائیگی کے لئے زبان کو اٹھانا پڑتا ھے جیسے خط ، یخصمون ۔

 

۳۔ حروف یرملون

 

یہ چھ حروف ھیں:ی ، ر ، م ، ل ، و ، ن ۔ ان حروف کی خاصیت یہ ھے کہ اگر ان سے پھلے نون ساکن یا تنوین ھے تو اسے تقریباً ساقط کر دیا جائے گا اور بعد کے حروف کو مشدد پڑھا جائے گا جیسے محمد و آل محمد ، لم یکن لہ ۔

 

۴۔ حروف حلق

 

یہ چہ حروف ھیں:ح۔خ۔ غ۔ع۔ ہ ۔ء۔ جو حلق سے ادا کئے جاتے ھیں، ان سے پھلے واقع ھونے والا نون ساکن واضح طور پر پڑھا جائے گا جیسے" انعمت "۔

 

حرکات

 

حروف پر آنے والی علامتوں کی پانچ قسمیں ھیں جن میں سے تین کو حرکات کھا جاتا ھے ۔ زبر ۔ زیر ۔ پیش ۔  جسے عربی میں فتحہ ،ضمہ ، کسرہ کھتے ھیں ۔ باقی دو میں ایک "مد" "  ٓ"  اور دوسرے کو" سکون" کھا جاتا ھے ۔

 

مد

 

مد کی دو قسمیں ھیں:

 

۱۔ مد اصلی

 

۲۔ مد غیر اصلی

 

مد اصلی

 

وہ مد ھے جس کے بغیر واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کی آواز ادا نھیں کی جا سکتی اور اس کے لئے علیحدہ سے کسی سبب کی ضررت نھیں ھوتی جیسے قال۔ ۔ قیل ۔یقول ۔

 

ان مثالوں میں الف ۔ی ۔واؤ کی آواز پیدا کرنے کے لئے ان حرف کو دو حرکتوں کے برابر کھینچنا ھو گا ۔ واضح رھے کہ مٹھی بند کر کے متوسط رفتار سے ایک انگلی کے کھولنے میں جتنی دیر لگتی ھے وہ ایک حرکت کی مقدار ھے ۔

 

مد غیر اصلی

 

وہ مد ھے جھاں"  واؤ، الف، ی" کی آواز کو کسی سبب ( ھمزہ یا سکون ) کی وجہ سے مد اصلی کے مقابل زیادہ کھینچ کر ادا کیا جاتا ھے ۔

 

مد غیر اصلی کی ھمزہ کے اعتبار سے دو قسمیں ھیں:

۱۔ واجب متصل

۲۔ جائز متصل

 

واجب متصل

 

یہ اس مد کا نام ھے جس میں مد اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ھوں جیسے: جآء ۔ شئت ۔سوء کہ ان تینوں مثالوں میں الف ۔ ی ۔ واؤ ۔ اور ھمزہ ایک ھی کلمہ کا جز ء ھیں ۔ اس مد کے کھینچنے کی مقدار چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

 

جائز متصل

 

وہ مد ھے جو حروف مد سے پھلے کلمہ کے آخر میں اور ھمزہ دوسرے کلمہ کے شروع میں واقع ھو ، جیسے "  انا اعطیناک ۔ توبوا" الی اللہ ۔ بنی اسرائیل ۔" اس کی مقدار بھی چار سے پانچ حرکات کے برابر ھے ۔

 

مدغیر اصلی کی سکون کے اعتبار سے چار قسمیں ھیں:

۱۔ مد لازم

۲۔ مد عارض

 ۳۔ مد لین

۴۔ مد عوض

 

مد لازم

 

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔ الف ۔ ی ۔ کے بعد والے ساکن حرف کا سکون لازمی ھو یعنی کسی بھی حالت میں نہ بدل سکتا ھو جیسے  یٰس (یا سین ) حٓمٓعٓسٓقٓ (حا۔ میم ۔عین ۔ سین ۔ قاف ) الحاقة  اس کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے ۔

 

مد عارض

 

اس مد کا نام ھے جس میں واؤ ۔الف ۔ی ۔ کے بعد والے حرف کو وقف کے سبب ساکن کر دیا گیا ھو جیسے" غفور ، خبیر، عقاب، خوف" ۔ مد عارض کو دو ، چار یاچہ حرکتوں کے برابر کھینچنا جائز ھے لیکن چہ کے برابر بھتر ھے ۔

 

مد لین

 

حروف لین کے بعد والا حرف ساکن ھو تو اس پر بھی مد آجائیگا۔ اگر اس حرف کا سکون لازم ھو تو اسے مد لین لازم کھیں گے جیسے " حمعسق "  ۔اس مد کی مقدار چار حرکات کے برابر ھے۔ اگر سکون عارضی ھو تو اسے مد لین عارض کھیں گے جیسے خوف " اس کو دو حرکات کے برابر کھینچ کر پڑھنا چاھئے ۔

 

مد عوض

 

ایسے حرف پر وقف کرنے کی صورت میں ھوتا ھے جھاں دو زبر ( تنوین ) ھوں جیسے" علیماً ۔ حکیماً "۔ اس کی مقدار دو حرکتوں کے برابر ھے ۔

 

حروف

 

چونکہ علم تجوید میں قرآن مجید کے حروف سے بحث ھوتی ھے اس لئے ان کا جاننا ضروری ھے ۔

 

عربی زبان میں حروف تھجی کی تعداد ۲۹ھے ۔ ٹ ۔ ڈ ۔ ڑ وغیرہ ھندی کے مخصوص حروف ھیں اور پ ۔ چ ۔ ژ ۔ گ فارسی کے مخصوص حروف ھیں۔ ان کے علاوہ جملہ حروف تینوں زبانوں میں مشترک ھیں ۔

 

یہ حروف اپنے طرز ادا کے اعتبار سے مختلف قسم کے ھیں ۔ ان اقسام کے سلسلہ میں بحث کرنے سے پھلے ان مقامات کا پتہ لگانا ضروری ھے جھاں سے یہ حروف ادا ھوتے ھیں اور جنھیں علم تجوید میں مخرج  کہا جاتا ھے ۔

 

مخارج حروف

 

علمائے تجوید نے ۲۹حروف تھجی کے لئے جو مخارج بیان کئے ھیں ان کی تعداد ۲۷ھے جنھیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ھے ۔

 

۱۔ جوف دھن

 

۲۔ حلق

 

۳۔ زبان

 

۴۔ ھونٹ

 

۵۔ ناک

 

یھاں مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کا تعین کیا جارھا ھے ۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اھل فن کا سھارا لینا پڑے گا ۔

 

جوف دھن

 

جوف دھن سے صرف تین حروف الف ۔ واوٴ ۔ ی ادا ھوتے ھیں بشرطیکہ یہ ساکن ھوں جیس ۔کریے جواد ۔ غفور

 

حلق

 

حلق کے تین حصے ھیں:

 

۱۔ ابتدائی حصہ :اس سے خ۔ غ ادا ھوتا ھے ۔

 

۲۔ درمیانی حصہ : اس سے ح۔ ع ادا ھوتا ھے ۔

 

۳۔ آخری حصہ : اس سے ھ ۔ء ادا ھوتا ھے ۔

 

زبان

 

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ھیں:

 

۱۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ ۔ اس سے قاف  کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۲۔ قاف  کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اس کے مقابل کا تالو ،ان کے ملانے سے  کاف  کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۳۔ زبان اور تالو کا درمیانی حصہ ، ان سے جیم  شین   ی کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۴۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داھنی یا بائیں جانب کے ڈاڑھیں جن کے ملانے سے  ضاد کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۵۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ جس کے ملانے سے لام  کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۶۔ زبان کا کنارہ اور لام  کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ ، جس سے ن کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۷۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ر ادا ھوتی ھے ۔

 

۸۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپری دانتوں کی جڑ ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ھوئے ذرا ذرا سے فرق سے "ط"   " دال " اور "  ت"  ادا ھوتی ھے ۔

 

۹۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری اور نچلے دانتوں کے کناروں سے " ز "  س " ص" کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۱۰۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے ملانے سے " ث" ذال" ظ" کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

ھونٹ

 

حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ھیں:

 

۱۔ نچلے ھونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپری دانتوں کا کنارہ، ان کے ملانے سے " ف"  کی آواز پیدا ھوتی ھے ۔

 

۲۔ دونوں ھونٹوں کے درمیان کا حصھ، یھاں سے " ب"  " م "  واو" کی آواز نکلتی ھے ۔ بس اتنا فرق ھے کہ " واو" کی آواز ھونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ھے اور " ب"  " میم" ھونٹوں کو ملانے سے ادا ھوتے ھیں۔

 

ناک

 

غنہ والے حروف ناک سے ادا ھوتے ھیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ھے ۔ شرط یہ ھے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ھو ۔ نون اور میم مشدد کا بھی انھیں حروف میں شمار ھوتا ھے ۔ں، نّ،مّ۔

 

تفخیم و ترقیق

 

تفخیم کے معنی ھیں حرف کو موٹا بنا کر ادا کرنا ۔

 

ترقیق کے معنی ھیں حرف کو ھلکا بنا کر ادا کرنا ۔

 

ایسا صرف دو حرف میں ھوتا ھے ۔ل۔ ر

 

" ر"  میں تفخیم کی چند صورتیں

 

ر۔ پر زبر ھو جیسے " رحمن"

 

ر۔ پر پیش ھو جیسے"  نصر اللہ"

 

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر زبر ھو جیسے"  وانحر"

 

ر ۔ ساکن ھو لیکن اس کے ماقبل حرف پر پیش ھو جیسے " کُرھا"

 

ر ۔ ساکن اور اس کے ماقبل زیر ھو لیکن اس کے بعد حروف استعلاء (ص۔ض۔ ط۔ ظ۔ غ۔ ق۔ خ) میں سے کوئی ایک حرف ھو جیسے " مرصادا"

 

ر۔ ساکن ھو اور اس کے پھلے کسرہٴ عارض ھو جیسے"  ارجعی"

 

" ر " میں ترقیق کی چند صورتیں

 

ر۔ ساکن ھو اور اس کے ماقبل پر زیر ھو جیسے"  اصبر"

 

ر۔ ساکن ھو اور اس سے پھلے کوئی حرف لین ھو جیسے خیر ۔"  طور"

 

" ل" ۔ میں تفخیم کی چند صورتیں

 

ل۔ سے پھلے حرف استعلاء میں سے کوئی حرف واقع ھو جیسے " مطلع الفجر"

 

ل۔ لفظ "  اللہ "  میں ھو اور اس سے پھلے زبر ھو جیسے"  قالَ اللّہ"

 

ل۔ لفظ "  اللہ " میں ھو اور اس سے پھلے پیش ھو جسیے " عبدُ اللّہ"

 

" ل" ۔ میں ترقیق کی صورتیں

 

ل۔ سے پھلے حروف استعلاء میں سے کوئی حرف نہ ھو جیسے " کلم"

 

ل۔ سے پھلے زیر ھو جیسے"  بسمِ اللہ"

 

وقف و وصل

 

کسی عبارت کے پڑھنے میں انسان کو کبھی ٹھرنا پڑتا ھے اور کبھی ملانا پڑتا ھے ، ٹھرنے کا نام وقف ھے اور ملانے کا نام وصل ھے ۔

 

وقف

 

وقف کے مختلف اسباب ھوتے ھیں ۔ کبھی یہ وقف معنی کے تمام ھو جانے کی بناء پر ھوتا ھے اورکبھی سانس کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے ۔ دونوں صورتوں میں جس لفظ پر وقف کیا جائے اس کا ساکن کر دینا ضروری ھے ۔

 

وصل

 

وصل کے لئے آخری حرف کا متحرک ھونا ضروری ھے تاکہ اگلے لفظ سے ملا کر پڑھنے میں آسانی ھو ورنہ ایسی صورت پیدا ھو جائے گی جو نہ وقف قرار پائے گا نہ وصل ۔

 

وقف کی مختلف صورتیں

 

حرف " ت"  پر وقف

 

اس صورت میں اگر" ت"  کھینچ کر لکھی گئی ھے تو اسے" ت" ھی پڑھا جائے گا جیسے صلوات اور اگر گول " ة"  لکھی گئی ھے تو حالت وقف میں " ھ" ھو جائے گی جیسے صلواة ، حالت وقف میں صلواہ ھو جائے گی ۔

 

تنوین پر وقف

 

اگر تنوین دو زیر اور دو پیش سے ھو تو حرف، ساکن ھو جائے گا اور اگر دو زبر ھو تو تنوین کے بدلے الف پڑھا جائے گا مثال کے طورپر " نورٌ "  اور" نورٍ" " کو " نورْ " پڑھا جائے گا اور" نوراً " کو "  نوراَ " پڑھا جائے گا ۔

 

وقف و وصل کی غلط صورتیں

 

واضح ھو گیا کہ وقف و وصل کے قانون کے اعتبار سے حرکت کو باقی رکھتے ھوئے وقف کرنا صحیح ھے اور سکون کو باقی رکھتے ھوئے وصل کرنا صحیح نھیں ھے ۔

 

وقف بحرکت

 

اس کا مطلب یہ ھے کہ وقف کیا جائے اور آخری حرف کو متحرک پڑھا جائے جیسے مالک یوم الدینِ ایاک نعبد

 

وصل بسکون

 

اس کے معنی یہ ھیں کہ ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے لیکن پھلے لفظ کے آخر ی حرف کو ساکن رکھا جائے جیسے  الرحمن الرحیم ۔ مالک یوم الدین  کو ایک ساتھ ایک سانس میں پڑہ کر رحیم کی میم کو ساکن پڑھا جائے ۔

 

وقف کے بعد ؟

 

کسی لفظ پر ٹہھرنے کے لئے یہ بھر حال ضروری ھے کہ اسے ساکن کیا جائے لیکن اس کے بعد اس کی چند صورتیں ھو سکتی ھیں:

 

۱۔ حرف کو ساکن کر دیا جائے اسے اسکان کھتے ھیں جیسے"  احد"

 

۲۔ ساکن کرنے کے بعد پیش کی طرح ادا کیا جائے اسے اشمام کھا جاتا ھے جیسے " نستعین"

 

۳۔ ساکن کرنے کے بعد ذرا سا زیر کا اندازپیدا کیا جائے اسے " روم " کھا جاتا ھے جیسے " علیہ" ۔

 

۴۔ ساکن کرنے کے بعد زیر کو زیادہ ظاھر کیا جائے اسے اختلاس کھتے ھیں جیسےصالح ۔

 

اقسام وقف

 

کسی مقام پر ٹھھرنے کی چار صورتیں ھو سکتی ھیں:

 

۱۔ اس مقام پر ٹھھرا جائے جھاں بات لفظ و معنی دونوں اعتبار سے تمام ھو جائے ۔ جیسے " مالک یوم الدین"  ۔ کہ اس جملہ کا بعد کے جملہ "  ایاک نعبد و ایاک نستعین" سے کوئی تعلق نھیں ھے ۔

 

۲۔ اس مقام پر ٹھھرا جائے جھاں ایک بات تمام ھو جائے لیکن دوسری بھی اس سے متعلق ھو جیسے" ممّا رزقنا ھم ینفقون " کہ اس منزل پر یہ جملہ تمام ھو گیا ھے لیکن بعد کا جملہ " والذین یومنون " ۔۔۔بھی انھیں لوگوں کے اوصاف میں سے ھے جن کا تذکرہ گزشتہ جملہ میں تھا ۔

 

۳۔ اس مقام پر وقف کیا جائے جھاں معنی تمام ھو جائے لیکن بعد کا لفظ پھلے ھی لفظ سے متعلق ھو جیسے"  الحمد للہ " پر وقف کیا جا سکتا ھے لیکن " رب العالمین" لفظی اعتبار سے اس کی صفت ھے الگ سے کوئی جملہ نھیں ۔

 

۴۔ اس مقام پر وقف کیا جائے جھاں نہ لفظ تمام ھو نہ معنیٰ جیسے "  مالک یوم الدین" میں لفظ " مالک " پر وقف کہ یہ بغیر "  یوم الدین " کے نہ لفظی اعتبار سے تمام ھے اور نہ معناکے اعتبار سے۔ ایسے مواقع پر وقف نھیں کرنا چاھئے ۔

 

وقف جائز و لازم

 

وقف کے مواقع پر کبھی کبھی بعد کے لفظ سے ملادینے میں معنی بالکل بدل جاتے ھیں جیسے " لم یجعل لہ عوجا ۔ قیما " کہ عوجا اور قیما کے درمیان وقف لازم ھے ورنہ معنی منقلب ھو جائیں گے۔ پروردگار یہ کھنا چاھتا ھے کہ ھمارے قانون میں کوئی کجی نھیں ھے اور وہ قیم ( سیدھا ) ھے۔ اگر دونوں کو ملا دیا گیا تو مطلب یہ ھو گا کہ ھماری کتاب میں نہ کجی ھے اور نہ راستی اور یہ بالکل غلط ھے ۔ ایسے وقف کو وقف لازم کھا جاتا ھے اور اس کے علاوہ جملہ اوقاف جائز ھیں ۔

 

رموز اوقاف قرآن

 

دنیا کی دوسری کتابوں کی عبارتوں کی طرح قرآن مجید میں بھی وصل و وقف کے مقامات ھیں ۔ بعض مقامات پر معنی تمام ھوجاتے ھیں اور بعض جگھوں پر سلسلہ باقی رھتا ھے اور چونکہ ان امور کا امتیاز ھر شخص کے بس کی بات نھیں ھے اس لئے حضرات قاریان کرام نے ان کی جگھیں معین کر دی ھیں اور ان کے احکام و علامات بھی مقرر کر دئے ھیں تاکہ پڑھنے والے کو سھولت ھو اور وقف کی جگہ وصل یا وصل کی جگہ وقف کر کے معنی کی تحریف کا خطا کار نہ ھو جائے ۔

 

ان مقامات کے علاوہ کسی مقام پر سانس ٹوٹ جائے تو آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے اور دوبارہ پھلے لفظ سے تلاوت شروع کی جائے تاکہ کلام کے تسلسل پر کوئی اثر نہ پڑے

 

۔عام طور پر قرآن کریم میں حسب ذیل رموز و علامات ھوتے ھیں:

 

ظ۔ جھاں بات پوری ھو جاتی ھے وھاں یہ علامت ھوتی ھے ۔

 

م۔ اس مقام پر وقف لازم ھے لھذا ملا کر پڑھنے سے معنی بدل جائیں گے ۔

 

ط۔ وقف مطلق کی علامت ھے لھذایھاں وقف کرنا بھتر ھے ۔

 

ج ۔ وقف جائز کی علامت ھے لھذا ملا کر بھی پڑھا جا سکتا ھے لیکن وقف کرنا بھتر ھے ۔

 

ز۔ ٹھھرنا جائز ھے البتہ ملا کر پڑھنا بھتر ھے ۔

 

ص۔ وقف کرنے کی اجازت دی گئی ھے ۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ دوبارہ ایک لفظ کو پھلے سے دھرا کر شروع کرے ۔

 

صل۔ قد یوصل کا خلاصہ ھے ۔ یعنی یھاں کبھی ٹھھرا بھی جاتا ھے اور کبھی نھیں لیکن ٹھھرنا بھتر ھے ۔

 

صلی ۔ الوصل اولیٰ کا خلاصہ ھے یعنی ملاکر پڑھنا بھتر ھے ۔ اگر چہ وقف کرنا بھی غلط نھیں ھے ۔

 

ق۔ قسیل علیہ الوقف کا خلاصہ ھے یھاں نھیں ٹھھرنا چاھئے ۔

 

قف۔ یہ علامت ھے کہ یھاں وقف ھونا چاھئے ۔

 

س یا سکتہ ۔ سکتہ کی نشانی ھے کہ یھاں قدر ے ٹھھرکر آگے بڑھنا چاھئے لیکن سانس نہ ٹوٹے ۔

 

وقفہ ۔ لمبے سکتہ کی نشانی ھے۔ یھاں سکتہ کی بہ نسبت زیادہ ٹھھرنا چاھئے مگر سانس نہ توڑے ۔

 

لا۔ اگر درمیان آیت میں ھو تو وقف نھیں کرنا چاھئے اور آخر آیت پر ھو تو اختیار ھے ٹھرے یا نہ ٹھرے ۔

 

.. ۔ معانقہ ھے ۔ یعنی دو لفظوں یا عبارتوں کے قبل یا بعد یہ علامت ھوتی ھے ان میں ایک جگہ وقف کرنا چاھئے اور ایک جگہ وصل ۔

 

ک۔ کذٰلک کا مختصر ھے یعنی اس وقف کا حکم اس کے پھلے والے وقف کا ھے ۔ وہ لازم تھا تو یہ بھی لازم ھے اور وہ جائز تھا تو یہ بھی جائز ھے ۔

 

کیفیت حرکات

 

وقف کے ساکن کی طرح حرکات کو بھی ادا کرنے کے مختلف طریقے ھیں جن میں مشھور اشباع اور امالہ ھے ۔

 

اشباع

 

حرف کے زیر یا پیش کو اتنا زور دے کر ادا کیا جائے کہ " ی"  اور " واؤ" کی آواز پیدا ھو جائے اور یہ اس وقت ھو گا جب پیش سے پھلے زیر یا پیش ھو اور اس کے بعد والے حرف پر بھی کوئی حرکت ھو جیسے "  ایاک نعبد و ایاک نستعین " کے"  نعبد"کے دال کے پیش کو اشباع کے ساتھ ادا کیا جائے گایعنی دال میں واؤ کی آواز پیدا کی جائے گی اور " انا انزلناہ " کی " ھ" میں یہ بات نہ ھو گی کہ اس کے پھلے " الف"  ساکن ھے ۔

 

اسی طرح جب زیر کے پھلے زیر ھو گا اور بعد میں بھی کوئی حرکت ھو گی تو اشباع کیا جائے گا جیسے "  مالک یوم الدین "  فصل لربک "  کہ " مالک " کے " کاف "  اور " لربک " کے " لام " میں اشباع کیا جائے گا ۔

 

امالہ

 

جھاں بر میں اشباع نھیں ھوتا وھاں امالہ ھوتا ھے یعنی جب واؤ یا یائے ساکن سے پھلے زبر آئے تو زیر کو اس " واؤ "  یا " ی "  کی طرف جھکا کر اس طرح ادا کریں کہ " واؤ "یا "  ی " کی کچھ آواز نکلے جیسے" یوم ۔ غیر"

 

ضمیر

 

احکام حروف و حرکات کے بعد یہ جاننا ضروری ھے کہ احکام کیا ھوں گے اور انھیں کس مقام پر ساکن کیا جائے گا اور کھاںبا قاعدہ یاد رکھا جائے گا ۔

 

ضمیر سے مراد وہ کلمات ھیں جو نام کے بدلے اختصار کے طور پر استعمال ھوتے ھیں جیسے ة۔ ھ۔ وغیرہ

 

اس ضمیر " ھ" کا قانون یہ ھے کہ اگر اس سے پھلے زیر، زبر یا پیش ھو تو اسے با قاعدہ ادا کیا جائے گا جیسے " لَہ ۔ بِہ ۔ کُلٌ ۔ھ"  وغیرہ کہ یھاں" ھ" کو اشباع کے ساتھ با قاعدہ ادا کیا جائے گا اور اگر"  ھ" سے پھلے حرف ساکن ھے تو اسے مختصر کر دیا جائے گا جیسے" مَنْہ ۔ فِیْہ ۔ اِلَیْہ کہ یھاں" ہ " کا تلفظ صرف ایک جھٹکے سے ادا ھو گا  اور بس ۔

Add comment


Security code
Refresh