www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

۶۔ عمل ميں اخلاص

انسان کے برتاۆ پر اس کے عقيدے اور ايمان کا بھت زيادہ اثر ھوتا ہے - مومن لوگوں کے  کاموں کي جزا خدا ديتا ہے اس ليۓ مومن ھميشہ نيک کام کو خدا کي رضا کے ليۓ انجام ديتا ہے -

اس کے برعکس بے ايمان قسم کے لوگ جو شھرت کے بھوکے ھوتے ہيں ، کوشش کرتے ہيں کہ نمود و نمائش کے ذريعے  سے دوسروں کي توجہ اور رضايت حاصل کي جائے-

عاشورا کا ايک اھم پيغام اپنے عمل  ميں اخلاص لانا ہے - حضرت امام حسين عليہ السلام،ان کے بچوں ، احباب اور خاندان کے  شھيد ھونے کا مقصد صرف اور صرف اللہ  تعالي کي رضا حاصل کرنا تھا-

اس  بارے ميں فارسي زبان کا ايک شاعر يوں بيان کرتا ہے:

يکي درد و يکي درمان پسندد

يکي وصل و يکي ھجران پسندد

من از درمان و درد وصل و ھجران

پسندم آن چہ را جانان پسندد

۷۔ عمل بہ تکليف

وہ لوگ جو اللہ تعالي کي رضا حاصل کرنے کے  ليۓ عاشق کي طرح عمل کرتے ہيں ، اپنے تمام  کاموں ميں اپني ذمہ داري کا احساس کرتے  ھوئے اسے نبھانے کي کوشش کرتے ہيں اور انھيں نتيجے کي ھرگز فکر نھيں ھوتي ہے - ايک سپاھي کو جان ھتھيلي پر رکھ کر ميدان ميں اترنا چاھيۓ اور کاميابي و ناکامي کي فکر کيۓ بغير جانفشاني سے لڑنا چاھيۓ-

يوم عاشورا کا ايک سبق احساس ذمہ داري بھي ہے - حضرت امام حسين عليہ السلام جس مقصد کے ليۓ کھڑے ھوئے ، وہ کاميابي  يا قدرت کا حصول نہ تھا بلکہ وہ اس ذمہ داري کو نبھانے کے ليۓ کھڑے ھوئے  تھے جس کے نبھانے کا درس انھيں ان کے اجداد نے ديا تھا-

قرآن ميں ذکر ہے کہ :  مومنين لازمي طور پر کافروں کے مقابلے کھہ دے-

 "قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۔ ۔ ۔ "(۱)

" کہہ ديجيے: کيا تم ھمارے بارے ميں دو بھلائيوں (فتح يا شھادت) ميں سے ايک ھي کے منتظر ھو اور ھم تمھارے بارے ميں اس بات کے منتظر ہيں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمھيں عذاب دے يا ھمارے ھاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھي انتظار کرو ھم بھي تمھارے ساتھ انتظار کرتے ہيں- "

جس دن حسين بن علي عليہ السلام نے مکہ مکرمہ سے کوچ کيا تو اس دن بعض بزرگوں نے  انھيں اس سفر پر جانے سے منع کيا اور خير خواھي کے لبادھے ميں کوفہ والوں کي  پيمان شکني کا ذکر کرتے-

امام عليہ السلام ان بزرگوں کے جواب ميں فرماتے:

"ارجو ان يکون خيرا ما اراد اللہ بنا قتلنا ام ظفرنا " (۲)

میں اميد کرتا ھوں کہ خدا نے ھمارے ليۓ  خير و نيکي کا ارادہ کيا ھو - چاھے مارے جائيں چاھے کامياب ھوں"

حوالہ جات:

۱۔ توبہ ۵۲۔

۲۔ اعيان الشيعھ ، ج ۱، ص ۵۹۷ ، اس مقالے کو مرتب کرنے ميں دو کتابوں  " موسوعۃ کلمات الامام الحسين " اور " پيام ھاي عاشورا "  سے استفادہ کيا گيا ہے-

Add comment


Security code
Refresh