www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دسویں محرم کادن یہ یوم عاشور ہے جو امام حسین(ع)کی شھادت کا دن ہے یہ ائمہ طاھرین(ع) اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے 

اور حزن و ملال میں رھنے کادن ہے ،بھتر یھی ہے کہ امام علی (ع) کے چاھنے اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ھوں اور گھر کے لئے کچھ نہ کمائیں بلکہ نوحہ و ماتم اور نالہ بکاء کرتے رھیں ،امام حسین (ع) کیلئے مجالس برپا کریں اور اس طرح ماتم و سینہ زنی کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پر ماتم کیا کرتے ھوں آج کے دن امام حسین(ع)کی زیارت عاشور پڑھیں ،حضرت کے قاتلوں پر بھت زیادہ لعنت کریں اور ایک دوسرے کو امام حسین(ع) کی مصیبت پر ان الفاظ میں پرسہ دیں۔

"ٲَعْظَمَ اﷲُ ٲُجُورَنا بِمُصأبِنا بِالْحُسَیْنِں وَجَعَلَنا وَ إیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ بِثارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الْاِمامِ الْمَھْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ"

اللہ زیادہ کرے ھمارے اجر و ثواب کو اس پر جو کچھ ھم امام حسین(ع) کی سوگواری میں کرتے ہیں اور ھمیں تمھیں امام حسین(ع) کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مھدی(عج) کے ھم رکاب ھو کر کہ جو آل محمد میں سے ہیں ۔
ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسین(ع) کی مجلس اور واقعات شھادت کو پڑھیں خود روئیں اور دوسروں کو رلائیں ،روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (ع)کو حضرت خضر (ع)سے ملاقات کرنے اور ان سے تعلیم لینے کا حکم ھوا تو سب سے پھلی بات جس پر ان کے درمیان مذاکرہ مکالمہ ھوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر (ع)نے حضرت موسیٰ (ع)کے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد پہ آنا تھے ،اور ان دونوں بزرگواروں نے ان مصائب پر بھت گریہ و بکا کیا ۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا:میں مقام ذیقار میں امیرالمؤمنین(ع) کے حضور گیاتو آپ نے ایک کتابچہ نکالا جو آپ کا اپنا لکھا ھوا اور رسول اللہ کا لکھوایا ھوا تھا، آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا اس میں امام حسین(ع) کی شھادت کا ذکر تھا اور اسی طرح یہ بھی تھا کہ شھادت کس طرح ھو گی اور کون آپ کو شھید کرے گا ،کون کون آپ کی مدد و نصرت کرے گا اور کون کون آپ کے ھمرکاب رہ کر شھید ھوگا یہ ذکر پڑھ کر امیرالمؤمنین(ع)نے خود بھی گریہ کیا اور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔ مؤلف کھتے ہیں اگر اس کتاب میں گنجائش ھوتی تو میں یھاں امام حسین(ع)کے کچھ مصائب ذکر کرتا ،لیکن موضوع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نھیں کیا جاسکتا ۔خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسین(ع) کے روضہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رھے تو وہ اس شخص کی مانند ہے، جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ھو اور آپ کے ھمرکاب کربلا میں موجود رھا ھو آج کے دن ھزار مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، روایت میں ہے کہ خدائے تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فرماتا ہے ،سید نے آج کے دن ایک دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔جو دعائے عشرات کی مثل ہے ،بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعا ئے عشرات ھی ہے ۔
شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انھوں نے امام جعفر صادق (ع)سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز و دعا پڑھنی چاھیے کہ جسے ھم نے اختصار کے پیش نظر ترک کر دیا ہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاھتا ھو وہ علامہ مجلسی کی کتاب زادالمعاد میں ملاحظہ کرے۔ یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن فاقہ کریں، یعنی کچھ کھائیں پئیں نھیں، مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ انسان کھاتے ہیں مثلا دودھ یا دھی و غیرہ نیز آج کے دن قمیضوں کے گریبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لوگوں کی طرح رھیں جو مصیبت میں مبتلا ھو تے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل و صورت بنائے رھیں ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بھتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسین(ع) کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے ،انھوں نے بھت سی وضعی حدیثیں حضرت رسول(ص) کی طرف منسوب کر کے یہ ظاھر کیا کہ ان دو دنوں کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے حالانکہ اھلبیت(ع) سے مروی کثیر حدیثوں میں ان دودنوں اور خاص کر یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے ،بنی امیہ اور ان کی پیروی کرنے والے برکت کے خیال سے عاشورا کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کر کے رکھ لیتے تھے اسی بناء پر امام رضا(ع) سے منقول ہے کہ جو شخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کاروبار چھوڑے رھے تو حق تعالیٰ اس کے دنیا و آخرت سب کاموں کو انجام تک پھنچا دے گا ،جو شخص یوم عاشور کو گریہ و زاری اور رنج و غم میں گزارے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن کو اس کیلئے خوشی و مسرت کا دن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں اھلبیت کے دیدار سے روشن ھوں گی ،مگر جو لوگ یوم عاشورا کو برکت والا دن تصور کریں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کا خرچ لا کر رکھیں تو حق تعالیٰ ان کی فراھم کی ھوئی جنس و مال کو ان کے لئے بابرکت نہ کرے گا اور ایسے لوگ قیامت کے دن یزید بن معاویہ ،عبیداللہ بن زیاد اور عمرابن سعد جیسے ملعون جھنمیوں کے ساتھ محشور ھوں گے اس لئے یوم عاشور میں کسی انسان کو دنیا کے کاروبار میں نھیں پڑنا چاھیے اور اس کی بجائے گریہ و زاری ،نوحہ و ماتم اور رنج و غم میں مشغول رھنا چاھیے نیز اپنے اھل و عیال کو بھی آمادہ کرے کہ وہ سینہ زنی و ماتم میں اس طرح مشغول ھوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پر ھوا کرتے ہیں ۔آج کے دن روزے کی نیت کے بغیر کھانا پینا ترک کیئے رھیں اور عصر کے بعد تھوڑے سے پانی و غیرہ سے فاقہ شکنی کریں اور دن بھر فاقے سے نہ رھیں مگر یہ کہ اس پر کوئی روزہ واجب ھو جیسے نذر وغیرہ آج کے دن گھر میں سال بھر کیلئے غلہ و جنس جمع نہ کرے ،آج کے دن ھنسنے سے پرھیز کریں، اور کھیل کود میں ھرگز مشغول نہ ھوں اور امام حسین(ع) کے قاتلوں پر ان الفاظ میں ھزار مرتبہ لعنت کریں:
"اَللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَۃَ الْحُسَیْنِ "
اے اللہ:امام حسین (ع)کے قاتلوں پر لعنت کر ۔
اس حدیث سے ظاھر ھوتا ہے کہ یوم عاشور کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں نے حضرت رسول (ص)کی طرف منسوب کیا ہے :
"اَللَّھُمَّ انَّ ھَذَا یُوْمَ تَبَرَکْتَ بِہٰ بَنُوْ اُمَیَّۃِ ۔"
اے اللہ ! یہ وہ دن ہے جس کو بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا ہے ۔
صاحب شفا ء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوھات کی بنا ء پربابرکت تصور کرتے تھے ۔
۱۔ بنی امیہ نے آج کے دن آیندہ سال کے لئے غلہ و جنس جمع کر رکھنے کو مستحب جانا اور اس کو وسعت رزق اور خوشحالی کا سبب قراردیا ،چنانچہ اھلبیت کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی باربار تردید اور مذمت کی گئی ہے ۔
۲۔ بنی امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے ۔جیسے اھل و عیال کے لئے عمدہ لباس و خوراک فراھم کرنا ،ایک دوسرے سے گلے ملنا اور حجامت بنوانا وغیرہ لھذا یہ امور ان کے پیروکاروں میں عام طور پر رائج ھو گئے ۔
۳۔ انھوں نے آج کے دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بھت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیرا ھوئے ۔
۴۔انھوں نے عاشور کے دن دعا کرنے اور اپنی حاجات طلب کرنے کو مستحب قرار دیا اس لئے اس سے متعلق بھت سے فضائل اور مناقب گھڑ لیے ،نیز آج کے دن پڑھنے کے لئے بھت سی دعائیں بنائیں اور انھیں عام کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شھروں میں منبروں پر جو خطبے دیتے ،ان میں یہ بیان ھوا کرتا تھا کہ آج کے دن ھر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضافہ ھوا مثلا نمرود کی آگ بجھ گئی حضرت نوح(ع) کی کشتی کنارے لگی ،فرعون کا لشکر غرق ھوا حضرت عیسیٰ (ع)کو یھودیوں کے چنگل سے نجات حاصل ھوئی یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاھم ان کا یہ کھنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نھیں ہے ۔
اس بارے میں شیخ صدوق نے جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمار سے سنا وہ کھتے تھے: خدا کی قسم ! یہ امت اپنے نبی(ص) کے فرزند کو دسویں محرم کے دن شھید کرے گی اور خدا کے دشمن اس دن کو بابرکت دن تصور کریں گے یہ سب کام ھو کر رھیں گے اور یہ باتیں اللہ کے علم میں آچکیں ہیں یہ بات مجھے اس عھد کے ذریعے سے معلوم ہے ،جو مجھ کو امیرالمؤمنین(ع)کی طرف سے ملا ہے۔ جبلہ کھتے ہیں کہ میں نے میثم سے عرض کی کہ وہ لوگ امام حسین(ع) کے روز شھدت کو کس طرح بابرکت قراردیں گے ؟تب میثم رو پڑے اور کھا لوگ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں کھیں گے کہ آج کا دن ھی وہ دن ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدم (ع)کی توبہ قبول فرمائی۔
حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی تھی وہ کھیں گے آج کے دن ھی خدانے حضرت یونس(ع) کو مچھلی کے پیٹ سے باھر نکالا حالانکہ خدانے ان کو ذی القعدہ میں شکم ماھی سے نکالا تھا وہ تصور کریں گے کہ آج کے دن حضرت نوح (ع) کی کشتی جودی پر رکی ،جبکہ کشتی ۱۸ ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کھیں گے کہ آج کے دن ھی حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (ع)کیلئے دریا کو چیرا ،حالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ھوا تھا خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس روایت میں مذکورہ تصریحات وہ ہیں جو اصل میں نبوت و امامت کی علامات ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے برسر حق ھونے کی روشن دلیل ہیں ۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جو ھو چکی ہیں اور ھو رھی ہیں پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لوگوں نے اپنے وھم وگمان کی بنا پر قراردی ھوئی جھوٹی باتوں کے مطابق دعائیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخاص کی کتابوں میں درج ہیں کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا ۔
ان کتابوں کے ذریعے سے یہ دعائیں عوام کے ھاتھوں میں پھنچ گئی ہیں، لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا بدعت ھونے کے علاوہ حرام بھی ہے ان بدعت و حرام دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
"بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، سُبْحانَ اﷲِ مِلئَ الْمِیزانِ، وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ، وَمَبْلَغَ الرِّضا، وَزِنَۃَ الْعَرْشِ۔"
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے پاک ہے اللہ ترازو کے پورا ھونے علم کی آخری حدوں اور خوشنودی کی رسائی اور وزن عرش کے برابر ۔
دو تین سطروں کے بعد یہ ہے کہ دس مرتبہ صلوات پڑھے پھر یہ کھے :
"یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ آدَمَ یَوْمَ عاشُورا یَارافِعَ إدْرِیسَ إلَی السَّمائِ یَوْمَ عاشُورا یَا مُسَکِّنَ سَفِینَۃِ نُوحٍ عَلَی الْجُودِیِّ یَوْمَ عاشُورا، یَا غِیاثَ إبْراھِیمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عاشُورا ۔ "
اے روز عاشور آدم(ع) کی توبہ قبول کرنے والے اے عاشور کے دن ادریس (ع)کو آسمان پر لے جانے والے اےاے روز عاشور نوح(ع) کی کشتی کو جودی پھاڑ پر ٹکانے والے اے یوم عاشور ابراھیم (ع)کو آگ سے نجات دینے والے .
اس میں شک نھیں کہ یہ دعا مدینے کے کسی ناصبی یا مسقط کے کسی خارجی نے یا ان کے کسی ھم عقیدہ نے گھڑی ہے ،اس طرح اس نے وہ ظلم کیا ہے جو بنی امیہ کے ظلم کو انتھاء تک پھنچا دیتا ہے یہ بیان کتاب شفاء الصدور کے مندرجات کا خلاصہ ہے جو یھاں ختم ھو گیا ہے ۔بھرحال یوم عاشور کے آخری وقت میں امام حسین(ع) کے اھل حرم انکی دختران اور اطفال کے حالات و واقعات کو نظر میں لانا چاھیے کہ اس وقت میدان کربلا میں ان پر کیا بیت رھی ہے ۔جب کہ وہ دشمنوں کے ھاتھوں قید میں ہیں اور اپنی مصیبتوں میں آہ و زاری کررھے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اھلبیت(ع) پر وہ دکھ اور مصیبتیں آئی ہیں جو کسی انسان کے تصور میں نھیں آسکتیں اور قلم دان کو لکھنے کا یارا نہیں ،کسی شاعر نے اس سانحہ کو کیا خوب بیان کیا ہے :
فاجِعۃٌ إنْ ٲَرَدْتُ ٲَکْتُبُھا مُجْمَلَۃً ذِکْرَۃً لِمُدَّکِرِ
یہ ایسی مصیبت ہے اگر اسے لکھوں، کسی یاد کرنے والے کیلئے مجمل سی یاد دھانی
جَرَتْ دُمُوعَی فَحالَ حائِلُھا مَا بَیْنَ لَحْظِ الْجُفُونِ وَالزُّبُرِ
تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں اور ، میری آنکھوں اور اوراق کے درمیان حائل ھو جاتے ہیں
وَقال قَلْبی بُقْیا عَلَیَّ فَلاَ وَاﷲِ مَا قَدْ طُبِعْتُ مِنْ حَجَرِ
میرا دل کھتا ہے رحم کر مجھ پر نھیں میں ،بخدا کوئی پتھر کہ میری تو جان نکلے جارھی

بَکَتْ لَھَا الْاََرْضُ وَالسَّماء وَمَا بَیْنَھُما فی مَدامِعٍ حُمُرِ
اس پر روئے ہیں زمین و آسماں ، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خون کے آنسو
یوم عاشور کے آخر وقت کھڑا ھو جائے اور رسول اللہ ، امیرالمؤمنین، جناب فاطمہ، امام حسن اور باقی ائمہ علیھم السلام جو اولادامام حسین(ع) میں سے ہیں ،ان سب پر سلام بھیجے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دے اور یہ زیارت پڑھے :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَۃِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ اﷲِ،
آپ پر سلام ھو اے آدم(ع) کے وارث جو برگزیدئہ خدا ہیں آپ پر سلام ھو اے نوح (ع)کے وارث جو اللہ کے نبی ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراھِیمَ خَلِیلِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اﷲِ
آپ پر سلام ھو اے ابراھیم (ع)کے وارث جو اللہ کے دوست ہیں آپ پر سلام ھو اے موسیٰ (ع)کے وارث جو خدا کے کلیم (ع)ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَیسی رُوحِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ اﷲِ
آپ پر سلام ھو اے عیسٰی (ع)کے وارث جو خدا کی روح ہیں آپ پر سلام ھو اے محمد(ص) کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیٍّ ٲَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ لِیِّ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ
آپ پر سلام ھو اے علی(ع) کے وارث جو مؤمنوں کے امیر اور ولی خدا ہیں آپ پر سلام ھو اے حسن(ع)
الْحَسَنِ الشَّھِیدِ سِبْطِ رَسُولِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
کے وارث جو شھید ہیں اللہ کے رسول(ص) کے نواسے ہیں آپ پر سلام ھو اے خدا کے رسول (ص)کے فرزند آپ پر سلام ھو
یَابْنَ الْبَشِیرِ النَّذِیرِ وَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَۃَ سَیِّدَۃِ نِسائِ
اے بشیر و نذیر اور وصیوں کے سردار کے فرزند آپ پر سلام ھو اے فرزند فاطمہ(ع) جو جھانوں کی عورتوں کی
الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَبا عَبْدِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَۃَ اﷲِ وَابْنَ خِیَرَتِہِ،
سردار ہیں آپ پر سلام ھو اے ابو عبدا(ع)للہ آپ پر سلام ھو اے خدا کے پسند کیے ھوئے اور پسندیدہ کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ اﷲِ وَابْنَ ثارِہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ ٲَ یُّھَا الْوِتْرُ الْمَوْتُورُ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ھو اے شھید راہ خدا اور شھید کے فرزند آپ پر سلام ھو اے وہ مقتول جس کے قاتل ھلاک ھوگئے آپ پر
عَلَیْکَ ٲَیُّھَا الْاِمامُ الْھادِی الزَّکِیُّ وَعَلَی ٲَرْواحٍ حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَٲَقامَتْ فَی جِوارِکَ
سلام ھو اے ہدایت و پاکیزگی والے امام اور سلام ان روحوں پر جوآپ کے آستاں پر سوگئیں اور آپ کی قربت میں رہ رھی ہیں
وَوَفَدَتْ مَعَ زُوَّارِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ مِنِّی مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ،
اور سلام ھو ان پر جو آپکے زائروں کیساتھ آئیں میرا آپ پر سلام ھو جب تک میں زندہ ھوں اور جب تک رات دن کا سلسلہ قائم ہے
فَلَقَدْ عَظُمَتْ بِکَ الرَّزِیَّۃُ وَجَلَّ الْمُصابُ فِی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَفِی ٲَھْلِ السَّمٰوَاتِ
یقینا آپ پر بھت بڑی مصیبت گزری ہے اور اس سے بھت زیادہ سوگواری ہے مومنوں اور مسلمانوں میں آسمانوں میں رھنے والی
ٲَجْمَعِینَ وَفِی سُکَّانِ الْاََرَضِینَ فَإنَّا لِلّٰہِ وَ إنَّا إلَیْہِ راجِعُونَ، وَصَلَواتُ اﷲِ
ساری مخلوق میں اور زمین میں رھنے والی خلقت میں پس اللہ ھم ھی کیلئے ہیں اور ھم اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے خدا کی رحمتیں
وَبَرَکاتُہُ وَتَحِیَّاتُہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آبائِکَ الطَّاھِرِینَ الطَّیِّبِینَ الْمُنْتَجَبِینَ وَعَلَی ذَرارِیھِمُ
ھوں اس کی برکتیں آپ پر سلام ھو اور آپ کے آبائ واجداد پر جو پاک نھاد نیک سیرت اور برگزیدہ ہیں اور ان کی اولاد پر
الْھُداۃِ الْمَھْدِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ وَعَلَیْھِمْ وَعَلَی رُوحِکَ وَعَلَی ٲَرْواحِھِمْ،
کہ جو ھدایت یافتہ پیشوا ہیں آپ پر سلام ھو اے میرے آقا اور ان سب پرسلام ھو آپ کی روح پر اور ان کی روحوں پر
وَعَلَی تُرْبَتِکَ وَعَلَی تُرْبَتِھِمْ اَللّٰھُمَّ لَقِّھِمْ رَحْمَۃً وَرِضْواناً وَرَوْحاً وَرَیْحاناً اَلسَّلَامُ
اور سلام ھو آپکے مزار پر اور ان کے مزاروں پر اے اللہ !ان سے مھربانی خوشنودی مسرت اور خوش روئی کے ساتھ پیش آئے آپ
عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا ٲَبا عَبْدِ اﷲِ یَابْنَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَیَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، وَیَابْنَ
پر سلام ھو اے میرے سردار اے ابوعبد(ع)اللہ اے نبیوں کے خاتم کے فرزند اے اوصیائ کے سردار کے فرزند اے جھانوں
سَیِّدَۃِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَھِیدُ، یَابْنَ الشَّھِیدِ، یَا ٲَخَ الشَّھِیدِ، یَا ٲَبَا
کی عورتوں کی سردار کے فرزند آپ پر سلام ھو اے شہید اے فرزند شھید اے برادر شھید اے پدر
الشُّھَداء ۔ اَللّٰھُمَّ بَلِّغْہُ عَنِّی فی ھذِہِ السَّاعَۃِ وَفِی ھذَا الْیَوْمِ وَفِی ھذَا الْوَقْتِ وَفِی
شہیداں اے اللہ! پھنچا ان کو میری طرف سے اس گھڑی میں آج کے دن میں اور موجودہ وقت میں اور ھرھر
کُلِّ وَقْتٍ تَحِیَّۃً کَثِیرَۃً وَسَلاماً، سَلامُ اﷲِ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ یَابْنَ سَیِّدِ
وقت میں بھت بھت درود اور سلام، آپ پر اللہ کا سلام ھواللہ کی رحمت اور اس کی برکات ھوں اے جھانوں
الْعالَمِینَ وَعَلَی الْمُسْتَشْھَدِینَ مَعَکَ سَلاماً مُتَّصِلاً مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ اَلسَّلَامُ
کے سردار کے فرزند اور ان پرجو آپ کے ساتھ شھید ھوئے سلام ہو لگاتار سلام جب تک رات دن باھم ملتے ہیں
عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ
حسین(ع) ابن علی(ع) شھید پر سلام ھو علی(ع) ابن حسین(ع) شھید پر سلام ھو
عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ ٲَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ الشَّھِیدِ اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ ٲَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ
عباس(ع) ابن امیر المؤمنین(ع) شھید پر سلام ھوان شھیدوں پر سلام ھو جو امیرالمؤمنین(ع) کی اولاد میں سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ،
ان شھیدوں پر سلام ھو جواولاد حسن(ع) سے ہیں ان شھیدوں پر سلام ہو جو اولاد حسین(ع) سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ جَعْفَرٍ وَعَقِیلٍ اَلسَّلَامُ عَلَی کُلِّ مُسْتَشْھَدٍ مَعَھُمْ مِنَ
ان شھیدوں پر سلام ھو جو جعفر (ع)اور عقیل (ع)کی اولاد سے ہیں مومنوں میں سے ان سب شھیدوں پر سلام ھو جو ان کے ساتھ
الْمُؤْمِنِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَلِّغْھُمْ عَنَّی تَحِیَّۃً کَثِیرَۃً وَسَلاماً ۔
شھید ھوئے اے اللہ! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل کر اور پھنچا ان کو میری طرف سے بھت بھت درود اور سلام
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اﷲِ ٲَحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ھو اے خدا کے رسول(ص) خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین (ع) کے بارے میں آپ کے ساتھ بھترین تعزیت کرے آپ پر
عَلَیْکِ یَا فاطِمَۃُ ٲَحْسَنَ اﷲُ لَکِ الْعَزائَ فَی وَلَدِکِ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَمِیرَ
سلام ھو اے فاطمہ (ع) خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین (ع) کے بارے میں آپ کے ساتھ بھترین تعزیت کرے آپ پر سلام ھو اے
الْمُؤْمِنِینَ ٲَحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فِی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَبا مُحَمَّدٍ
امیرالمؤمنین (ع) خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین (ع)کے بارے میں آپ کے ساتھ بھترین تعزیت کرے آپ پر سلام ھو اے ابومحمد(ع)
الْحَسَنَ ٲَحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی ٲَخِیکَ الْحُسَیْنِ، یَا مَوْلایَ یَا ٲَبا عَبْدِ اﷲِ
حسن(ع) خدائے تعالیٰ آپکے بھائی حسین (ع)کے بارے میں آپکے ساتھ بھترین تعزیت کرے اے میرے سردار اے ابوعبد(ع)اللہ
ٲَنَا ضَیْفُ اﷲِ وَضَیْفُکَ وَجارُ اﷲِ وَجارُکَ، وَ لِکُلِّ ضَیْفٍ وَجارٍ قِریً وَقِرایَ فِی
میں اللہ کا مھمان اور آپ کا مھمان ھوں اور خدا کی پناہ اور آپکی پناہ میں ھوں یھاں ھر مھمان اور پناہ گیر کی پذیرائی ھوتی ہے اور اس
ھذَا الْوَقْتِ ٲَنْ تَسْٲَلَ اﷲَ سُبْحانَہُ وَتَعَالی ٲَنْ یَرْزُقَنِی فَکَاکَ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ
وقت میری پذیرائی یھی ہے کہ آپ سوال کریں اللہ سے جو پاک تر اور عالی قدر ہے یہ کہ میری گردن کو عذاب جھنم سے آزاد کردے
إنَّہُ سَمِیعُ الدُّعائِ قَرِیبٌ مُجِیبٌ ۔
بے شک وہ دعا کا سننے والا ہے نزدیک تر قبول کرنے والا ۔ 

Add comment


Security code
Refresh