www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آپ کی فضیلت کے لئے وہ دعا کافی ھے جسے امام جعفرصادق علیه السلام نے جناب عباس علیہ السلام کی 

زیارت کے موقع پر اذن دخول میں پڑھی جس کے الفاظ یہ ھیں :

اے فرزند امیرالمومنین! "خدا اس کے مقرب رشتوں ،رسولوں ،صالح بندوں تمام شھداء وصدیقین کے پاک وپاکیزہ سلام ھرصبح وشام آپ پر ھوں "حضرت امام جعفرصادق (ع ) نے حضرت احدیت کے سلام سے شروع کیا، کارزار کربلا میں حضرت عباس (ع) نے اپنے بھائی امام حسین(ع) وحجت خدا کی تصدیق کرکے مرتبہ حق الیقین حاصل کیا، وفاداری کا مظاھرہ انسان یا قرابت و برادری کی وجہ سے کرتا ھے، یا اس لئے کرتا ھے کہ خدا نے واجب قرار دیا ھے، کہ اس کے اولیاء سے وفاداری کی جائے، حضرت امام جعفرصادق (ع) کی زیارت کے فقرات سے واضح ھوتا ھے، کہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی و رشتہ دار اور فرزند رسول (ص) سمجھ کر امام حسین (ع) کی نصرت نھیں کی بلکہ آپ امام حسین علیہ السلام کو حجت خدا اور امام علیہ السلام واجب الطاعة سمجھ رھے تھے، اگرچہ کربلا کے ھر شھید نے دشت نینوا میں کسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نھیں کیا، لیکن یہ سارے شھید اپنی ساری قربانیوں کے باوجود شھید علقمہ کے ھم مرتبہ نھیں ھو سکتے، کیونکہ آپ کی بصیرت راسخ، آپ کا علم وافر، آپ کا ایمان محکم، آپ کا کردارمضبوط، اور آپ کا مقصد عالی تھا، لہٰذا امام جعفرصادق (ع) نے مذکورہ بالا الفاظ میں آپ کو مخاطب فرمایا، کہ یہ فضیلت قمر بنی ھاشم سے مخصوص تھی جس میں کربلا کا کوئی دوسرا شھید شریک نھیں تھا۔ (۱)
جناب عباس علیہ السلام کا ایک معجزہ
علامہ جلیل شیخ عبدُالرحیم تستری رحمۃ اللہ علیہ کھتے ھیں :"میں نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی، زیارت کے بعد حرم حضرت عباس علیہ السلام میں پھنچا وھاں میں نے دیکھا کہ ایک بدّو اپنے بیمار لڑکے کو لیکر آیا جس کے پیروں کو فالج کا اثر تھا، ضریح حضرت سے اس کو باندھ دیا اور رو رو کر دعائیں کرنے لگا تھوڑی دیر گزری تھی کہ بچہ صحیح و سالم ھو کر حرم میں با آواز بلند کھنے لگا:"عباس علمدار نے مجھ کو شفا بخشی "لوگوں نے اس کو گھیر لیا اور تبرک کے طور پراس کے کپڑے پھاڑ ڈالے، میں نے جس وقت یہ منظر دیکھا ضریح کے قریب گیا اورحضرت علیہ السلام سے درخواست کی ،کہ آپ ناآشنائے ادب کی دعاؤں کو سن لیتے ھیں اور ھماری دعاؤں کو جب کہ ھمیں آپ کی معرفت بھی ھے مستجاب نھیں فرماتے، ٹھیک ھے اب میں آئندہ آپ کی زیارت کے لئے نھیں آؤں گا، بعد میں مجھے یہ خیال ھوا کہ میں نے گستاخی کی ھے خدا سے اپنی غلطی کی معافی مانگتا رھا، جب میں نجف پھنچا تو استاد بزرگوار شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس تشریف لائے اور پیسوں کی دو تھیلیاں دیتے ھوئے فرمایا:"لویہ تمھارے پیسے ھیں جوتم نے حضرت عباس علیہ السلام سے طلب کئے تھے، ایک سے اپنا مکان بنوا لو اور ایک سے حج کرلو"میں نے بھی حضرت سے یھی دو سوال کئے تھے۔ (۲)
لہٰذااس مقام مقدس پراپنے لئے اورخصوصاََ ھرمومن کے لئے ،زائر کوجناب سکینہ علیھا السلام کا واسطہ دے کردعائیں مانگنی چاھئے۔
آسماں والوں سے پوچھو مرتبہ عباس کا
نام لیتے ھیں ادب سے انبیاء عباس کا
پوری ھو جاتی ھے ھاتھ اٹھنے سے پھلے ھر مراد
مانگ لو دے کر خدا کو واسطہ عباس کا(نیر جلال پوری)
آداب زیارت حضرت عباس علیہ السلام
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ھیں :حضرت عباس علیہ السلام کا زائر پھلے در سقیفہ کے پاس کھڑے ھو اور داخلہٴ حرم کی دعا پڑھ کر حرم میں وارد ھو، پھر اپنے کو قبر پر گرا دے، اور حضرت کی زیارت پڑھے، نماز و دعا کے بعد پائے اطھر کی طرف جائے اور وھاں پر اس زیارت کو پڑھے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ھے" السلام علیک یااباالفضل العباس"زیارت علمدار کربلا علیہ السلام کے بعد زائر دو رکعت نمازادا کرے چونکہ روایت میں اس کی تاکید وارد ھوئی ھے. (۳)
حرم مطھرحضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام
بارگاہ مقدس بابُ الحوائج قمر بنی ھاشم سقائے سکینہ آقا ابوالفضل العباس علیہ السلام کا حرم امام حسین علیہ السلام سے تقریباََ۳۵۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع ھے۔
خداوند عالم نے حرم ابوالفضل العباس علیہ السلام کی تعمیر کیلئے ھردورمیں کچھ افرد کو منتخب کیا، لہٰذا ھر دور میں حرم قمر بنی ھاشم علیہ السلام کو بھتر سے بھتر تعمیر کیا گیا اسی بنا پر ھم بھی ذیل میں کچھ مثالیں تحریر کر رھے ھیں ۔
۱۔ شاہ طھماسپ نے ۱۰۳۲ ق۔ میں گنبد مطھر کی نقاشی اور بیل بوٹے بنوائے، اور صندوق قبر پر ضریح مبارک رکھی، صحن و ایوان تعمیر کرائے، پھلے دروازہ کے سامنے مھمان سرا تعمیر کرایا اور ھاتھ کے بنے ھوئے قالینوں سے فرش کو مزین کیا -
۲ ۔ ۱۱۵۵ق۔ میں نادرشاہ نے حرم مطھر کے لئے گران قیمت ھدیئے ارسال کئے اورحرم کی آئینہ کاری کرائی۔
۳- ۱۱۵۷ق۔ میں نادرشاہ کا وزیر جب زیارت سے مشرف ھوا تو اس نے صندوق قبر کو تبدیل کرایا اور ایوان تعمیر کرائے، روشنی کے لئے شمع آویزاں کرائیں، جس سے حرم بقعہ نور بن گیا ۔
۴۔ ۱۲۱۶ق۔ میں جب وھابیوں نے کربلائے معلی کو لوٹا تو حرم حسین علیہ السلام اور حرم حضرت عباس علیہ السلام میں جو کچھ تھا اس کو بھی لے گئے، حرم کی جدید تعمیر کے لئے فتح علی شاہ نے کمر ھمت کسی، اور سونے کے ٹکڑوں سے حرم امام حسین علیہ السلام کے گنبد مبارک کو مزین کیا اور حضرت عباس علیہ السلام کے حرم کو بیل بوٹوں کی نقاشی سے آراستہ کرایا، قبلہ کی طرف ایوان بنوائے اور نھایت نفیس لکڑی سے تعویذ قبر امام حسین علیہ السلام بنوائی، اور چاندی کی ضریح نصب کی۔
۵۔ مجتھد اعظم شیخ مازندرانی کے حکم سے مرحوم حاج شکراللہ نے اپنی ساری ثروت خرچ کرکے حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں طلا کاری کرائی اور سونے کی تختی پر سونے کے حرف میں مغربی ایوان پر اپنا نام "شکراللہ" کتبہ کرایا جو آج تک موجود ھے یہ واقعہ ۱۳۰۹ ق کا ھے ۔
۶۔محمد شاہ ھندی حاکم لکھنوٴ نے پھلے دروازہ کے سامنے والے ایوان طلا کو درست کرایا، اور سلطان عبدُالحمید کے حکم سے اس ایوان کا رواق بھترین لکڑی کی چھت کے ساتھ بنوایا گیا۔
۷۔ایوان طلا کے مقابلہ میں چاندی کادر ھے، وہ خود حرم مطھر کے خادم مرحوم سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۵۵ ق۔ میں بنوایا تھا۔ (۴)
۸۔روضئہ اقدس میں جو جدید ضریح ھے وہ ۱۳۸۵ ق۔ میں مزین کی گئی اس نفیس اور زیبا ضریح کو اصفھان (ایران) میں پھلے بنایا گیا اور پھر اس کو اس وقت کے مرجع وقت حضرت علامہ آیةاللہ العظمٰی حاج سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ھاتھوں سے قبر منور پر رکھاگیا۔ (۵)
مقام دست راست(دایاں بازو)
کربلائے معلی کی زیارتوں میں یہ وہ مبارک مقام ھے کہ جھاں روز عاشورا سقائے اھل حرم علیہ السلام کا دایاں بازو قطع کیا گیا تھا، اس کے بعد حضرت نے مشک کو بائیں بازو میں سنبھالا تاکہ کسی طرح مشک کو خیام حسینی تک پھنچا سکے ۔
مقام دست چپ(بایاں بازو)
حرم حضرت عباس علیہ السلام کے باب قبلہ سے چند قدم کے فاصلہ پر یہ مقام واقع ھے، اور یھی وہ مقام ھے، جھاں سقائے سکینہ کا بایاں بازو کاٹا گیا تھا، اس کے بعد علمدار حسینی نے مشک کو اپنے دانتوں میں تھام لیا اور خیموں کی طرف چلے تاکہ پانی کو خیموں تک پھنچا دے، مگر ظالموں نے تیروں کی بارش شروع کردی جس کی وجہ سے ایک تیر مشک سکینہ علیھا السلام پر لگا اور تمام پانی بھہ گیا، اب غازی علیہ السلام کی ھمت جواب دے گئی، اس منظر کو پیام اعظمی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ھے:
 قسمت نے جب امیدوں کے دامن جھٹک دئے
بچوں نے اپنے ھاتھوں سے ساغرپٹک دئے
 حوالہ جات:
۱۔ "صحیفہٴ وفا"ابوالفضل ،ائمہ طاھرین علیھم السلام کی نظر میں۔
۲ ۔"صحیفہٴ وفا"ابوالفضل ،ائمہ طاھرین علیھم السلام کی نظر میں۔
۳۔ "صحیفہٴ وفا"ابوالفضل،ائمہ طاھرین علیھم السلام کی نظر میں ۔
۴۔مذکورہ عبارت کتاب "صحیفہٴ وفا"کے باب زیارت ابوالفضل العباس (ع) سے ماخوذ ھے۔
۵۔عتبات عالیات۔حرم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام ۔
 

Add comment


Security code
Refresh