www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

عاشورا حسيني حق و باطل کے درميان  ٹکراۆ کا مظھر تھا جس ميں ايماني لشکر،  کافروں کے لشکر کے روبرو تھا - کربلا ميں پيش آنے والا يہ واقعہ کوئي معمولي واقعہ نھيں جو وقت کے ساتھ کم اھميت ھو جائے يا جسے لوگ بھول جائيں

  بلکہ يہ ايک قيام الھي تھا کہ جيسے جيسے وقت گزرتا جائے يہ اور بھي زيادہ  دنيا ميں بسنے والے انسانوں کے ليۓ روشن  ھوتا جائے گا اور يہ قيامت تک زندہ رھے گا-

 حضرت امام حسين عليہ السلام ايک عظيم شخصيت کے مالک تھے - ايک ايسي ھستي جس کي پروان نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے خاندان ميں ھوئي اور جس کي تربيت  حضرت علي عليہ السلام کے  زير سايہ اور دامن صديقہ طاھرہ (س) ميں ھوئي - اس عظيم ھستي نے ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ھو کر رھتي دنيا  تک کے انسانوں کے ليئے ايک عظيم سبق چھوڑا ہے جسے ھميشہ ياد رکھا جائے گا-

قيام حسيني  کے بارے ميں مخلتف  جھتوں سے بات کي جا سکتي ہے مگر ھم يھاں پر اس واقعہ سے ملنے والے سبق اور پيغام پر مختصر بات کريں گے-

۱۔ پيغام آزادگي

يھاں پر آزادگي سے مراد اخلاقي  قيد  و بند سے رھائي نھيں ،حقيقت ميں يہ آزادگي کي وہ قسم ہے جس سے مراد  نفس کي بندگي ہے بلکہ اس کا مقصد يہ ہے کہ انسان ظلم کے دباۆ کا شکار نہ ھو اور ظالموں کے آگے خود کو تسليم خم نہ کرے - انسان کو مکمل سرفرازي اور آزادگي کے ساتھ زندگي گزارنے کا حق  حاصل ہے  اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے ليۓ ھر طرح کے ظلم کے خلاف ڈٹ جانا چاھيے -  حضرت امام حسين عليہ السلام  نے  اپني تمام زندگي عزت اور سرفرازي کے ساتھ گزاري اور وہ جواني سے ھي اپني ان خصوصيات کي وجہ سے مشھور تھے اور انھيں  " اياۃ الضيم " ( يعني ايسے افراد جو ظلم کے نيچے نھيں دبتے ) شمار کيا جاتا تھا – (۱)

 عزت و آزادگي کے متعلق  حضرت امام حسين عليہ السلام کا  ايک قول ہے کہ

 " موت في عز خير من حياۃ في الذل "  (۲)

عزت کے ساتھ موت ذليل زندگي سے بھتر ہے-

وہ زندگي کو جس نظر سے ديکھتے تھے اور عزت و وقار کو  برقرار رکھنے کے جس حد تک قائل تھے واقعہ کربلا ان کي ايسي خوبيوں کا جلوہ گر ہے -  دشمن حضرت امام حسين عليہ السلام کو کھتا تھا کہ" يا ذلت کے ساتھ بيعت کے ليۓ ھاتھ آگے کرو اور يا مرنے کے ليۓ تيار ھو جاۆ"

حوالہ جات:

۱۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابي الحديد، ج ۳ ، ص ۲۴۹۔

۲۔ مناقب ابن شھر آشوب ، ج ۴ ، ص ۶۸۔

 

 

Add comment


Security code
Refresh