www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کربلا معلیٰ کے میدان میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے رقاب میں رتبہ شھادت پانے والے اصحاب کا وہ رتبہ اور مقام ہے کہ جو کسی نبی یا ولی کے اصحاب کو حاصل نھیں ھوسکا۔ جس کی دلیل آنحضرت علیہ السلام کا شب عاشور کا یہ مشھور ومعروف جملہ ہے:

"انی لااعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی"

 یعنی مجھے اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اور بھتر اصحاب(دنیا میں کھیں بھی) نظر نھیں آتے۔(۱)

 ان وفادار اصحاب میں سے ایک نافع بن ھلال جملی مرادی کے نام سے مشھور ومعروف ہیں۔ جملی، جمل ابن کنانہ کی طرف منسوب ہے اور قھطانی عربوں کے مذحج قبیلہ کی ایک شاخ کے طور پر معروف ہے۔(۲)

 آپ کی شخصیت

آپ کا شمار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ھوتا ہے۔(۳)

نقل کیا گیا ہے کہ آپ ایک بزرگ ،رازدار،دلیر،قاری قرآن، حافظ اور کاتب حدیث جیسی صفات کے حامل تھے،اور جمل ،صفین اور نھروان کی جنگوں میں حضرت علی علیہ السلام کے رقاب میں دشمن کے ساتھ لڑتے رھے۔(۴)

آپ نے قادسیہ کے نزدیک ،،عذاب الھیجانات،، نامی منزل پر چند ساتھیوں کے ھمراہ امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں آکر شمولیت اختیار کی۔(۵)

میدان میں رجز خوانی

مؤرخین روایت کرتے ہیں کہ نافع بن ھلال عاشور کے دن میدان میں گئے اور دشمن کے سامنے یہ رجزپڑھا: انا الجملی انا علیٰ دین علی

میں جملی قبیلے سے اور علی علیہ السلام کے مذھب کا پیروکار ھوں ۔ اس وقت آپ کے مقابلے میں مزاحم بن حریث نامی شخص آیا،آپ نے اس پر وار کیااور اسے واصل جھنم کیا۔ اسی اثنا میں دشمن کے لشکر کا سپہ سالار عمر ابن حجاج اپنی فوج کو کھنے لگا کہ آپ کو پتہ ہے کہ کن کے ساتھ لڑرھے ھو؟ یہ اپنے زمانے کے بھادر،شجاع اور شھادت کے طالب لوگ ہیں۔ اس کے بعد ان سے تن بہ تن جنگ نہ کرنا۔(۶)

بعض مقتل نگاروں نے لکھاہے کہ نافع اور مسلم بن عوسجہ ایک ساتھ میدان میں گئے تھے اور نافع نے یہ رجز پڑھا: میں علی علیہ السلام کے مذھب کا پیروکار اور ھلال جملی کا بیٹا ھوں اپنی تلوار سے تمھیں گردوغبار میں مارتا رھوں گا۔(۷)

آپ کی شجاعت اور شھادت

 مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ بڑے ماھر تیر انداز تھے، اپنا نام تیرپر لکھتے اور دشمن کی طرف پھینکتے تھے۔(۸)

بعض نے آپ کے ھاتھوں واصل جھنم ھونے والےدشمنوں کی تعدادبارہ اور بعض نے ستر(۷۰) تک بھی لکھی ہے۔(۹)

اوربعض کو زخمی بھی کیا۔آخر کارآپ کو گرفتار کر کے عمر کے پاس لے جایاگیا۔عمر سعدآپ سے مخاطب ھو کرکھنے لگا کہ اے نافع کون سی چیز باعث بنی کہ تو نے اپنا یہ حال کیاہے؟ نافع جواب میں کھنے لگے :( جب کہ آپ کے چھرے پر خون جاری تھا)خدا کی قسم میں نے تمھارے بارہ آدمیوں کو مارا ہے اور کچھ کو زخمی کیاہے پھر بھی اپنے اس عمل پر اپنے آپ کو ملامت نھیں کرتااور اگر میرے بازوں میں طاقت ھوتی تو تمھارے سپاھی مجھے کبھی گرفتار نھیں کرسکتے تھے،اسی اثنا میں عمر سعد نے شمر سے کھا:اس کے سر کو بدن سے جدا کردے،جب شمر نے شمشیر کھینچی تو نافع کھنے لگے:اے شمر! اگر تو مسلمان ھوتا تو تیرے لئے بڑا دشوار ھوتا کہ خدا سے اس حال میں ملے کہ میرا خون تیری گردن پر ھو۔ خدا کا شکر بجا لاتا ھوں کہ ھمیں اپنی مخلوق میں سب سے بدترین مخلوق کے سپرد کیا۔اس کے بعدآپ شمر کے ھاتھوں شھیدھوگئے۔(۱۰)

زیارت ناحیہ میں آپ پرسلام اور زیارت رجبیہ میں آپ پردرود بھیجا گیا ہے۔

حوالہ جات:

۱۔ بحارالانوار،ج۴۴،ص۳۹۳۔

۲۔ معجم قبائل العرب۔ج۱،ص۲۰۵۔

۳۔ رجال شیخ طوسی،ص۸۰۔

۴۔ تنقیح المقال،ج۳،ص۳۶۶۔

۵۔ مقتل الحسین(ع) ابو مخنف، ص۷۰۔

۶۔ تاریخ طبری،ج۵،ص۴۳۵۔

۷۔ مقتل الحسین خوارزمی،ج۲،ص۱۸۔

۸۔ تاریخ طبری،ج۵،ص۱۴۴۱۔

۹۔ مناقب آل ابی طالب، ج۴،ص۱۱۳۔

۱۰۔ تاریخ طبری،ج۵،ص۴۴۱۔
 

Add comment


Security code
Refresh