www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

547531
ویسے تو غیبت ایک عملی بیماری ھے مگر اس کا ڈائریکٹ تعلق انسان کی روح سے ھے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ھے جس کے سوتوں کو دل و جان کے گوشوں میں تلاش کرنا چاھئے ۔علمائے اخلاق نے اس کی پیدائش کے متعد اسباب ذکر فرمائے ھیں جن میں اھم ترین اسباب حسد ،غصھ، خود خواھی ، بد گمانی ھیں ۔ انسان سے جتنے بھی کام سر زد ھوتے ھیں وہ ان مختلف حالات کی پیدا وار ھوتے ھیں جن کا وجود انسان کے باطن میں ھوتا ھے اور انھیں اوصاف مذکورہ کے کسی ایک صفت کے نفس انسانی میں جڑ پکڑ لینے کی وجہ سے ۔ نفس کے اندر یہ صفت اس طرح چھپی ھوتی ھے جیسے راکہ میں چنگاری ۔ انسان کی زبان غیبت سے آشنا ھوتی ھے کیونکہ زبان ترجمان انسان ھے ۔ اور جب کوئی صفت انسان کے دل میں راسخ ھو جاتی ھے تو وہ انسان کی آنکھوں کو اندھی کر دیتی ھے اور اس کے افکار پر تسلط حاصل کر لیتی ھے ۔لوگوں میں شدت کے ساتھ غیبت کا رواج تکرار عمل اور اس کے عقوبت کی طرف سے غفلت کرنے کی وجہ سے ھوتا ھے کیونکہ ھم نے بھت سے لوگوں کو دیکھا ھے کہ وہ بھت سے گناھوں سے بچتے ھیں مگر غیبت جیسے عظیم گناہ کی طرف متوجہ نھیں ھوتے کیونکہ اس کی عقوبت سے غافل ھوتے ھیں ۔
یہ بات یاد رکھئے کہ تکرار عمل اور ضعف تعقل کی وجہ سے انسان کا کام اس منزل تک پھونچ جاتا ھے کہ اس کے نقصانات کی طرف متوجہ ھو جانے کے بعد بھی اپنی نفسانی خواھش سے صرف نظر نھیں کر سکتا ۔ کیونکہ بشر اگر چہ ایک حد تک حقائق کی طرف متوجہ ھوتا ھے اور اپنی فطرت کے مطابق جو یائے کمال رھتا ھے لیکن عمل سے مسلسل گریز اں رھتا ھے اور حصول سعادت کے لئے معمولی سا رنج و غم برداشت کرنے پر تیار نھیں ھوتاا سی لئے اپنی پست فطرتی کا محکوم ھوتا ھے ۔
جو لوگ اپنی اور دوسروں کی شرافت کی حفاظت کے پابند نھیں ھوتے وہ کسی بھی اخلاقی آئین کے پابند بھی نھیں ھوتے بلکہ ان کا اخلاقی آئین کی پابندی قبول کر لینا امر محال ھے اور جن لوگوں نے حیات کو اپنی شھوتوں کا میدان قرار دے لیا ھے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے رھتے ھیں بد بختی و بد نصیبی ان کا مقدر بن جاتی ھے ۔
ضعف اخلاق ضعف ایمان ھی سے پیدا ھوتا ھے کیونکہ ضعف اخلاق مکمل طریقہ سے ضعف عقیدہ سے تعلق رکھتا ھے کیونکہ اگر انسان قوت ایمان نہ رکھتا ھو گا تو پھر کوئی بھی چیز نہ اس کو کسب فضیلت پر آمادہ کر سکتی ھے اور نہ وہ اخلاقی پابندیوں میں اپنے کو جکڑ سکتا ھے ۔
لوگوں کو ضلالت و اخلاقی مفاسد سے نکالنے کے لئے اپنے اپنے سلیقہ و استعداد کے مطابق الگ الگ رائے ھوتی ھے لیکن ( میری نظر میں ) موٴ ثر ترین طریقہ یہ ھے کہ موجبات اصلاح خود لوگوں کے اندر پیدا ھو جائیں ۔ اور اسکے لئے نیک جذبات کو بیدار کرنا، فطرت کی آواز پر لبیک کھنا اور فکری ذخیرہ وں کو راہ حصول سعادت میں صرف کرنا ھے ۔ اس لئے کہ صفات ذمیمہ کے برے انجام کو سوچ کر اور ارادہ کو مضبوط بنا کر ھم اخلاقی رذائل پر کنٹرول حاصل کر سکتے ھیں اور اپنے نفسوں پر سے تاریکی کے پردوں کو ھٹا کر ان کی جگہ بلند صفات کو دے سکتے ھیں ۔
ڈاکٹر ژاگو اپنی کتاب ” قدرت و ارادہ “ میں کھتا ھے : ھم نا پسندیدہ صفات کے برے انجام کو سوچ کر اور اس عادت کے ترک کرنے کے بعد جو مصالح و منافع ھم کو حاصل ھوں گے ان میں غور کرنے پر اور پھر زندگی کے ان مختلف مواقع کو سامنے لا کرجن میں ھم اس عادت کی قربانگاہ پر بھینٹ چڑھ چکے ھیں برے صفات کا مقابلہ کر سکتے ھیں اور پھر جب چند بار اپنے اندر ان نتائج کا مشاھدہ کریں گے اور اس کے ترک کر دینے کی لذت کو محسوس کریں گے تو وسوے ھم سے دور ھو جائیں گے !!
چونکہ وجود بشر میں استعداد کمالات کی بذر افشانی کی جا چکی ھے اورمملکت جسم کو تمام دفاعی وسائل سے مجھز کیا جا چکا ھے اس لئے پھلے اس گمراھی وضلال کے منشاء کو تلاش کیا جائے اس کے بعد ناقابل تزلزل ارادہ سے اس کو لوح دل سے محو و معدوم کر دیا جائے اور اپنی غیر متناھی خواھشات کے سامنے مضبوط باندہ بنادیا جائے ۔
چونکہ انسان کے اعمال اس کی واقعیت و شرف کے مظاھر ھوا کرتے ھیں ۔ اس لئے کہ انھیں افعال سے ھر انسان کی واقعی شخصیت ظاھر ھوتی ھے اس لئے اگر انسان حصول سعادت کرنا چاھتا ھے تو اس کا فریضہ ھے کہ اپنے اعمال کا تزکیہ کرے اور خدا کو اپنے اعمال کا نگراں تسلیم کرے اور آخرت کے جزا سے خائف ھو ، کتاب الٰھی پر عقیدہ رکھے کہ وہ ھر چھوٹے بڑے گناہ کا احصار کرنے والی ھے ۔
ایک فلسفی کھتا ھے : کائنات کو بے عقل ،مردہ اور بے شعور نہ کھو کیونکہ ایسا کھنے پر بے عقلی کی نسبت تم نے خود اپنی طرف دی ھے ۔ کیونکہ تم بھی اسی کائنات سے ظاھر ھوئے ھو ۔ پس اگر کائنات میں عقل و حس نھیں ھے تو خود تمھارے اندر بھی نھیں ھو گی ۔
جس قدر معاشرہ بقائے حیات کے لئے زندگی کے لوازم اولیہ کا محتاج ھے اسی قدر معاشرہ روحانی روابط کے بر قراررھنے کا محتاج ھے ۔ اگر لوگ اپنے سنگین اجتمای وظیفہ پر عمل پیرا ھو جائیں تو اپنے تکامل کے لئے معنویات سے بھت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ھیں۔ ھمارا فریضہ ھے کہ نقصان دہ افکار کی جگہ اچھے افکار کو اپنے اندر تقویت بخشیں تاکہ ھماری روح تاریکیوں کی قید و بند سے آزاد ھو سکے اور ھم اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکہ کر جاوداں مقصد سعادت کی طرف پھلا قدم اٹھا سکیں اسی طرح ھمارا فریضہ ھے کہ معاشرے میں بڑھتے ھوئے اخلاقی مفاسد کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور اپنے ھم نوع افراد کے حقوق کے احترام کی روح کو زندہ کر کے اصول انسانیت و معنوی بنیادوں کو استوار کریںاور حتی المقدور کوشش کریں کہ جن اخلاقی بنیادوں پر معاشرے کی بقاء موقوف ھوتی ھے ان کے استحکام کے لئے اساسی قدم اٹھائیں ۔ اگر لوگوں کے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا ھو جائے تو یقینی طور سے حقائق کے قبول کرنے کی صلاحیت بھی لوگوں میں قوی ھو جائے گی اور پھر اس کا نتیجہ یہ ھو گا کہ اجتماعی و اخلاقی اصولوں کی مکمل طور سے رعایت ھو سکے گی ۔

Add comment


Security code
Refresh