www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تمھید:

حضرت علی(ع) ابن الحسین (ع) امام زین العابدین(ع) سلسلہ ائمہ حقہ کے چوتھے امام ہیں

 آپ کی ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے علامہ سبط الجوزی نے تذکرہ خواص الائمہ میں امام جعفر (ع) صادق کے حوالہ سے ٥، شعبان ٣٨ ہجری بیان کیا ہے لیکن بعض مورخین ١٥ جمادی الاول پر متفق ہیں۔ اکثریتی روایات کے بموجب آپ کی شہادت ٢٥ محرم ٩٥ھ میں واقع ہوئی، امام کے ٥٧ سال پر محیط زندگی کے حالات کو ہم زیادہ تر سانحہ کربلا کے حوالے سے جانتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اور منبر سے بھی کربلا کے واقعات میں امام کی مظلومیت ہی ذکر کا محور رہتی ہیں۔ فصیح البیان شاعر فرزدق کے فی البدیہہ قصیدے کے حوالے سے بھی امام کا خوانوادہ رسالت وامامت کی عظیم فرد کی حیثیت سے تعارف کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نسبتوں میں ممتاز امام کی شناخت صحیفہ کاملہ ہے جو ایک عظیم الشان کتاب ہے۔ یہ دعاؤں اور مناجات کی کتاب ہے اور اس کا زیادہ تر استعمال سر سری، وقتی اور ذکر دعا تک ہی محدود رہتا ہے۔ ان دعاؤں میں حکمت اور دانائی، معرفت الہی ، عبدو معبود کے تعلقات، حقوق الناس اور استغفار، تزکیہ نفس اور تخلیق کائنات سے متعلق رموز اور مضامین لائق توجہ ہیں۔ امام زین العابدین کی حقیقت معرفت کے لئے اس صحیفہ کابغور مطالعہ ضروری ہے۔ زیر نظر مقالہ صحیفہ کاملہ کا تجزیاتی مطالعہ ہے اس میں اس عظیم کتاب کی چند خصوصیات مثلاً تاریخی ماحول، اسناد ، فلسفہ ، دعا، اسلوب بیان اور دعاؤں کے مضامین کے تجزیہ سے اس کتاب کے ادبی، علمی اور تبلیغی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔

تاریخی ماحول:

صحیفہ کاملہ کے ذریعہ امام زین العابدین(ع) کی روحانی اور تبلیغی جدوجہد کے صحیح اندازہ کے لئے وہ تاریخی ماحول جاننا ضروری ہے جس میں یہ کتاب لکھی گئی۔ یہ منظر نامہ کچھ اس طرح ہے۔ شہادت امیر المومنین کے بعد مرکز خلافت کوفہ سے دمشق منتقل ہو چکا۔ شام کی سر زمین اسلام کے لئے اجنبی تھی ۔ انہی حالات میں کربلا کا سانحہ واقع ہوا۔ کربلا نے شام کے جابر حکمرانوں کو یہ پیغام دے دیا کہ اہلبیت(ع) محمد (ص) اور ان کے مقدس نصب العین کو مادی طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا ۔ اس لئے مخالفین کی کوشش یہ رہی کہ ایسی پالیسی اور فضا پیدا کی جائے جو اسلام کا حلیہ بگاڑ دے۔ امام زین العابدین نے چھ اموی حکمرانوں کے دور حکومت کو دیکھا۔ تقریباً چالیس سال پر محیط یہ عرصہ عام مسلمانوں کے لئے ذہنی اور اخلاقی بگاڑ کا پست ترین دور تھا جس نے نہ صرف مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو بلکہ ان کے روز مرہ کے اعمال اور اخلاق کو بیحد متنزلزل کردیااور اسلامی معاشرہ کوبہت پیچھے دھکیل دیا۔ فسق و فجور عام تھا لو ہے اور سونے سے لوگوں کے ضمیر تبدیل کئے جارہے تھے قرآن کی غلط تاویل عام تھی بقول مولانا عقیل الغروی'' بکی ہوئی زبانوں پر خریدے ہوئے الفاظ سے ملوکیت کی قصیدے پڑھے جارہے تھے ''۔امیر امام حرنے'' امام حریت حضرت زین العابدین(ع)'' میں اس صورت کو یوں بیان کیا ہے ''اس نصف صدی کے دوران اسلامی معاشرہ میں جو تغیرات واقع ہوئے وہ عائلی ، قبائلی اور نسلی عصبیتوں کو قبل اسلام کے جاہلی نظام میں دوبارہ دھکیل دیا۔ ابن خلدون ( المقدمہ) کے بموجب یہ عائلی جبلی کیفیات جو عہد رسالت میں دب گئی تھیں پھر عود کر اگئیں۔ '' اس ماحول کو جناب کمال حیدر رضوی نے اپنی ایک تقریر میں کچھ اس طرح بیان کیاہے۔ '' واقعہ کربلا کے بعد عالم اسلام میں ایک سناٹا تھا۔ مدینہ میں سوگ ، مکہ میں سراسمیگی ، کوفہ میںندامت اور شام میں پچھتاوا۔ ایسی صورت میں کون بولنے کی ہمت کرے۔ یہ وقت کا امام بہتر جانتا ہے کہ کب خطبوں کے ذریعے نہج البلاغہ بنائی جائے اور کب دعاؤں سے صحیفہ کاملہ کی تدوین ہو۔ اس خاموشی کو امام نے اپنے اور خدا کے درمیان دعاؤں کے ذریعے توڑا۔'' مندرجہ بالا حالات میں بہ حیثیت امام وقت سید سجاد پر یہ لازم تھاکہ اسلام کے صحیح نظریات کی تبلیغ کریں۔ لیکن ریاستی جبر اور تشدد اور آل رسول (ع) اور صحابہ کرام کی زبان بندی کے باعث یہ ناممکن تھا۔ تبلیغ تو دور کی بات ہے صرف آل رسول (ع)سے ہمدردی کے اظہار پر گردن اڑا دی جاتی تھی۔ ایسے پر جو ر اور تاریک زمانہ میں یہ امام کی کامیاب حکمت عملی تھی کہ ان پابندیوں کے باوجود دین اسلام کی تعلیمات امت تک پہنچانے کا فریضہ ایسی خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ یہ کسی سلطنتی گرفت سے باہر رہا۔ امام نے مصلے پر بیٹھ کر خضوع و خشوع سے نہایت دلگداز لہجے میں اپنے مالک سے دعائیں مانگنی شروع کیں۔ ان دعاؤں میں وہ سب کچھ کہہ دیا گیا جو احیائے اسلام اور تزکیہ نفس و ضمیر کے لئے ضروری تھا۔ سمجھنے والے سمجھے اور ان کے عقائد کی جلا ہوتی گئی۔ امام کے پاس آنےوالوں کے ذریعے یہ دعائیں ہزاروں انسانوں تک پہونچی اور بنی امیہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت اور کس نے ان کے حربوں کو ناکام بنادیا (نسیم امروہوی)۔ اس وقت جبکہ زبان و قلم کی آزادی نہیں تھی دین اسلام کی سربلندی کے لئے امام کی ان خدمات کے معتبرین میں علامہ طبری ، حماد حبیب کوفی، علامہ بیہقی اور دیگر جید علما اور مورخین شامل ہیں۔ مختلف کتب سیر میں ان علماء کے بموجب صحیفہ کاملہ صرف دعاؤں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ علوم و معارف ِ اسلامیہ کی نشرو اشاعت کا عظیم شاہکار ہے جو باطل کے خلاف کامیاب ہتھیار ثابت ہوا۔

غرض کہ صحیفہ کاملہ وہ پہلی آواز ہے جو بنی امیہ کے خلاف اسلام کی حقانیت کے دفاع میں ایک گوشہ سے بلند ہوئی ۔ ان دعاؤں کے ذریعے امام نے عظمت توحید، ذات الہیٰ کا جیروت، تفکر فی الکائنات، فرائض عبدیت، تطہیر اخلاق ، تزکیہ روح اور تشکیل سیرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔

Add comment


Security code
Refresh