www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

وہ دلائل جو نشاندھی کرتے ہیں کہ کائنات کی تمام مخلوق میں، پروردگار عالم کی سب سے اشرف اور افضل مخلوق اور خلقت کا سرسبز وشاداب پھول، انسان ہے، اُن دلائل میں وہ آیات شامل ہیں جو انسان کے لئے ملائکہ کے سجدے سے مربوط ہیں کہ جن کے اُوپر قرآن کے چند سوروں میں تاکید ھوئی ہے۔ یہ آیات پتہ دیتی ہیں کہ سب فرشتوں نے بلا استثناء آدم کے لئے سجدہ اور خضوع کیا اور یہ آدم کی فضیلت پر یھاں تک کہ فرشتوں سے افضل ھونے پر واضح دلیل ہے، بظاھر قرآن مجید کی بار بار اُن تاکیدوں کا مقصد، انسانوں کو اُن کی اپنی معنوی اور الٰھی شخصیتوں کی طرف توجہ دلانا ہے اور یہ بات انسانوں کی تربیت اور ھدایت میں بھت زیادہ اثرا انداز ھوتی ہے ۔
آدم کے لئے سجدے کی کیا کیفیت تھی؟
اس سلسلہ میں کہ یہ سجدہ کس قسم کا سجدہ تھا اور کیا غیر خدا کے لئے سجدہ کا امکان ہے، مفسروں کے درمیان گفتگو باقی ہے ۔
بعض مفسرین معتقد ہیں کہ سجدہ تو خدا کے لئے تھا لیکن اس نوعیت کی تعجب خیز مخلوق کی تخلیق کی خاطر، آدم کے سامنے انجام دیا گیا ہے؛ بعض دیگر مفسرین کھتے ہیں سجدہ، آدم کے لئے تھا لیکن عبادت کا سجدہ نھیں تھا جو خدا سے مخصوص ہے؛ بلکہ سجدہ خضوع یا تحیت اور احترام کے لئے سجدہ تھا ۔
کتاب "عیوان الاخبار" میں آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی کتاب سے منقول ہے: "کانَ سُجودُھم لِلّہِ تعالیٰ عُبُدِیَّتاً وَ لِآدم اکراماً و طاعةً لِکونِناَ فی صُلبِہِ"؛فرشتوں کا سجدہ خداوند عالم کے لئے عبادت کے عنوان سے تھا، آدم کے لئے احترام اور اکرام کے لئے اس لئے کہ ھم آدم کے صلب میں تھے ۔ (۱)
اس حدیث سے استفادہ ھوتا ہے کہ فرشتوں کا سجدہ دو پھلوؤں کا حامل تھا پروردگار کی عبادت کا پھلو اور آدم کے احترام کا پھلو۔
اسی تفسیر کے مشابہ جو ابھی اوپر بیان ھوئی ہے سورہٴ یوسف آیت ۱۰۰ میں بھی آیا ہے: "وَ رَفَعَ اٴَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَ خَرّوُا لَہُ سُجَّداً"؛اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا یا اور سب اس کی خاطر سجدے میں گر پڑے۔
اسی آیت کے ذیل میں امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ(علیه السلام) نے ارشاد فرمایا:"اَمَّا سُجُودُ یَعْقُوبَ وَ وُلْدِہِ فَاِنَّہُ لَمْ تَکُنْ لِیُوسُفَ وَ اِنَّمَا کَانَ مِن یَعْقُوبَ وَ وُلْدِہِ طَاعَةً لِلّٰہِ وَ تَحِیَّةً لَیُوسفَ کَمَا کَانَ السُّجُودُ مِنَ الْمَلَائِکَةِ لَآدَمَ"؛ یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ یوسف کی پرستش کے لئے نھیں تھا بلکہ ان کا سجدہ، خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت کے عنوان سے اور یوسف کے احترام اور تحیت کے لئے تھا بالکل ویسے ھی جیسے ۔آدم کے لئے فرشتوں کا سجدہ اسی نوعیت کا تھا۔
شیطان کی پیدائش کے سلسلہ میں طرح طرح کے سوالات
شیطان کی پیدائش، اس کے گذشتہ حالات، حکم خدا کی تعمیل سے سرپیچی اور پھر معین مدت تک اسے مھلت دینے کے بارے میں بھت سے سوالات ھوتے ہیں کہ ان سب کی شرح کرنے کے لئے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے؛ لیکن یھاں پر گذشتہ گفتگو کی مناسبت سے اس کا خلاصہ بیان کردینا لازم ہے ۔
سوال ۱: کیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا؟ اگر جواب ھاں ہے تو پھر عظیم ترین گناہ کا مرتکب کیوں ھوا جبکہ فرشتے معصوم ھوتے ہیں اور اگر جواب نھیں ہے یعنی فرشتوں میں سے نھیں تھا، تو پھر فرشتوں کے زمرے میں اس کا نام کیوں ذکر ھوا ہے؟
جواب : یقینا وہ فرشتوں میں سے نھیں تھا، چونکہ قرآن صراحت سے بیان کرتا ہے:"کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رِبِّہِ"(۲)؛ وہ جن تھا، پھر اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ؛ لیکن چونکہ اس نے اطاعت اور بندگی کے مرحلہ میں پھلے بھت زیادہ کوشش کی تھی، فرشتوں کی صف میں قرار پایا اور اسی وجہ سے فرشتوں میں شمار ھوتا تھا لھذا اگر بعض جملوں میں جیسے خطبہٴ قاصعہ (خطبہ ۱۹۲) میں فرشتہ کے عنوان سے اس کا تذکرہ ھوا ہے تو اس کی وجہ بھی یھی ہے؛ اس کے علاوہ شیطان خود ھی صراحت سے کھتا ہے: "خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَار"(۳)؛تونے مجھے آگ سے پیدا کیااور یہ ھمیں معلوم ہے کہ قومِ جن کی خلقت آگ سے ھوئی ہے فرشتوں کی نھیں، جیسا کہ سورہٴ رحمٰن کی پند رھویں آیت میں آیا ہے: "وَ خَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍِ مِنْ نَارٍ"(۴)اھلبیت علیھم السلام سے منقولہ روایات میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ھوا ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں شیطان کے لئے آل و اولاد کا تذکرہ ھوا ہے (۵) جب کہ ملائکہ کے یھاں آل و اولاد کا تصور نھیں ہے ۔
سوال ۔۲ : یہ کیسے ھوسکتا ہے کہ خداوند عالم انسانوں پر ابلیس کو اس قدر مسلط کردے کہ وہ اپنی دفاعی طاقت کھو بیٹھیں ؟! اس کے علاوہ کیا ضرورت تھی کہ اس طرح کی فریب کار اور گمراہ کن مخلوق پیدا کی جائے؟ یا پیدا کرنے کے بعد اس کو طولانی عمر اور مھلت دی جائے تاکہ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے اور اس کام میں کوئی کسر باقی نہ رکھے؟
جواب : پھلی بات تو یہ ہے کہ شیطان کو ایک پاک مخلوق کی صورت میں پیدا کیا گیا، مدت دراز تک اس نے اپنی قداست و پاکیزگی محفوظ رکھی یھاں تک کہ پروردگار عالم کی اطاعت کے نتیجہ میں، فرشتوں کی صف میں قرار پایا، لیکن آخر کار خود پسندی، تکبر ، غرور اور اپنی آزادی سے غلط فائدہ اٹھاتے ھوئے گمراھی کے راستے پر چلاگیا اور پستی کے آخری درجہ تک گرگیا ۔
دوسرے اس نکتہ پر توجہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ انسانوں میں شیطانی وسوسوں کا نفوذ ایک نا آگاہ اور اجباری نفوذ نھیں ہے؛ بلکہ انسان اپنی رغبت اور اختیار سے اس کے نافذ ھونے کا راستہ کھولتے اور اپنے نفس کے ملک میں اسے داخل ھونے کی اجازت دیتے ہیں اور اصطلاح میں اپنے اندر داخل ھونے کا پاسپورٹ خود شیطان کے اختیار میں دیتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید صراحت کے ساتھ کھتا ہے:"إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ"(۶)؛تو میرے بندوں پر مسلط نھیں ھوسکتا مگر ان گمراھوں پر جو تیری پیروی کریں۔ اور دوسری جگہ پر فرماتا ہے: "إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ھُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ "(۷)؛اس کا قبضہ فقط ان لوگوں پر ہے جو اس کو اپنا سرپرست منتخب کرتے ہیں اور اُن لوگوں پر جو اس کے حکم کو فرمان الٰھی کے برابر سمجھتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مذکورہ فوق جملوں میں ظریف اور لطیف صورت میں اس سوال کا جواب بیان کردیا ہے، فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے اُسے مھلت دی چونکہ وہ غضب الٰھی کا مستحق تھا اور پروردگار اپنے بندوں پر امتحاان کو مکمل کرنا چاھتا تھا اور جو وعدہ اسے دیا گیا تھا اسے پورا کرنا چاھتا تھا۔
یعنی ایک طرف تو اسے مھلت دیگر خداوند عالم نے اس کی سزا کو سخت کیاچونکہ جیسا کہ قرآن کی آیتوں سے استفادہ ھوتا ہے کہ جو شخص گناہ اور گمراھی کے راستے پر قدم رکھتا ہے خداوندعالم بار بار اُسے خبردار اور متنبّہ کرتا ہے اگر یہ تنبیہ موٴثر واقع ھوئی اور واپس پلٹ آیا تو بھت اچھا ورنہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور کافی حدتک مھلت دیتا ہے تاکہ ان کے گناھوں کا بوجھ بھاری ھوجائے ۔(۸)
دوسری طرف شیطان کا وجود انسانوں کے لئے بڑے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہے، دوسرے لفظوں میں مومن لوگوں کے کمال تک پھنچنے کا سبب ہے، اس لئے کہ آگاہ مومن اور ان لوگوں کے لئے جو راہ حق پر چلنا چاھتے ہیں، اس طاقتور دشمن کا وجود نہ یہ کہ مُضر نھیں ہے بلکہ ترقی کرنے اور کمال تک پھونچنے کا ذریعہ ہے؛ چونکہ ھم جانتے ہیں کہ کمالات کے زینوں کاطے کرنا اور ترقیاں، عام طور پر متضاد چیزوں کے درمیان ھی حاصل ھوتی ہیں اور جس وقت انسان طاقتور دشمن کے مد مقابل قرار پاتا ہے، اپنی تمام توانائیاں، طاقت، صلاحتیوں اور نبوغ کو بروئے کار لاتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طاقتور دشمن کا وجود اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جنبش اور جوش و خروش کا سبب بنتا ہے، نتیجہ میں کمالات اور ترقیاں حاصل ھوجاتی ہے ۔
لیکن وہ لوگ جو گنھگار ھوتے ہیں جن کا دل بیمار اور سرکش ھوتا ہے، ان کی گمراھی اور بدبختیوں میں اضافہ ھوتا ہے اور یہ لوگ حقیقت میں اسی انجام کے مستحق ھوتے ہیں! "لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِیَ الشَّیْطَانُ فِتْنَةٌ لِلَّذِیْنَ فِی قُلُوبِھمْ مَرَضٌ وَ الْقَاسَیَةِ قُلُوبُھمْ"؛مقصد یہ تھا کہ پروردگار عالم شیطانی اِلقائات کو ان لوگوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ قرار دے جن کے دل بیمار اور جو سنگدل اور شقی ہیں۔
"وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوا بِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوبُھُمْ"(۹)؛ مقصد یہ بھی تھا کہ آگاہ حضرات جان لیں کہ یہ حق ہے آپ کے پروگار کی جانب سے اور نتیجہ میں اس پر ایمان لے آئیں اور ان کا دل اس کے سامنے خاضع ھوجائے۔
سوال۔ ۳ : شیطان خود کو کیسے آدم سے افضل سمجھتا ہے اور خداوند عالم کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے؟!
جواب میں کھنا چاھیے کہ خود خواھی اورغرور وہ ضخیم پردہ ہے جو شخص کو حقیقت کے دیکھنے سے باز رکھتا ہے،جیسا کہ ابلیس کو باز رکھا، اس نے فقط عصیان، گناہ اور نافرمانی ھی نھیں کی بلکہ خداوند عالم کی حکمت پر اعتراض کیا کہ کیوں مجھ جیسی اشرف مخلوق کو جسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے، پست مخلوق کے سامنے جسے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، سجدہ کرنے کا حکم دیا !
وہ گمان کرتا تھا کہ آگ ، مٹی سے افضل ہے حالانکہ مٹی طرح طرح کی برکتوں کا سرچشمہ، تمام حیاتی چیزوں کا منبع، زندگی کی بقا کا اھم وسیلہ اور انواع و اقسام کے معدن اور جواھر کو اپنے دامن میں جگہ دینے والی چیز ہے جبکہ آگ اس قسم کی نھیں ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ آگ اور حرارت بھی زندگی کا ایک ذریعہ ھوتی ہے لیکن اصل کردار ان ھی چیزوں کا ھوتا ہے جو مٹی میں موجود ہیں جبکہ آگ ان چیزوں کے مکمل ھونے کا فقط ایک ذریعہ ھوتی ہے ۔
بعض رو ایتوں میں آیا ہے (۱۰) کہ ابلیس کا ایک جھوٹ یہ تھا کہ وہ آگ کو مٹی سے برتر سمجھتا تھا ، حالانکہ آگ عام طور پر درختوں یا چکنی چیزوں سے حاصل ھوتی ہے اور یہ ھمیں معلوم ہے کہ درخت مٹی سے ھوتے ہیں اور گھی چربی، جانور کی ھو یا پودوں سے حاصل ھوئی ھو، بھرحال ھر قسم کی چربی اور چکنائی (بالواسطہ)زمین سے ھی حاصل کی جاتی ہے ۔
اس کے علاوہ، آدم کا امتیاز فقط آگ پر خاک کی برتری کی وجہ سے ھی نھیں تھا، بلکہ ان کا اصل امتیاز وھی عظیم روح تھی جسے خداوند عالم نے "وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوْحِیْ"سے تعبیر کرکے انھیں عطا کیا تھا ۔ برفرض کہ شیطان کی خلقت کاپھلا مادّہ، آدم کے تخلیقی مادّے سے افضل ھو تب بھی یہ اس بات کی دلیل نھیں ھوسکتی کہ کہ آدم کی الٰھی روح کے ساتھ تخلیق کے مقابل، پروردگار کی خلافت کے سامنے سجدہ اور خضوع نہ کرے اور شاید شیطان ان سب باتوں کو جانتا تھا لیکن تکبر، غرور اور خود پسندی نے اُسے حقیقت کا اعتراف کرنے کی اجازت نھیں دی ۔
۴۔ نادان لوگوں کی بے بنیاد توجیھیں
بعض فلسفی لوگ (جیسا کہ ابن میثم بحرانی (رحمة الله علیہ) اپنی کتاب شرح نھج البلاغہ میں بیان کرتے ہیں) اُن تمام چیزوں کی تاویل اور توجیہ کرتے ھوئے جو تخلیق آدم، ملائکہ کا سجدہ، ابلیس کی سرکشی اور نافرمانی کے قصّہ میں وارد ھوا ہے، ایسے مطالب پر محمول کردیتے ہیں جو آیات کے ظاھر سے استفادہ نھیں ھوتے ۔
منجملہ کھتے ہیں: "اُن فرشتوں سے مراد، جو آدم کے لئے سجدہ کرنے پر مامور ھوئے تھے، جسمانی قوتیں ہیں جو نفس عاقلہ (روح انسانی) کے سامنے خضوع کرنے پر مامور ہیں! جبکہ ابلیس سے مراد وھمی قوت ہے اور ابلیس کا لشکر وھی طاقتیں ہیں جو وھم (اور خواھشات نفسانی) سے وجود میں آتی ہیں جو عقلی طاقتوں سے ٹکراتی ہیں نیز اس جنت سے مراد جس سے آدم کو نکالا گیا ہے معارف حقّہ اور خدا کی کبریائی کے مطالع انوار ہیں! اور اسی طرح کی دیگر غلط اور بے دلیل توجیھیں"۔(۱۱)
یہ تفسیر بالرائے کا واضح ترین نمونہ ہے جس سے بھت سی حدیثوں میں منع کیا گیا ہے اور خدا سے دوری نیز اعمال کے برباد ھونے کا سبب شمار کیا گیا ہے ۔
ھمیں معلوم ہے کہ تفسیر بالرائے، اپنی ذھنی اُپج اور پھلے سے کئے گئے فیصلوں کو آیات اور روایات پر محمول کرنا، ھمیشہ گمراھوں، نیا دین بنانے والوں اور جعلسازوں کے ھاتھوں میں سب سے اھم وسیلہ رھا ہے تاکہ قرآنی آیات اور اسلامی حدیثوں کو ان چیزوں پر تطبیق دیں جو وہ خود چاھتے ہیں، جسے خدا اور اولیائے الٰھی نے بیان نھیں کیا ہے) اور یہ بھی ھم جانتے ہیں کہ اگر آیات اور روایات کے سلسلہ میں تفسیر بالرائے کا دروازہ کھول دیا جائے تو کوئی مسلّم اصل، قاعدہ، ثابت بنیاد، حکم اور قانون باقی نھیں رھے گا اور سب چیزیں ھر کس وناکس کے افکار اور ھوا وھوس کا شکار اور اُن کے ھاتھوں کا کھلونا بن جائیں گی اور قرآن وسنّت ایک موم کے ٹکڑے کی طرح ھوجائیں گی کہ جسے اپنی خواھش اور رغبت سے کوئی شکل بھی دی جاسکتی ہے ۔
اسی وجہ سے عالم اسلام کے عظیم محققین کا اصرار ہے کہ قرآن اور سنّت کو سمجھنے کے لئے باب الفاظ کے مسلم قواعد و قانون استعمال کئے جائیں اور الفاظ اپنے حقیقی معنی پر محمول کئے جائیں؛ مگر یہ کہ ان کے مجازی معنی پر واضح قرینے موجود ھوں، وہ قرینے جو عرف عقلاء میں قابل قبول ھوں اور عرف وعقلاء اپنے استدلالوں میں ان قرینوں پر اعتماد کرتے ھوں۔(۱۲)
بھرحال مولا علی علیہ السلام کے کلام کے اس حصّہ میں ابلیس کا قصّہ اور اس کے انجام کا تذکرہ، تمام انسانوں کے لئے عبرت آموز سبق ہے تاکہ تکبّر، غرور، خود خواھی اور تعصّب کے نتائج پر غور وفکر کریں اور ابلیس کے انجام کو جس کا خاتمہ ابدی لعنت کا طوق اور ھمیشگی شقاوت پر ھوا ہے، ملاحظہ کریں اور اس نھایت خطرناک راستہ پر ھرگز قدم نہ رکھیں ۔
ھم اس گفتگو کو شرح نھج البلاغہ میں بیان ھونے والے، عظیم الشان عالم مرحوم مغنیہ کے کلام پر ختم کرتے ہیں:
آپ کھتے ہیں کہ آدم(علیه السلام) اور ابلیس کے قصّہ سے درج ذیل عبرت آموز سبق لئے جاسکتے ہیں:
۱۔ جو شخص بھی کسی صاحب فضیلت سے حسد کرے یا کسی انسان سے ریاست یا کسی کام میں شریک ھونے کی غرض سے، دشمنی کرے، ایسا شخص ابلیس کے دین پر ہے اور قیامت میں اس کے اصحاب میں شمار ھوگا ۔
۲۔ دین کی معرفت اور اخلاق کریمہ کا فقط ایک ھی راستہ ہے ایک سے زیادہ نھیں اور وہ حق پر ثابت قدم اور اس کے سامنے تسلیم رھنا ہے، نتیجہ کچھ بھی ھو۔
۳۔ بھت سے لوگ باطل پر ڈٹے رھتے ہیں البتہ اس لئے نھیں کہ وہ باطل کو نھیں پھچانتے بلکہ اپنے مخالفوں سے بغض وعناد اور دشمنی کی وجہ سے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ غلط اصرار اُنھیں بدترین نتائج سے دوچار کرے گا ۔
اگر ابلیس توبہ کرلیتااور غلط راستے سے باز آجاتا، خداوندعالم یقیناً اس کی توبہ کو قبول کرلیتا، ابلیس کے اندر اس طرح کی استعداد، صلاحیت اور آمادگی تھی لیکن وہ معتقد تھا کہ اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ خداوندعالم اُسے دوبارہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دے، حالانکہ خداوندعالم نے اس کی توبہ کو قبول کرنے کی شرط یھی رکھی تھی ۔(۱۳)

حوالہ:
۱۔ نور الثقلین ، ج ۱، ص ۵۸۔
۲۔ سورہ کھف آیت ۵۰۔
۳۔ سورہ ص، آیت ۷۶۔
۴۔ مجمع البیان، ج ۱، ص ۸۲، سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۴ کے ذیل میں۔
۵۔ سورہ کھف ، آیت ۵۰۔
۶۔ سورہ حجر، آیت ۴۲۔
۷۔ سورہ حجر، آیت ۱۰۰۔
۸۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸،اور سوروں روم، آیت ۴۱۔
۹۔ سورہ حج، آیت ۵۳ و ۵۴․
۱۰۔ تفسیر نورالثقلین، ج ۴، ص ۴۷۲، حدیث ۹۳، ملاحظہ فرمائیں۔
۱۱۔ نھج البلاغہ( ابن میثم کی شرح کے ساتھ)، ج۱، ص۱۹۰ کے بعد۔
۱۲۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب "تفسیر بالرائے" تالیف آیة الله مکارم شیرازی ، ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۳۔ فی ضلال نھج البلاغہ، ج۱، ص۵۱۔

Add comment


Security code
Refresh