www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چوتھی صدی ھجری کے دوران کچھ ایسے عناصر اورحالات پیدا ھوگئے تھے جوخود بخود مذھب شیعہ کی ترقی اور شیعوں کے طاقتور او ر مضبوط بننے میں مدد کررھے تھے ۔ 

ان حالات میں سے خلافت بنی عباس کی کمزوری اور آل بویہ بادشاہ کا ان کے مقابلے میں سراٹھاناتھا۔
آل بویہ کے بادشاہ مذھبی طور پر شیعہ تھے اور خلافت کے مرکز(دارالخلافہ ) بغداد اور خلیفہ کے دربار میں ان کا بھت اثر و رسوخ تھا۔(۱) یہ شیعوں کے لئے ایک قابل توجہ طاقت تھی جو دن بدن ان کو زیادہ سے زیادہ جراٴت مند اور طاقتور بنارھی تھی تاکہ وہ اپنے مذھبی مخالفوں کے سامنے جو ھمیشہ خلافت کی طاقت پر بھروسہ اور تکیہ رکھتے ھوئے ان کو نیچا دکھانے کی فکر میں تھے ، کھڑے ھوجائیں اوران کا مقابلہ کریں اوراس کے ساتھ ساتھ پوری آزادی کے ساتھ اپنے (شیعہ ) مذھب کی تبلیغ کریں ۔
جیسا کہ مورخین نے لکھا ھے کہ اس صدی کے دوران سارے جزیرة العرب یا اس کے زیادہ حصے میں بڑے بڑے شھروں کے علاوہ ھرطرف شیعہ آباد تھے لیکن ان کے علاوہ کچھ بڑے شھربھی مثلا ً ھجر ، عمان او رصعدہ وغیرہ شیعوں کے شھر شمار ھوتے تھے ، شھر بصرہ میں شیعوں کی قابل قدرتعداد موجود تھی حالانکہ وہ شھر ھمیشہ سے اھلسنت کا مرکز تھا اور شھر کوفہ کے ساتھ جو شیعوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا مذھبی رقابت اور برابری رکھتا تھا ۔اسی طرح دوسرے شھروں مثلا ً ابلس ، نابلس ، طبریہ ، حلب اور ھرات میں بھی اچھے خاصے شیعہ زندگی گزارتے تھے۔ اھواز ، خلیج فارس کے کنارے (ایرانی ساحل )پر بھی شیعوں کی تعداد قابل ملاحظہ تھی ۔(۲)
اسی صدی کے آغاز میں ناصراطروش جوکئی سال تک ایران کے شمالی حصوں میں مذھب شیعہ کی تبلیغ کرتارھا تھا طبرستان کے علاقے پربھی قابض ھوگیا تھا اور وھاں اس نے سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی جو کئی پشتوں تک جاری رھی ، اطروش سے پھلے بھی ایک شخص بنام حسن بن زید علوی نے کئی سال تک طبرستان میں حکومت کی تھی ۔(۳)
اس صدی کے دوران فاطمیوں نے جواسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے مصر میں اقتدار حکومت سنبھال لیا اور ۲۹۶ھ سے ۵۲۷ھ تک حکومت کرتے رھے ۔
اسی زمانے میں عام طور پر ایسے حالات پیش آتے رھے کہ بڑے بڑے اسلامی شھروں مثلا ً بغداد ، بصرہ او رنیشاپور میں شیعہ ۔سنی فرقوں کے درمیان کبھی کبھی کشمکش اور جنگ شروع ھوجاتی تھی اوران جنگوں میں سے بعض میں شیعوں کوکامیابی ھوتی تھی ۔
حوالہ
۱۔ کتب تواریخ کی طرف رجوع کریں۔
۲۔ الحضارة الاسلامیہ ج / ۱ ص / ۹۷۔
۳۔ مروج الذہب ج / ۴ ص / ۳۷۳ ، الملل و النحل ج / ۱ ص / ۲۵۴۔

Add comment


Security code
Refresh