www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جب آپ کے دو بڑے سھارے، حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجة الکبری ، یکے بعد دیگرے اس دنیا سے کوچ کر گئے تو اب کوئی ان جیسا مددگار نہ رھا تھا،ان کے فقدان پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ :۔

'' ما نالت منی قریش شیئا اکرھہ حتی مات ابوطالب'' (۱)
ابوطالب کی وفات تک قریش مجھ سے ایسا کوئی (بُرا)سلوک نہ کر سکے ، جو مجھے نا پسند ھوا ھو۔
اسی سال کو رسول اﷲ(ص) نے عام الحزن قرار دیااور آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ھجرت فرمائی۔ کافی کی روایت ہے کہ:
''لما توفی ابو طالب نزل جبرئیل علی رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فقال یا محمد اخرج من مکة فلیس لک فیھا ناصر''(۲)
''جب ابو طالب(ع) کی وفات ھوئی تو آپ پر جبریل نازل ھوئے اور کھا اے محمد! آپ مکہ سے نکلیں، کیونکہ اب وھاں آپ کا کوئی مددگار نھیں ہے''
مدینہ منورہ میں ابتداء میں آپ کے صحابہ کرام ،آپ اور آپ کے اھل خانہ کی معاشی کفالت کیا کرتے تھے ۔انصار مدینہ زراعت پیشہ تھے وہ اپنے کھیتوں میں سے کچھ حصہ وقف کر دیتے تھے اور پکنے کے وقت ایک مخصوص حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ (۳)
جانور پالنا
جب افراد خانہ کی تعداد بڑھتی گئی تو آپ نے ان کی گذر بسر کے لیے کچھ معاشی فعالیت شروع کی ۔ آپ نے چند بکریاں خرید یں جن کا دودھ آپ کے خاندان والے بطور خوراک استعمال کیا کرتے تھے۔ بکریوں کی تعداد بڑھتی رھی ۔ ان کی بکریوں کے ساتھ آپ کے ذاتی اونٹ اور گھوڑے بھی ھوتے تھے ۔ جب ان کی تعداد کافی بڑھ گئی تو مدینہ منورہ کے قریب ایک چراہ گاہ میں یہ جانور رھنے لگے ۔ ایک صحابی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور دودھ آپ کے گھر بھیجا دیا جاتا تھا۔ (۴)
دیگر بادشاھوں کے تحائف
جب آپ نے مدینہ منورہ میں باقائدہ اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور آس پاس کے حاکموں کو دین کی دعوت دینے کے لیے مکتوبات لکھے اور اپنے نمائندے بھیجے تو ان بادشاھوں نے آپ کی خدمت میں تحائف بھیجے ۔ ان تحائف میں اونٹ گھوڑے ، خچر، گدھے وغیرہ شامل تھے۔(اس کی مختصروضاحت کم آپ کے جانوروں میں بیان کریں گے۔)
غنائم
آپ کی کفار اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ بھت سی جنگیں ھوئیں تھیں ان جنگوں میں آپ کو بھت سا مال غنیمت حاصل ھوا، ان میں سے ایک حصہ آپ کے لئے خاص ھوتا تھا۔ یہ حصہ آپ کو دو صورتوں میں ملتا تھا ، ایک مجاھد کی حیثیت سے اور دوسرا سربراہ مملکت کی حیثیت سے ، جس کو قرآن کریم میں خمس کھا گیا ہے، اس مال سے آپ اپنی اور اپنے قرابتداروں کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے:۔
''وَ اعْلَمُوآ اَنَمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسَکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰ مَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقََانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِ یْرُ۔''(۵)
''جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ھو اور اس چیز پر جو ھم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا جو دن حق اور باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں اور اﷲ ھر شی پر قدرت رکھتا ہے''۔
مخیریق کی جائداد کا آپ کو ملنا:
مخیریق قبیلہ بنو قینقاع کا ایک مالداریھودی تھا، اسے آپ سے انتھائی عقیدت تھی ۔اور آپ ان کو ''خیر یھود'' کھا کرتے تھے۔ (۶)
اس کے سات باغ تھے ۔ وہ آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شریک تھا ۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اگر وہ مر جائیں تو ان کی تمام دولت آپ کی ملکیت ھوجائے گی ۔(۷)
وہ اسی غزوہ میں قتل ھو گئے اسی طرح اس کی ساری دولت آپ کی ملکیت میں آگئی۔اس کے سات باغات کے نام یہ ہیں:العواف،الدلال، البرقة، المثیب، الحسنی، الصافیة، مشربة ام ابراھیم (یہ نام اس لیے رکھا کہ آپ کے بیٹے ابراھیم کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ وھاں رھتی تھی)۔(۸)
بنو نضیر کی زمین اور نخلستان
اﷲ تعالی نے آپ کو بنو نضیر کے باغات اور زمین کا مالک بنایاجس کی گواھی قرآن کریم کی سورہ حشر میں موجود ہے کہ:۔
''اور جس مال کو اﷲ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمھارا کوئی حق نھیں ہے ) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ،لیکن اﷲ اپنے رسولوں کو جن پر چاھتا ہے غالب کردیتا ہے اور اﷲ ھر چیز پر خوب قادر ہے۔'' (۹)
بنو نضیر نے جب معاھدے کی خلاف ورزی کی تو آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ان پر چڑھائی کی ، جس کی نتیجے میں انھوں نے جلاوطنی قبول کی اور اپنی تمام جائداد چھوڑ دی سوائے منقولات میں سے صرف جتنا اٹھا سکے اتنا لے گئے۔ آپ نے ان کے منقولات کو تمام مجاھدین میں تقسیم کردیا اور غیر منقولات (زمین اور باغات وغیرہ)اﷲ کے حکم کے مطابق اپنے لیے رکھ لیئے ۔
عامہ کی روایت کے مطابق بنو نضیر کی زمین اور نخلستان آپ کے لیے خاص تھے :
''کانت اموال بنی نضیر مما آفاء اﷲ علی رسولہ مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل و لا رکاب ، کانت لرسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم خالصا ینفق علی اھل بیتہ ۔'' (۱۰)
بنو نضیر کے اموال خالصة اﷲ کے رسول کے لیے تھے جو اﷲ نے اپنے رسول کو عطا کئے تھے جس میں مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، یہ اموال آپ اپنے اھل بیت پر خرچ کرتے تھے۔
آپ نے اپنی ازواج کی کفالت کے لیے بنو نضیر کے نخلستان ،جو آپ کو غنیمت کے طور پر ملے تھے ،کی پیداوار میں سے ایک حصہ مقرر کیا تھا ، جسے فروخت کرکے ان کے سال بھر کی گذربسر کا سامان کیا جاتا تھا۔جب خیبر فتح ھوا تو تمام ازواج کے لیے فی کس اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو سالانہ مقرر ھوا تھا۔ (۱۱)
خیبر کی آمدنی
آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد خیبر کی طرف رخ کیا کیونکہ وھاں کے یھود اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ جب خیبر فتح ھوا تو آپ نے انھیں اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کے بجائے وھاں رھائش اختیار کرنے کی اجازت دے دی اس شرط کی بنا پر کہ وہ خیبر کی زمین کاشت کریں گے اور اس کا آدھا حصہ آپ کو بھیجیں گے۔ (۱۲)خیبر کی زمینوں کی آمدنی آپ کے لیے تھی۔
فدک
فدک حجاز کے بالائی حصہ میں دوسرے قصبات کی طرح ایک مستقل ریاست کا درجہ رکھتا تھا ۔ اس کی زمین زرخیز اور پیداوار کے لیے مشھور تھی ۔ بلاذری لکھتے ہیں:۔''فدک حجاز کا ایک شھر ہے ، مدینے سے فدک تک دو دن یا تین دن کا سفر ہے ، اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کوساتویں ھجری میںیہ بطور غنیمت عطا کیا۔ جب نبی پاک نے خیبر پر حملہ کیا اور اس کے تمام قلعے فتح ھو گئے اور وھاں کے لوگوں نے رسول اﷲ کو خیبر کی آمدنی کا آدھا حصہ دینے کا معاھدہ کیا۔ تو یہ خبر فدک والوں تک پھنچی تو انھوں نے رسول اﷲ کو پیغام بھیجا کہ وہ آپ کو اپنی زمین اور اموال کا آدھا حصہ دینے کا معاھدہ کریں گے ۔ آپ نے ان کی یہ پیش کش قبول کی۔ یہ غنائم خالصة رسول اﷲ کے لیے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں نے (جنگ کے لیے) نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔'' (۱۳)
اس طرح فدک کی زمین آپ کی ملکیت میں آگئی۔ اور آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فدک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ(س) کو دے دی۔(۱۴)
وادی القری
یہ وادی مدینہ اور شام کے درمیان ہے ، جسے یھودیوں نے قبل از اسلام آباد کیا تھا، یہ بھت سے قصبوں پر مشتمل تھی۔ (۱۵)
آپ فدک کے بعد وادی القری کی طرف متوجہ ھوئے ، سب سے پھلے انھیں اسلام کی دعوت دی انھوں نے اس د عوت کو قبول نہ کیا ، بلکہ جنگ کے لیے آمادہ ھوئے ۔ مختصر محاصرہ کے بعدآپ نے وادی القری کو فتح کیا ۔ وھاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی زمین کا آدھا حصہ دینے کا معاھدہ کیا ، جسے آپ نے قبول کر لیا۔
وادی التیماء
تیما ء شام کی جانب ایک قصبہ ہے جو وادی القری اور شام کے درمیان تھا، یہ شام اور دمشق سے آنے والے حجاج کے راستے میں پڑتا تھا، یھاں پر سموآل یھودی کا قلعہ الابلق الفرد تھا۔ (۱۶)
جب رسول اﷲ(ص) نے اھل خیبر اور اھل فدک اوراھل وادی القری کے ساتھ معاھدہ کئے تو اھل تیماء نے بھی آپ کو صلح کا پیغام بھیجا آپ نے قبول فرمایا اورانھیں اپنی زمین میں رھنے دیااوروہ اپنی زمین کی پیداوار کا نصف حصہ آپ کو دینے پر راضی ھوئے۔(۱۷)
آپ کے جانور
الف)آپ کے اونٹ
ابن کثیر کی روایت کے مطابق آپ کی تین اونٹنیاں تھیں۔۱۔ القصوی، ۲۔ الجدعائ،۳۔ العضباء ۔(۱۸)
تھذیب الکمال للمزی کی روایت کے مطابق آپ کے پاس بیس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں:۔۴۔ الحناء ،۵۔السمراء ،۶۔العریس،۷۔السعدیہ ،۸۔ البغوم ،۹۔ الیسیرة،۱۰۔ الربی ،١١۔ بردة جو آپ کو ضحاک ابن سفیان الکلابی نے ھدیہ کی تھی یہ دو اونٹنیوں کے برابر دودھ دیتی تھی۔،١٢۔ مھرة ،١٣۔ الشقراء ،١٤۔القصوی ،١٥۔ الجدعائ،١٦۔ العضباء ،١٧۔الصھباء ،١٨۔ الغیم ،١٩۔ النوق ،٢٠۔ مروة۔ (۱۹)
مناقب ابن شھر آشوب کی روایت کے مطابق: ۱۔ العضباء،۲۔ الجدعا،۳۔ القصوی یا اسے القضواء کھا جاتا ہے ،۴۔الصھباء ،۵۔ البغوم ،۶۔ الغیم ،۷۔ النوق ،۸۔ مردة اور دس دودھ دینے والی اونٹنیاں ،۹۔ مھرة ،۱۰۔ الشقراء ،۱۱۔ الریا ،۱۲۔ الحبا،۱۳۔ السمرا ،۱۴۔ العریس ،۱۵۔ السعدیة ،۱۶۔ البغوم ،۱۷۔ الیسیرة ،۱۸۔ بردة ۔(۲۰)
سبل الھدی کی روایت کے مطابق آپ کی ٤٥ دودھ والی اونٹنیاں تھیں۔(۲۱)
لیکن اس نے تمام کے نام ذکر نھیں کئے۔
ب)آپ کے گھوڑے
ابن شھر آشوب کی روایت کیے مطابق آپ کے گھوڑے یہ تھے :۔ ۱۔الورد ،۲۔ الطرب ،۳۔ اللزاز ،۴۔ اللحیف ،۵۔ مرتجز ،۶۔ السکب ،۷۔ الیعسوب ،۸۔ السبحة ،۹۔ ذو العقاب ،۱۰۔ الملاوح اسے مراوح بھی کہا جاتا ہے۔(۲۲)
بعض روایات کے مطابق آپ کے پاس پندرہ گھوڑے تھے بعض کے مطابق بیس تھے۔(۲۳)
ج)بغالہ (خچر)
سبل الہدی کی روایت کے مطابق آپ ۖ کے پاس سات خچر تھے ،١۔ دلدل جوآپۖ کوشاہ مصر مقوقس نے ہدیہ کیا تھا،۲۔ فضة جوآپ کو فروة بن عمرو الجذامی نے ہدیہ کی تھی،۳۔ ایک خچر ایلیا کے رئیس نے ھدیہ کیا تھا ،۴۔ ایک خچر کسری نے ھدیہ کیا تھا ،۵۔ایک دومة الجندل ،۶۔ ایک نجاشی نے ھدیہ کی تھی،۷۔ حمارة شامیة ۔(۲۴)
د)حمارہ(گدھے)
آپ کے پاس دو گدھے تھے بحار الانوار کی روایت کے مطابق۱۔ یعفور جو مقوقس نے دلدل کے ساتھ آپ کو ھدایہ کیا تھا۔ ۲۔ عفیر فروة جذامی نے فضة کے ساتھ ھدیہ کیا تھا(۲۵) سبل الھدی و الرشاد کی روایت کے مطابق ان کی تعداد چار تھی دو یھی اور ۳۔ سعد بن عبادة نے ھدیہ کیے تھے ۴۔ آپ کے کسی صحابی نے ھدیہ کیا تھا۔(۲۶)
ھ)آپ کے بکریاں
آپ کی ١٠٠ بھیڑ بکریاں تھیں(۲۷)
آپ کی مجموعی زمینی پیداوار
السید مرتضی العسکری نے اپنی کتاب معالم المدرستین میں آپ کی معاشیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، ان میں سے پھلا حصہ: صدقات جو آٹھ تھے:
۱۔ سب سے پہلے آپ کو مخیریق یھودی کی وصیت کے مطابق اس کی زمین جو الحوائط السبعة کے نام سے ہے مشھور تھے، ملکیت میں ملی،۲۔ مدینہ منورہ میںبنو نضیرکی زمین،۳۔،۴۔،۵۔ خیبر کے تین حصے،۶۔آدھا فدک،۷۔وادی القری کا ثلث ،٨۔سوق المدینہ جس کو مھزور کھا جاتاہے۔
دوسرا حصہ: آپ کا حق فی تھا جو آپ کے لیے خاص تھا۔
تیسرا حصہ: خیبر کا خمس تھا ۔ یہ تمام حقوق خاص رسول کے لیے تھے ،اس میں کوئی اور شریک نھیں تھا۔ (۲۸)
حوالہ جات:
۱۔ سیرت ابن ھشام،ج ٢، ص٢٨٣، تاریخ الطبری ، ج٢، ص٨٠ ۔
۲۔ الکافی، ج١، ص٤٤٩۔
۳۔ نبی کریم کی معاشی زندگی، ص ١٥٣۔
۴۔ نبی کریم کی معاشی زندگی، ص ١٥١۔
۵۔ سورہ الانفال، آیت ،٤١۔
۶۔ بحار الانوار ، ج ٢٠، ص ١٣٠۔
۷۔ بحار الانوار ، ج ٢٠، ص ١٣٠۔
۸۔ تھذیب الاحکام ، ج ٩ ، ص ١٤٥، بحار الانوار ،ج ٢٢، ص ٢٩٨۔
۹۔ سورہ حشر ،آیت ٦۔
۱۰۔ صحیح البخاری ، ج ٦، ص ٥٨،سنن ابو داؤد، ج ٢ ،حدیث نمبر ٢٩٦٥، ص ٢٢ ، سنن الترمذی، ج ٣ ، ص ١٣١۔
۱۱۔ معجم الاوسط ، الطبرانی، ج٢، ص٢٠٥، عبداﷲ اابن قدامہ، مغنی، ج ٥ ، ص٥٨٤۔
۱۲۔ صحیح المسلم ، ج ٥، ص٢٧، سنن ابی داؤد ، ج٢، ص١٢٦۔
۱۳۔ معجم البلدان، ج ٤، ص ٢٣٨۔
۱۴۔ الکافی ، ج١، ص ٥٤٣۔
۱۵۔ معجم البلدان ، ج ٥، ص٣٤٥۔
۱۶۔ معجم البلدان ، ج٢، ص ٦٦۔
۱۷۔ معجم البلدان ، ج٢، ص ٦٦۔
۱۸۔ ابن کثیر ، السیرة النبویة، ج ٤ ص ٧١٣، البدیة و النھایة ، ج ٦، ص١٠۔
۲۹۔ تھذیب الکمال ، ج ١ ، ص ٢١١۔
۲۰۔ مناقب ابن شھر آشوب ، ج ١ ، ص ١٤٦۔
۲۱۔ سبل الھدی و الرشاد، ج ٧، ص ٤٠٧۔
۲۲۔ مناقب آل ابی طالب، ج ١ ،ص ١٤٦۔
۲۳۔ سبل الھدی و الرشاد ، ج ١١، ص ٤١٩۔
۲۴۔ سبل الھدی و الرشاد ، ج ٧،ص٤٠٥۔
۲۵۔ بحار الانوار ، ج ١٦ ، ص١٠٨۔
۲۶۔ سبل الھدی و الرشاد ، ج ٧ ، ص ٤٠٦۔
۲۷۔ مناقب ابن شھر آشوب، ج ۱ ، ١٤٦ ،بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢۔
۲۸۔ السید مرتضی العسکری ،معالمة المدرستین، ج٢، ص ۔١٣١
المراجع والمصادر
١۔ القرآن الکریم
٢ ۔ ابن شھر آشوب ابو عبد اﷲ محمد ابن علی ابن شھر (متوفی ٥٨٨ھ)،''مناقب آل ابی طالب''، المطبعة الحیدریة النجف الاشرف، سنة ١٣٧٦۔
٣۔ احمد بن حسین بن علی البیھیقی(الموتوفی:٤٥٨):'' السنن الکبریٰ''ناشر دار الفکر بیروت لبنان۔
٤۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤): ''البدایہ والنھایہ''، ناشر دار الاحیاء التراث، العربی، الطبعة الاولی سنة ١٩٨٨۔
٥۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) :''السیرة النبویة'' ناشر دار المعرفة بیروت ، طبع اول ،سنة ١٣٩٦ھ۔
٦۔ امام ابوالفداء اسماعیل بن کثیر(المتوفی ٧٧٤) : ''البدیة و النھایة'' ، الناشر : دار الاحیاء التراث العربی۔ بیروت، الطبعة الاولی ١٤٠٨ھ ۔
٧۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری(المتوفی ٢٥٦ھ) :''صحیح البخاری''،ناشردار الفکربیروت،سنة ١٤٠١ھ۔
٨۔ امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی(التوفی ٩٤٢ ):'' سبل الہدی و الرشاد''، ناشر دار المکتبة العلمیة بیروت لبنان،
الطبعة الاولیٰ سنة ١٩٩٣ء۔
٩۔ امام مسلم بن حجّاج ا لقشیری : ''صحیح مسلم ،'' ناشر دار الفکر بیروت ۔ لبنان۔
١٠۔ الترمذی محمد ابن عیسی (متوفی ٢٧٩ ھ): ''سنن الترمذی''، دار الفکر بیروت ، سنة ١٤٠٣ھ۔
١١۔ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی (متوفی ٧٤٢ھ): ''تھذیب الکمال'' ، الناشر :موسسة الرسالة، الطبعة الرابع سنة ١٤٠٦ھ ۔
١٢۔ (ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم کی معاشی زندگی، دیال سنگھ لائبرری لاھور۔
١٣۔ سلیمان ابن اشعث السجستانی (متوفی٢٧٥ھ)۔''سنن ابی داؤد''، طبع اولیٰ،دارالفکربیروت،سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ء۔
١٤۔ السید مرتضی العسکری (معاصر)معالمة المدرستین، بیروت، سنة ١٤١٠ھ۔١٩٩٠ء۔
١٥۔ شھاب الدین ابو عبد اﷲ یاقوت الحموی (متوفی ٦٢٦ھ)،''معجم البلدان'' ، دار الاحیاء التراث العربی ،بیروت سنة ١٣٩٩ھ۔
١٦۔ (الشیخ الطوسی محمد ابن الحسن (متوفی٤٦٠ھ): ''تھذیب الاحکام"الناشر : دار الکتب الاسلامیة، الطبعة الرابعة ١٣٦٥ ش۔
١٧۔ الشیح محمد باقر المجلسی (المتوفی١١١١ھ )''بحار الانوار''، ناشر مؤسسة الوفاء بیروت لبنان، الطبع الثانیہ ، سنة ١٩٩٣ء۔
١٨۔ (الطبرانی سلیمان ابن احمد(متوفی٣٦٠ ھ)، ''معجم الاوسط ''،المطبعة دار الحرمین، سنة ١٤١٥ھ ١٩٩٥ء۔
١٩۔ عبد الملک بن ہشام الحمیری(المتوفی ٢١٨) :''سیرت النبی" طبع مکتبة محمد علی صبیح و اولادہ میدان الازھر بمصر سنة ١٣٨٣ھ ۔
٢٠۔ محمد یعقوب کلینی(المتوفی ٣٢٩ھ) :" اصول کافی " ناشر دارالکتب اسلامیہ تھران، طبع چھارم ،سال ١٣٦٥ھ ش۔
٢١۔ (یعقوبی احمد بن ابی یعقوب (متوفی٢٨٤):''تاریخ یعقوبی''،الطبع ، دار الصادر، بیروت،ناشر فرہنگ اہل بیت ، قم ایران۔ 

Add comment


Security code
Refresh