www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

815037
قرآن مجید حفظ کرنے کی دوصورتیں ھیں :
۱۔ حفظ ترتیبی
۲۔ حفظ موضوعی

حفظ ترتیبی ۔
یعنی شروع سے آخر تک قرآن مجید کی تمام آیتوں کو یاد کرنا ۔

حفظ موضوعی ۔
معنی و مفاھیم کے اعتبار سے آیات کی دستہ بندی کر کے مختلف موضوع کی صورت میں یاد کرنا ۔
جو لوگ متوسط ھافظے اور فراوانی اوقات کے مالک ھیں ۔ ان کے لئے مناسب ھے کہ وہ حفظ ترتیبی کو اپنا شعار بنائیں ۔
لیکن وہ افراد جن کے پاس متوسط ذھن اور وقت کی فراوانی نہ نھیں ھے انھیں چاھئے کہ وہ حفظ موضوعی کو اپنا شعار بنائیں اور ساتھ ھی ساتھ قرآن کے چھوٹے سوروں کو یادکریں۔
لیکن وہ افراد جن کے اندر حفظ آیات کی صلاحیت نھیں ھے انھیں چاھئے کہ زیادہ سے زیادہ سجدہ کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابیوں میں سے ایک صحابی آپ کے پاس آیا اور کھا : قرآن مجید سے جتنا میں نے حفظ کیا تھا وہ میرے ذھن سے محو ھو گیا ھے اور اس کو باقی رکھنا میرے لئے بھت مشکل ھو گیا ھے ۔ آپ نے فرمایا ” لا تحمل علیک ما لا تطیق و علیک با لسجود “ جو کام انجام دینے کی صلاحیت نھیں رکھتے اسے انجام نہ دو بلکہ زیادہ سے زیادہ سجدہ کرو ۔

قرآن مجید حفظ کرنے کے چند مراحل ھیں جنکی رعایت بھت مفید ھے اور وہ مراحل حسب ذیل ھیں :
۱۔ قرآن مجید کے جز اول کا حفظ کرنا ،جز دوم کے حفظ کرنے بہ نسبت زیادہ مشکل ھے ۔ اور جز دوم کا حفظ کرنا جزء سوم کے حفظ کرنے کے بہ نسبت زیادہ مشکل ھے ، اسی وجہ سے ایک دانش مند کا کھنا ھے کہ : جس سے بھی قرآن مجید کے پانچ جزء حفظ کر لئے اس بات کی امید رکھنا چاھئے کہ وہ پورا قرآن حفظ کر سکتا ھے ۔
ابتداء میں قرآن مجید کا حفظ کرنا مشکل ھوتا ھے لیکن جیسے جیسے حفظ کے مراحل سے آگے بڑھتے جاتے ھیں مشکل آسان ھو تی جاتی ھے ۔ اسی وجہ سے مناسب یہ ھے کہ انسان قرآن مجید حفظ کرنے کی ابتداء اسی جگہ سے کرے جھاں اس کا حوصلہ و ھمت پست نہ ھو ۔

یہ مندرجہ ذیل مقامات وہ ھیں جسے حفظ آیات کے لئے مناسب قرار دیا گیا ھے :

(۱)۔نقطہٴ شروع
الف : قرآن مجید کے سوروں کی فھرست
ب: جزء سی ام

۲۔ کیفیت حفظ
قرآن مجید حفظ کرنے سے پھلے بھتر یہ ھے کہ پھلے سوروں یا جزء کی تقسیم بندی کرنا چاھئے اس کے بعد حفظ شروع کرنا چاھئے ۔ اس روش کے ساتھ سوروں اور جزء کا حجم کم ھو جائے گا اور قرآن کا حفظ کرنا آسان ھو جائے گا ۔

حفظ کرنے کے دو طریقے ھیں :
الف : صفحہ کی بنیاد پر آیات کا حفظ کرنا
ب: شمارہ کی اساس پر آیات کا حفظ کرنا

پھلا طریقہ :
کم از کم ھر روز ایک صفحہ یاد کرے ۔ اگر کسی نے اس روش کو انتخاب کر لیا ھے تو اسے چاھئے کہ ختم قرآن تک اس سلسلہ کو جاری رکھے ۔

دوسرا طریقہ :
یہ ھے کہ آیات کو پانچ پانچ کر کے یاد کرنا چاھئے اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رھنا چاھئے اگر کوئی اس طرح شمار کے اعتبار سے ۱/ ۵/ ۱۰ / کر کے حفظ کرے تو درمیان کے شمارے خود بخود حفظ ھو جائیں گے لیکن اس کے لئے تمرکز شرط ھے ۔
اس روش کے ساتھ قرآن مجید کا آخر سے اورل تک پڑھنا مشکل نھیں ھے ۔ لیکن اس کے لئے تھوڑی سی مشق چاھئے ۔ ایک آیت کو مکمل طور سے حفظ کرنے کے عد دوسری آیت یاد کرنا چاھئے جس وقت دوسری آیت حفظ ھو جائے اس وقت دونوں آیتوں کی ساتھ میں تکرار کرنا چاھئے یھاں تک اطمینان کامل حاصل ھو جائے ۔ پھر تیسری آیت یاد کرنا شروع کرنا چاھئے ۔ اس طرح جب پانچ آیت یاد ھو جائیں تو ان کی اتنی تکرار کرنی چاھئے کہ ذھن میں راسخ ھو جائیں ۔ اس مرحلہ کے بعد یہ ضروری ھے کہ ان پانچوں آیت کی فاصلہ کے ساتھ تکرار کی جائے تاکہ ذھن میں با قاعدہ جگہ بنا لیں ۔
ایک ماھر نفسیات کھتا ھے کہ : انسان جو کچھ ایک دن میں پڑھتا ھے اس میں سے نصف آدھے گھنٹے میں بھول جاتا ھے اور ۳/ ۲ نو گھنٹے اور ۴/ ۳ چہ دن میں اور ۵/ ۴ ایک ماہ کی مدت میں بھول جاتا ھے ۔
لھذا ھر روز تھوڑی تھوڑی دیر سے حفظ شدہ چیزوں کی تکرار ضروری ھے تاکہ ذھن میں راسخ ھو جائیں ۔
اگلے روز ، پچھلی پانچ آیتوں کو ایک بار پھر کئی متربہ دھرانا چاھئے ۔ اس کے بعد اگلی پانچ آیتوں کی طرف بڑھنا چاھئے ۔ اگر اس طریقے پر صحیح اور مرتب طور پر حفظ کیا جائے تو حفظ قرآن نھایت آسان ھو جاتا ھے ۔ یھاں ایک بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ھے کہ اگر کوئی آیت بھت لمبی ھو تو اس کو کئی اجزاء میں تقسیم کر کے حفظ کرنا بھتر ھے ۔ اس کے بعد ان اجزاء کو بھی مستقل آیت کے طور پر کئی دن تک حفظ کرنا چاھئے ۔

کیفیت اھم ھے یا کمیت ؟
حفظ قرآن میں جو چیز زیادہ موثر ھے وہ کیفیت ھے نہ کہ آیات کی کمیت یا مقدار ۔ آیات کو بھتر طور پر حفظ کرنا زیادہ آیات کو اچھی طرح حفظ نہ کرنے سے بھتر ھے ۔ لھذا مناسب ھے کہ آیتوں کی زیادہ سے زیادہ تکرار کی جانی چاھئے چاھئے اس میں زیادہ وقت ھی کیوں صرف نہ ھو کیونکہ آیتوں کو بار بار دھرانا حفظ شدہ آیتوں کے ذھن میں زیادہ عرصے باقی رھنے اور مستحکم ھونے کی ضمانت ھے ۔

حفظ شدہ آیتوں کا ذھن میں باقی رکھنا
کسی بھی شئی کا ایجا د کرنا اس کے باقی رکھنے سے زیادہ آسان ھوتا ھے ۔ یھی قانون و کلیہ حفظ قرآن میں بھی جاری ھوتا ھے ۔ حفظ کے مشکل مرحلے سے زیادہ آیتوں کے ذھن میں محفوظ رکھنے جیسے کام پر زیادہ توجہ دینی چاھئے آیتوں کو ذھن میں باقی رکھنا مندرجہ ذیل ذرائع سے آسان ھو جاتا ھے :
۱۔ تکرا ر
۲۔ قرآنی کیسٹوں کو سننا
۳۔ حفظ شدہ آیتوں کو بار بار لکھنا ۔ یہ اس سلسلے میں بھت اھم اور موثر ھے نیز یہ بھت مفید بھی ھے ۔
بذات خود آیتوں کا دھرایا جانا بھی متعدد طریقوں سے ممکن ھے :
۱۔ نماز میں سوروں کو پڑھنا
نمازوں میں حفظ شدہ سوروں کا پڑھنا بھی ایک طرح کی تکرار ھے ۔ نماز واجب میں سورھٴ حمد کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا ضروری ھوتا ھے لیکن نماز مستحب میں سورہ حمد کے بعد کسی بھی سورے کی جتنی بھی آیتیں پڑھ لی جائیں کافی ھے اور نماز بھی صحیح ھے ۔
اس روش کے ذریعے قرآنی ایتوں کے دوھرائے جانے والے عمل پر با آسانی عمل پیرا ھواجا سکتا ھے ۔
۲۔ فردی تکرار
حافظ قرآن کے لئے ضروری ھے کہ دن میں ایک وقت ایسا مقرر کریں جس میں حفظ شدہ آیتوں کو دھرا سکیں ۔ یہ وقت کتنا معین کیا جائے اس کے لئے کوئی فارمولا نھیں ھے بلکہ یہ ھر شخص کے اپنے ذھن اور حافظہ پر منحصر ھے کہ وہ اپنے لئے کتنا وقت مقرر کرے ۔
اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ھے کہ ھر دس دن یا زیادہ سے زیادہ تیس دن کے بعد حفظ شدہ تمام آیتوں کو دھراتے رھنا چاھئے ۔ یہ ایک تجربہ شدہ روش ھے جس پر عمل کرنا نھایت ضروری ھے ۔
س سلسلے میں اھم بات یہ ھے کہ قرآن کی تلاوت کی جائے نہ کہ فقط ذھن میں دھرا لیا جائے ۔
اس کے علاوہ آیتوں کے دھرائے جانے کے لئے جتنا بھی وقت معین کیا جائے اس کے تین حصے کرنا چاھئیں ۔ مثلا اگر ڈھیڑھ گھنٹہ معین کیا ھے اس میں سے آدھا گھنٹہ صبح ، نصف گھنٹہ دوپھر اور آدھا گھنٹہ رات میں سو نے سے پھلے کے لئے مخصوص کرنا چاھئے البتہ بھتر یہ ھے حافظ قرآن مقرر شدہ وقت کو بھی کافی نہ سمجھے بلکہ جتنا ھو سکے اس حد تک تکرار کرتا رھے ۔
خدا وند عالم فرماتا ھے :” فاقروٴا ما تیسّر من القرآن “ یعنی جتنا ھو سکے قرآن کی تلاوت کرو ۔
اس حصے کے آخر میں مشھور مصری حافظ قرآن استاد طبلاوی کی آیتوں کو حفظ و تکرار کرنے کے سلسلے میں روش کا تذکرہ کر دینا یقینا مفید ھو گا ۔
استاد طبلاوی بروز جمعہ آیتوں کو دھرانا شروع کرتے ھیں اور سورھٴ بقرہ ، آل عمران اور نساء کو ختم کرتے ھیں ۔ یکشنبہ کے دن سورھٴ یونس سے سورھٴ نحل تک دھراتے ھیں اور س طرح اپنی معین کردہ روش کے مطابق ایک ھفتے میں سارا قرآن ختم کر لیتے ھیں ۔
۳۔ دوسروں کو سنا کر
قرآن کی آیتوں کو ذھن میں محفوظ رکھنے کی ایک دوسری روش دوسروں کو سنانا ھے ۔ اس روش کا اھم فائدہ یہ ھے کہ حافظ قرآن جس وقت حفظ شدہ آیتیں ایک دوسرے شخص کو سناتا ھے تو اس کو اپنی غلطیوں اور نقائص کا بھی احساس ھو جاتا ھے جبکہ خود اکیلے ھی دھرانے میں اپنے نقائص سے آگاھی کا امکان کم ھوتا ھے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی جب قراان نازل ھو رھا تھا تو ھر سال ماہ رمضان میں سارا قرآن جبرئیل کو سنایا کرتے تھے ۔ اسی طرح اصحاب رسول بھی اپنی یاد شدہ آیتوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سنایا کرتے تھے تاکہ اگر کھیں غلطی ھو رھی ھو تو رسول اکرم اس کی نشاندھی کر دیں اور صحابہ ان غلطیوں کو دور کر کے مطمئن ھو جائیں ۔
اس سلسلے میں سب سے بھتر خود حافظ قرآن کے گھر کے قریبی رشتہ دار اور اس کے دوست ھوتے ھیں ۔

ملتی جلتی آیتوں کو حفظ کرنا
حفظ قرآن کے دوران ایک مشکل یہ بھی آتی ھے کہ قرآن میں بھت سی آیتیں ایسی ھیں جو تقریبا ملتی جلتی اور ایک جیسی ھوتی ھیں ۔ ان آیتوں کو حفظ کرنا دوسری آیتوں کے حفظ کرنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل ھوتا ھے ۔ لھذا ان کو حفظ کرنے اور ذھن میں با قاعدہ باقی رکھنے کے لئے ضروری ھے کہ ان کو دوسری آیتوں کے مقابلے میں زیادہ دھرانا بھی چاھئے ۔ کبھی کبھی ایسا ھوتا ھے کہ دو آیتوں میں فقط ایک حرف یا ایک لفظ کا ھی فرق ھوتا ھے جیسے آل عمران کی آیت نمبر ۸۴/ اور بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۶۔
ظ” قل آمنا با اللہ و ما انزل علینا و ما انزل علی ابراھیم و اسماعیل و اسحٰق و یعقوب و الاسباط و ما اوتی موسیٰ و عیسیٰ و النبیون من ربھم لا نفرق بین احد منھم و نحن لہ مسلمون “
ظ” قولا آمنا با اللہ و ما انزل الینا و ما انزل الے ابراھیم و اسماعیل و اسحٰق و یعقوب و الاسباط و ما اوتی موسیٰ و عیسیٰ و ما اوتی النبیون من ربھم لا نفرق بین احد منھم و نحن لہ مسلمون “
ان دونوں آیتوں میں ” قل ا ور قولوا “ ، ” علینا اور الینا “ اور ” علی ابراھیم و الی ابراھیم “ ایک دوسرے سے فرق کرتے ھیں ۔ اس کے علاوہ دوسری آیت میں ” وما اوتی “ دو بار آیا ھے ۔
اس سلسلے میں ایک دوسری مثال سورہ ٴ انشراح میں نظر آتی ھے :” فان مع العسر یسرا ، ان مع العسر یسرا “ ان دونوں آیتوں میں فقط اتنا فرق ھے کہ پھلی آیت کے آغاز م یں ” فاء“ کا اضافہ ھو گیا ھے ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ اسی طرح کا فرق فقط آیتوں کے آخر میں ھوتا ھے ۔ جیسے احزاب کی پھلی آیت اور سورھٴ دھر کی آیت نمبر ۳۰۔
ظ”یا ایھاالنبی اتق اللہ و لا تطع الکافرین و المنافقین ان اللہ کان علیما حکیما “
ظ” و ماتشاون الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیماً حکیما ً “
کبھی کبھی آیتوں کے درمیان میں ایک جیسے الفاظ آجاتے ھیں ۔ جیسے سورہ ٴ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰/ اور ۱۱۶ ۔
ظان الذین کفروا لن تغنی عنھم اموالھم و الاولادھم من اللہ شیئاً و اولئک ھم و قود النار “
ظ”ان الذین کفروا لن تغنی عنھم اموالھم و لا اولادھم من اللہ شیئا ً و اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون “ اسکے علاوہ ایسا بھی ھوتا ھے کہ دو آیتیں تقریبا ایک جیسی ھوتی ھیں لیکن پھر بھی ایسے الفاظ ھوتے ھیں جو ایک دوسرے سے مختلف ھوتے ھیں ۔ مثلا سورہ ٴ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۰/ اور ۱۴۹ ۔
ظ”یا ایھا الذین آمنوا ان تطیعوا فریقا من الذین او تو الکتاب یرد وکم بعد ایمانکم کافرین “
ظ”یا ایھا الذین آمنوا ان تتطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین “
بعض آیتوں میں ایسا بھی ھوتا ھے کہ دو آیتوں کا فقط درمیان حصہ ھی شباھت رکھتا ھے لیکن شروع اور آخر کا حصہ متفاوت ھوتا ھے ۔ جیسے سورھٴ صف اور جمعہ کی پھلی آیتیں ۔
ظ”سبح للہ ما فی السموات و ما فی الارض وھو العزیز الحکیم “
ظ” یسبح للہ ما فی السموات و ما فی الارض الملک القدوس العزیز الحکیم “
حقیقت یہ ھے کہ ایسی آیتیں جن کسی نہ کسی طرح کی شباھت پائی جاتی ھے بھت سی ھیں بلکہ اس قدر ھیں کہ ان سب کو یھاں پیش بھی نھیں کیا جا سکتا اور یھاں اس کا محل بھی نھیں ھے ۔
سر دست مسئلہ یہ ھے کہ اسی طرح کی آیتوں کو کس طرح حفظ کیا جائے اور کس طرح ذھن میں باقی رکھا جائے اس کی متعدد روشیں اور طریقے ھیں جن میں اھم مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔ تکرار
ایک جیسی آیتوں کو حفظ کرنے کا ایک طریقہ یہ ھے کہ ان آیتوں کو دوسری آسان آیتوں کے مقابلے میں بھت زیادہ دھرایا جانا چاھئے ۔

۲۔ ایک جیسی آیتوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ
اس روش کا طریقہ یہ ھے کہ ایک جیسی آیتوں کے ان الفاظ پر با قاعدہ توجہ کی جائے جو ایک دوسرے سے مختلف ھیں ۔ مثلا جب سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۶ / اور آل عمران کی آیت نمبر ۸۴ کو ایک دوسرے سے ملائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ سورہ ٴ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۶/ میں لفظ ” قولوا “ اور آل عمران کی آیت نمبر ۸۴ میں لفظ ” قل “ آیا ھے ۔ اسی طرح پھلی آیت میں لفظ ” الی “ اور دوسری میں ” علیٰ “
اس کے علاوہ پھلی آیت میں لفظ ” اوتی “ دوبار آیا ھے ۔
اس طرح ان دونوں آیتوں میں تین جگھوں پر فرق پایا جاتا ھے ۔
جب ایک طرح کی دو آیتوں کو ایک ساتھ دوھرایا جا تا ھے تو اس کا فائدہ یہ ھوتا ھے کہ یہ اایتیں ذھن میں اچھی طرح راسخ ھو جاتی ھیں اور زیادہ عرصے تک باقی رھتی ھیں ۔

۳۔ کوڈ ورڈ
ایک دوسرے بھترین اور مفید روش کوڈ ورڈ کا استعمال ھے ۔ مثلا سورھٴ آل عمران کیآیت نمبر ۱۷۶ ،۱۷۷ ، ۱۷۸ میں یوں نظر آتا ھے :
ظ”ولا یحزنک الذین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”و لھم عذاب عظیم “
ظ”ان الذین اشتروا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”و لھم عذاب الیم “
ظ”و لا یحسبن الذین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”و لھم عذاب مھین “
ان تینوں آیتوں کے آخری حصوں کو جو ایک جیسے ھیں کوڈ ورڈ کا استعمال بھت مفید ھے ۔ تین حروف ع۔ الف ۔ م ۔ یہ ترتیب تین الفاظ عظیم ۔ الیم ۔ مھین کے شروع میں آئے ھیں ۔ ان تینوں الفاظ تین آیتوں میں ایک ساتھ آ جانے کی وجہ س بھت مشکل پیدا کرتے ھیں ۔ اس لئے یھاں یہ کیا جا سکتا ھے کہ یہ یاد کر لیا جا ئے کہ حرف ع الف سے پھلے آیا ھے اورحرف الف م سے پھلے آیا ھے ۔ ان تینوں آیتوں کو دھراتے وقت اگر یہ خیال رکھا جائے حرف ع سے ”عظیم “ھے اور وہ ”الیم “سے پھلے آیا ھے تو آیتوں کو دھرانا آسان ھو جائے گا ۔ اسی طرح حرف الف سے” الیم “ھے اور وھ” مھین “سے پھلے آیا ھے ۔ اور سب سے آخر میں مھین ھے جو حرف م سے ھے ۔
یہ کوڈ ورڈ ز ایسے تھے جو فردی تھے یعنی انھیں ھر شخص اپنے اعتبار سے معین کر سکتا ھے لیکن قرآن کریم میں ایسی بھی آیتیں ھیں جن میں کوڈ ورڈ کا استعمال کیا جا سکتا ھے اور یہ کوڈ ورڈ عمومی ھوتے ھیں ۔ مثال کے طور پر :
۱۔ قرآن کریم میں ھمیشہ لفظ ”ولی “ لفظ ” نصیر “ سے پھلے آیا ھے ۔ مثلا :
ظ”و اللہ اعلم باعدائکم و کفیٰ با للہ ولیا و کفی باللہ نصیرا “
ظ” و اجعل لنا من لدنکا ولیا و اجعل لنا من لدنک نصیرا “
ظ”و مالکم من دون اللہ من ولی و الا نصیر “
۲۔ قرآن مجید میں ھمیشہ لفظ ” سمیع “ لفظ ” علیم “ سے پھلے آیا ھے ۔ جیسے مندرجہ ذیل آیتیں :
ظ”ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم “
ظ”فسیکفیکھم اللہ و ھو السمیع العلیم “
ظ”ان اللہ سمیع علیم “

Add comment


Security code
Refresh