www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

۱۔اصلي عامل؛معاشرتي سطح پر پھيلنے والي گمراھي اور انحراف

اگر ايک معاشرے ميں ايک بيماري موجود ھو تو وہ بيماري اُس معاشرے کوکہ جس کے حاکم پيغمبر اکرم (ص) اور امير المومنين جيسي ھستياں ہيں، صرف چند دھائيوں ميں اُن خاص حالات سے دوچار کردے تو سمجھ ليناچاہيے کہ يہ بيماري بھت ھي خطرناک ہے، لھذا ھميں بھي اس بيماري سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہيے-

امام خميني(رہ) جو خود کو پيغمبر اکرم (ص) کے شاگردوں ميں سے ايک ادنيٰ شاگرد سمجھتے تھے ، اُن کيلئے يہ با ت باعث فخر تھي کہ وہ پيغمبر اکرم (ص) کے احکامات کا ادراک کريں، اُن پر عمل کريں اور اُن کي تبليغ کريں- امام خميني(رہ) کجا اور حضرت ختمي مرتبت (ص) کجا! اُس معاشرے کے موسس و باني خود پيغمبر اکرم (ص) تھے کہ جو آپ (ص) کے وصال کے چند سالوں بعد ھي اس بيماري ميں مبتلا ھوگيا تھا- ھمارے معاشرے کو بھت ھوشيار رھنے کي ضرورت ہے کہ وہ کھيں اُس بيماري ميں مبتلا نہ ھوجائے، يہ ہے عبرت کا مقام! ھميں چاھيے کہ اُس بيماري کو پھچانيں (کہ اُس کي کيا علامات ہيں، اُس کے نتائج کيا ہيں اور بيمار بدن آخر ميں کس حالت سے دوچار ھوتا ہے) اور اس سے دوري و اجتناب کريں-

ميري نظر ميں کربلا کا يہ پيغام، کربلا کے دوسرے پيغاموں اور درسوں سے زيادہ آج ھمارے ليے سب سے زيادہ ضروري ہے- ھميں اُن علل و اسباب کو تلاش کرنا چاھيے کہ جس کي وجہ سے اُس معاشرے پر ايسي بلا نازل ھوئي تھي کہ دنيائے اسلام کي عظيم ترين شخصيت اور خليفہ مسلمين حضرت علي ابن ابيطالب کے فرزند حسين ابن علي علیھم السلام کے بريدہ سر کو اُسي شھر ميں کہ جھاں اُن کے والد حکومت کرتے تھے، پھرايا جائے اور کوئي بھي صدائے احتجاج بلند نہ کرے! اُسي شھر سے کچھ افراد کربلا جائيں اورنواسہ رسول (ص) اور اُس کے اھل بيت اصحاب کو تشنہ لب شھيد کرديں اور حرم امير المومنين کو قيدي بنائيں!

اس موضوع ميں بھت زيادہ گفتگو کي گنجائش موجود ہے- ميں اس سوال کے جواب ميں صرف ايک آيت قرآن کي تلاوت کروں گا- قرآن نے اس جواب کو اس طرح بيان کيا ہے اور اُس بيماري کو مسلمانوں کيلئے اس انداز سے پيش کيا ہے اور وہ آيت يہ ہے- "فَخَلَفَ من بَعدھم خَلف اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا "اور اُن کے بعد ايک ايسي نسل آئي کہ جس نے نماز کو ضايع کيا اور شھوات و خواھشات کي پيروي کي تو يہ لوگ بھت جلد اپني گمراھي کا نتيجہ ديکھيں گے۔

گمراھي اور انحراف کي اصل وجہ

ذکرخدا ا ور معنويت سے دوري اور خواھشات کي پيروي

اس گمراھي اورعمومي سطح کے انحراف کے دوعامل اور عنصر ہيں؛ ايک ذکر خدا سے دوري کہ جس کا مظھر نماز ہے، يعني خدا اور معنويت کو فراموش کرنا، معنويت و روحانيت کو زندگي سے نکال دينا، خدا کي طرف توجہ، ذکر ، دعا وتوسل ، خدا کي بارگاہ ميں طلب و تضرّع و زاري، توکّل اور خدائي حساب کتاب کو زندگي سے باھر نکال پھينکنا اور دوسرا عنصر "وَاتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ " شھوت راني کے پيچھے جانا ، ھوا و ھوس اور لذات دنيوي سے لُطف اندوزھو کرخدا و قيامت کو فراموش کر دينا اور ان سب امور کو "اصل" جاننا اور ھدف و مقصد کو فراموش کردينا-

اصلي اور بنيادي درد:

 ھدف کے حصول کي تڑپ کا دل سے نکل جانا

يہ ہے اُس معاشرے کا بنيادي اور اصلي درد و تکليف ؛ ممکن ہے ھم بھي اس درد و بيماري ميں مبتلا ھوجائيں-

اگر ھدف کے حصول کي لگن و تڑپ اسلامي معاشرے سے ختم ھوجائے يا ضعيف ھوجائے ،اگر ھم ميں سے ھر شخص کي فکر يہ ھو کہ وہ اپنا اُلّو سيدھا کرے، ھم دنيا کي دوڑ ميں دوسروں سے کھيں عقب نہ رہ جائيں، دوسروں نے اپني جيبوں کو بھرا ہے اور ھم بھي دونوں ھاتھ پھيلا پھيلا کر جمع کريں گے جب معاشرے کے افراد اپنے انفرادي مفادات کو اجتماعي مفادات پر ترجيح ديں توظاھر سي بات ہے کہ اس قسم کي تاويلات سے معاشرہ اجتماعي سطح پر اس قسم کي بلاوں سے دُچار ھوگا-

اسلامي نظام، عميق ايمانوں ، بلند ھمتوں ، آھني عزموں ، بلند و بالا اھداف کي رھائي کيلئے با مقصد شعَاروں کو بيان کرنے اور اُنھيں اھميت دينے اور زندہ رکھنے سے وجود ميں آتا ہے، انھي امور کے ذريعہ اُس کي حفاظت کي جاتي ہے اوروہ اسي راہ کے ذريعہ ترقي و پيش رفت کرتا ہے- ان شعَاروں کو کم رنگ کرنے، اُنھيں کم اھميت شمار کرنے، انقلاب و اسلام کے اصول و قوانين سے بے اعتنائي برتنے اور تمام امور اور چيزوں کو مادّيت کي نگاہ سے ديکھنے اور سمجھنے کے نتيجے ميں معلوم ہے کہ معاشرہ ايسے مقام پر جا پھنچے گا کہ اُس کي اجتماعي صورتحال يھي ھوگي-جیسا کہ اوائل اسلام ميں بھي معاشرہ اسي حالت سے دوچار تھا-

Add comment


Security code
Refresh