www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام کے اقتصاد میں اعتدال کے بارے میں متعدد پھلو ہیں میں اس کے ھر پھلو پر مختصر روشنی ڈالوں گا،میں نے عرض کیا تھاکہ اسلام زیادہ سے زیادہ تولید کے حق میں ہے

 البتہ فقر اور زیادہ مال ودلت کو پسند نھیں کرتا، اسلام یہ چاھتاہے کہ ھمار ے پاس اپنی ضروریات کے مطابق مال ودولت ھونا چاھئیے ۔

زیادہ تولید اور مصرف میں اعتدال

اسلام کے اقتصادی معاشرہ میں ھمارا اصلی ھدف یہ ہے کہ ھم تولید میں اضافہ کریں اور اپنے مصار ف میں اعتدال سے کام لیں یھی معاشرے کے لئے اسلام کا اقتصادی ھدف ہے ۔

تولید ،توزیع ،اور خدمات میں ھمارا ھدف

 یہ مسئلہ انتھائی اھمیت کا حامل ہے کہ مختلف اقتصادی پھلوؤں کی تلاش کی جائے اگر ھم نے صحیح راہ تلاش کر لی تو یہ تمام کوشش مفید ثابت ھوگی اور اگرغلط ھدف کی طرف چل دیئے تو اقتصادی اقدامات کا نتیجہ الٹا ھو جائے گا۔ھماری ریاضت بے کار ھو جائے گی تولیدی اور توزیعی کوشش بھی ناکام ھو جائے گی،ھم ایک ناکام راہ کے مسافر ھوں گے اور انفرادی طور پر بھی ھمیں کامیابی نصیب نہ ہوگی اور معاشرہ بھی ایک نامکمل اقتصادی نظام کا شکار ھو جائے گا۔

اسلام کی نظر میں دنیا اور آخرت

ھمارے پاس دنیا اور آخرت کے متعلق روایات کی خاصی تعداد موجود ہے جس میں دنیا کی مذمت اور آخرت کی مدح کی گئی ہے یہ روایات اجتماعی اورانفرادی کوششوں کا خلاصہ ہیں۔آسمانی نشانیوں میں تامل کے ساتھ ،اسلامی معارف کے ذریعہ،ھم واضح طور پر جھت دار اقتصاد کو تلاش کر سکتے ہیں،البتہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا دنیا کی مذمت، اور کام کرنے کا شوق دلانے والی روایات کے درمیان کوئی تعارض تو نھیں ہے ۔

ان باتوں کو اچھی طرح بیان نھیں کیا جاتا ، بعض کھنے اور لکھنے والے صرف ایک پھلو کو لیتے ہیں،شاید ان کی بات تصوف اور ریاضت کی حد تک ھو۔ ان باتوں پر عمل کوتاہ نظری کے علاوہ کچھ بھی نھیں ہے ،اسی طرح آخرت کے متعلق ان کی باتیں بھی اس طرح ہیں کہ دنیا اور آخرت کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نھیں ہے ۔

ھمیرے خیال میں(البتہ یہ میرا ذاتی خیال نھیں ہے ، میں نے تو اسلام کے بزرگ دانشوروں سے استفادہ کیا ہے)اسلام میں دنیا اور آخرت آپس میںجدانھیں ہیں انسان پیدائش سے لے کر موت تک ایک زندگی کا مالک ہے اصولی طور پر زندگی اور موت کو ایک دوسرے سے جدا نھیں سمجھنا چاھئے ۔

دنیا کی بدی ھماری روح میں ہے

دنیا کی حقارت ھماری روح میں مضمر ہے انسان ایک اچھے ھدف کا انتخاب کرے، خدا اور حقیقت کو ھدف سمجھے تو جو قدم بھی اٹھاے گا وہ آخرت کے لئے ھو گادنیا سے اس کا کوئی ربط نھیں ھو گا ۔

آیا دنیا کا معنی( دنو)سے لیا گیا ہے جس کا معنی قرب ہے اور یہ ھماری زندگی کا پھلا حصہ ہے یا لفظ دنیا (دنی) سے ماخوذ ہے جس کا معنی پستی ہے دونوں معانی کے لئے دو اعتبار ممکن ہیں ۔بھت سے کاموں کا دنیاوی مشکلات کے ساتھ آخرت کے لئے انجام دیناممکن ہے کئی کام اس دنیا کے لئے پست ہیں ،لیکن انھیں آخرت کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔

ایسا شخص جو خدا کے لئے کام کرتا ہے ، اب اگروہ دن رات کارخانے میں رہ کر کام کرتا ہے ،کافی مال بھی کما لیتا ہے اب اگر دنیا کی اقتصادی طاقت بھی اس کے ھاتھ لگ جائے تو بھی اسے دنیا دارنھیں کھیں گے بلکہ یہ آخرت کا طالب ہے۔

اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو خود خواہ اور خودفروش ہے وہ دن رات مسجد کا بن کر ھی کیوں نہ بیٹھ جائے اور اس قدر ریاضت میں مشغول ھو جائے کہ اس کا تمام بدن آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے بھہ جائے اور چل پھر بھی نہ سکے تب بھی وہ دنیا پرست ہے اور وہ روز بروز اللہ سے دور ھوتا جائے گا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کرنے لگا کہ میں یہ محسوس کر رھا ھوں کہ میرے وجود میں دنیاوی کاموں کی محبت موجود ہے ، میں یہ چاھتاھوں کہ ھمیشہ کام کر کے پیسہ کماتا رھوں۔

امام علیہ السلام نے پوچھا، اتنا مال کیوں کمانا چاھتے ھو؟

اس نے کہا،میںچاھتا ھوں کہ ھم اچھی زندگی گزاریں، ھمارے بچے آرام و سکون کی زندگی بسرکرسکیں ،ھم اپنے ھمسایوں اور فقرا کی مدد کرنا چاھتے ہیں،اور میں مکہ عمرہ کے لئے جانا چاھتا ھوں۔

حضرت نے ارشاد فرمایا:

"ھذا لیس طلب الدنیا ،ھذا طلب الاخرة"

تم تو آخرت کے متلاشی ھو۔

 اس کے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنی زندگی گرجا گھروں میں گزاردی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوںنے اپنی پیشانیاںسجدہ گاہ پر رگڑ رگڑ کر سیاہ کر لی ہیںتاکہ انھیں اس دنیا کا مخالف تصور کیا جائے ،ایسا کام نہ دنیا ہے اور نہ آخرت ہے ۔

معصوم علیہ السلام کا فرمان ہے:

"من طلب الدنیا استعفافامن الناس و سیبا علی جارہ"

 ایک اورروایت اس طرح ہے

"تعطفا علی جارہ،و سیبا علی اھلہ"

تیسری روایت کا مضمون اس طرح ہے

 "لقی اللہ تعالی یوم القیمة و وجھہ لیلة البدر"

جو شخص اپنے اور اپنے خاندان کے لئے مال ودولت جمع کرے کہ اس سے اچھی زندگی بسر کر سکے ،اپنے ھمسائیوں کی مدد کر سکے ، ایسا شخص جب قیامت والے دن اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اس کا چھرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رھا ھو گا،اس طرح کی زندگی دنیاداری نھیں ہے بلکہ یہ آخرت ہے۔جس شخص کا کوئی ھدف ہے وہ دنیادار نھیں ہے امام خمینی(رہ) نے اس روایت پر بھت زور دیا تھا

"حب الدنیا راس کل خطیئة"

دنیا کی محبت ھر گناہ کی بنیاد ہے، یعنی بدبختی کا موجب بننے والی ھر چیز دنیا کی محبت ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh