www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انسان کے اختلافات ،جو اتحاد واتفاق کے رشتہ کوتودیتے ہیں اور اجتماعی نظام کو درھم برھم کر دیتے ہیں ،دوقسم کے ہیں :
١ ۔وہ اختلافات جو اتفاقی طور پر دوافراد کی ذاتی چپقلش کے نتیجہ میں رونما ھوتے ہیں، جیسے دوافراد کے درمیان کسی موضوع پر ھونے والا جھگڑا اور ایسے اختلافات کو عدلیہ رفع کرتی ہے ۔
٢۔وہ اختلافات جو طبیعی طور پر معاشرے کو دو مختلف گروھوں میں تقسیم کردیتے ہیں ،اور اجتماعی انصاف کی طرف کسی قسم کی توجہ کئے بغیر ،ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر مسلط کیا جاتا ہے اور کمزورطبقہ کی سعی و کوشش کے ماحصل کو طاقتور گروہ کے نام مخصوص کیا جاتا ہے، جیسے:حاکم ومحکوم ،دولت مند و فقیر ،عورت و مرد اور ملازم وافسرکے طبقے ترقی یافتہ اور بے دین معاشروں میں اسی صورت میں زندگی کرتے ہیں اور ھمیشہ طاقتور لوگ کمزوروں اور اپنے ماتحتوں کا استحصال کرتے ہیں ۔
منافع کی حفاظت اوررفع اختلافات کے بارے میں اسلام کا عام نظریہ اسلام کلی طور پر،معاشرے کی سعادت، جو کہ لوگوں کے مفاد کی حفاظت اور ان کے اختلافات کے سدِّ باب کی مرھون منت ہے ،کودو چیزوں کے ذریعہ فراھم کرتا ہے :
١۔ طبقاقی امتیاز کو کلی طور پر لغو کر کے اس کی اھمیت کو ختم کردیتاہے
اس معنی میں کہ اسلامی معاشرے میں لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی کو ھر گز یہ حق نھیں ہے کہ دولت یا اجتماعی طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر برتری جتائے اورانھیں حقیر و خوار سمجھے اور ان سے فروتنی اختیار کرنے اورتسلیم ھونے کا تقاضا کرے، یا اپنے مخصوص عھدہ کی بناپر خود کو بعض اجتماعی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دے یا کسی جرم کے مرتکب ھونے پرخود کو معاف اور سزا سے بری سمجھے۔ قوانین و ضوابط کے نفاذ میں معاشرے کے سرپرست کا حکم نافذ ہے اور سب کواس کے سامنے سر تسلیم خم کرناچاھئے اور اس کا احترام کرناچاھئے، لیکن اس کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد میں یہ توقع نھیں رکھنی چاھئے کہ دوسرے لوگ اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں یا جو کچھ وہ انجام دے اس کے بارے میں انھیں اعتراض و تنقید کرنے کا حق نھیں ہے کیونکہ وہ معاشرے کا فرمانروا ہے، اس لئے اسے بعض عام اور سماجی ذمہ داریوں اورفرائض سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
اسی طرح ایک دولت مند شخص کو یہ حق نھیں ہے کہ وہ اپنی دولت کو اپنے لئے فخر و مباھات کا سبب قرار دیکر غریبوں، محتاجوں اور اپنے ما تحتوں کی سرکوبی کرے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے فرمانرواؤں کو یہ توقع نھیں کرنی چاھئے کہ لوگ ان کی اطاعت کرتے ھوئے ان کی ھرفضول بات کو معاشرہ کے پسماندہ اورناداروں کے مسلم حق کے مقابلہ میں فوقیت دیں۔
نیز اسلام ھرگز اس بات کی اجازت نھیں دیتاہے کہ کسی بھی طبقہ میں ایک طاقتورلوگ ناحق کمزوروں پر مطلق حکمرانی کریں۔ خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتاہے:
''اسلام کے پیرو آپس میں بھائی اورمساوی ہیں ''۔
١۔ انّما المؤمنون اخوہ... (حجرات / ١٠)۔
نیز فرماتاہے:
''خدا کا دین تمھاری (اھل کتاب اور مسلمان )آرزوں اور خواھشوں کا تابع نھیں ہے ،جو بھی برا کام انجا م دے گا ،اسے سزا ملے گی ''۔
البتہ دین اسلام میں کچھ خصوصیات ، جیسے : دین کے پیشواؤں کی اطاعت اور والدین کا احترام، ہیں کہ اس میں مساوات نھیں ہے بلکہ صرف ایک طبقہ کے لئے دوسرے طبقہ کی نسبت کچھ فرائض ہیں، لیکن اس سلسلہ میں بھی جس کے حق میں یہ حکم ہے، وہ دوسروں پر برتری نھیں جتلا سکتا ، یعنی وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے مقام پر فخر نھیں کرسکتا ہے۔
جی ھاں، چونکہ انسان فطر ی طور پر امتیاز و فضیلت طلبی کی جبلّت رکھتا ہے ، اسلام نے اس کی اس فطری جبلّت کو سر کوب کئے بغیر اس کے لئے ایک عمل معین فرمایا ہے اور وہ ''تقویٰ ''ہے۔
اسلام میں حقیقی قدر و قیمت پرہیزگاری کے لئے ہے اور چونکہ تقویٰ کا حساب چکانے والا خدائے متعال ہے ، اس لئے یہ امتیاز جس قدر زیادہ ھوجائے ،کوئی رکاوٹ ایجاد نھیں کرتا، اس کے برعکس طبقاتی امتیاز معاشرے میں فسادپھیلانے کا سب سے بڑا سبب اور افراد کے آپس میں ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔
اسلام کی نظر میں ،ایک پرھیزگارفقیر، بے تقوی ٰسرمایہ داروں کے ایک گروہ پر فضیلت رکھتا ہے اور ایک پرھیز گار عورت سیکڑوں لا ابالی مردوں سے بھتر ہے۔
١۔لیس باما نیکم ولا امانی اھل الکتاب من یعمل سو ء ایجز بہ۔۔۔ (نساء ١٢٢)۔
خدائے متعال فرماتا ہے :
''انسانو!ھم نے تم کو ایک مرد اورعورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئیے ہیں تاکہ آ پس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو ،بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ہے جو زیادہ پر ھیز گار ہے ۔''
نیز فرماتا ہے :
''میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نھیں کروں گا ،چاھے وہ مردھو یاعورت ،سب ایک نوع سے ہیں اور انسان ہیں ۔''
٢۔چوں کہ تمام افراد، انسانیت اور معاشرے کے رکن ھونے کے لحاظ سے شریک ہیں اور تمام لوگوں کا کام اوران کی کوشش محترم ہے،لھذاکچھ قوانین بنائے گئے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں ھرفرد کے مفادات کا تعین ھوسکے اور اجتماعی تجاوز اور کشمکش کا راستہ خود بخود بند ھو جائے۔
ابتدائی اصول کومدنظر رکھتے ھوئے یہ قوانین کچھ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ معاشرے کے مختلف طبقاتی فاصلے بالکل ختم ھو جائیں ،دوریوں کو نزدیکیوں میں بدل دیا جائے۔
ان بیانات کی روشنی میں مفادات کے تحفظ اور معاشرے کے اختلافات کودور کرنے کے سلسلہ میں اسلام کا خاص طریقہ اجمالی طور پر واضح ھوجاتا ہے۔
١۔(یاایّھا النّاس انّا خلقنکم من ذکرٍ و انثی وجعلنکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عنداللّہ اتقٰکم ۔۔۔)(حجرات ١٣)۔
٢۔(۔۔۔انّی لااضیع عمل عاملٍ منکم من ذکرٍاو انثی بعضکم من بعض۔۔۔)(العمران ١٩٥)۔
عداوت و اختلاف سے اسلام کا مقا بلہ
معاشرے کے مختلف طبقات میں طبیعی طورپر پیدا ھونے والے اختلافات،جیسے رعایا اورحاکم کا طبقہ ،غلام و مالک اورکام لینے والے و مزدور کے درمیان اختلافات دو طریقوں سے وجود میں آتے ہیں :
١۔ایک شخص کا دوسرے شخص کے حقوق پر تجاوز کر نے سے:مثلا کام لینے والا، مزدورکی مزدوری ادانہ کرے ،ایک مالک اپنے نوکر کی پوری اجرت نہ دے اس کے حق میں ظلم اور ناانصافی کرے یاحاکم اپنی رعایامیں سے کسی کے حق میں ظالمانہ حکم جاری کرے۔
اسلام نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے بہت سے قوانین مقرر کئے ہیں،کہ ان کو نافذ کرنے سے ھرایک کے حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہر شخض اپنے کھوئے ھوئے حقوق کو پاسکتا ہے ۔اسلام نے اس کام کے لئے معاشرے کی ھرفرد کو اجازت دی ہے کہ اگرکوئی شخض اس کے ساتھ ظلم کرے (چاھے وہ حاکم وقت ھی کیوں نہ ھو)توقاضی کے پاس شکایت کرنی چاھئے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں ایک مسلمان کاحضرت کے ساتھ کچھ اختلاف ھوگیا،اس نے قاضی کے پاس جاکر استغاثہ کیا۔حضرت ایک عام شخض کی طرح اس قاضی (جسے خودآپ نے منصوب فرمایاتھا)کے پاس حاضر ھوئے اور فیصلہ ھوا۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ حضرت نے قاضی سے فرمایا کہ شکایت کرنے والے اورمیرے درمیان برتاؤ میں کسی قسم کا فرق نہ کرے۔
٢ ۔ ایک طاقتور شخص کا کمزور اور اپنے ماتحت کے اوپر دھونس جمانااور اس کے ساتھ زیادتی کرنا ، جیسے ایک کام لینے والا اپنے مزدوروں کو ذلیل و خوار سمجھے ،کوئی مالک اپنے سامنے کھڑار کھے ، اور اسے اپنے سامنے جھک کر تعظیم کرنے پر مجبور کرے یا حاکم اپنی رعایا سے اعتراض اور استغاثہ کا حق چھین لے، کیونکہ اس قسم کے برتاؤ میں غیر خدا کی پرستش کا پھلو پایاجاتاہے، اس لئے اسلام نے ان چیزوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اسلام میں کوئی بھی شخص اپنے ما تحت سے انجام فریضہ کے علاوہ کسی قسم کی توقع نھیں رکھ سکتا ہے اور ان پر اپنی بزرگی و عظمت کا مظاھرہ نھیں کرسکتا ہے۔ اسلام میں بھت سے ایسے اخلاقی احکام موجود ہیں جو لوگوں کو سچائی، انصاف اور حسن اخلاق کی دعوت دیتے ہیں اور عھد و پیمان کی رعایت کرتے ہیں، نیکی اور خدمت کرنے والوں کی تشویق کرتے ہیں اور ، بد کرداروں ، نا اھلوں اور برے لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔
یہ ایسے پسندیدہ اخلاق ہیں کہ اگر معاشرے میں یہ نہ ھوں تو معاشرہ بدبختی سے دوچار ھوجائے گا اور دنیا و آخرت میں ناکامی و بدبختی میں مبتلا ھوگا۔
ممکن ہے کہ کسی کو ان قوانین سے بے اعتنائی اور ان پر عمل نہ کرنا اس کے لئے بظاھر معمولی فائدہ ھو، لیکن دوسری طرف یہ ایک ناپاک اورخطرناک ماحول کو پیدا کرتاہے کہ جو اس کو اس معمولی فائدہ سے محروم کرنے کے علاوہ اور بھی بھت سے فائدوں سے اس کو محروم کرتاہے اور اس شخص کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو ایک عمارت کے سنگ بنیاد کو باھرنکال کر اس پر ایک نئی عمارت تعمیر کرتاہے اور اس طرح اس عمارت کی ویرانی کا سبب بنتاہے۔

Add comment


Security code
Refresh