www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شیعہ حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار ھونے اور ان کی خلافت بلافصل کے معتقد ھونے کے عنوان سے رحلت پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ابتدائی دنوں میں ھی مشھور ھو گئے تھے۔

 البتہ کچھ معتبر روایتیں نیز پائی جاتی ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ لفظ شیعہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں چار صحابیوں پر اطلاق ھو چکا تھا جو عبارت ہیں سلمان فارسی، مقداد، ابوذر اور عمار یاسر سے۔
 شیعہ لغت اور اصطلاح میں
لغت میں لفظ شیعہ کے دو معنی ہیں؛
۱۔ کسی بات پر دو یا چند لوگوں کا متفق ھو جانا۔
۲۔ کسی ایک شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کی پیروی کرنا۔ (۱)
اور اصطلاح میں مسلمانوں کے اس گروہ کو شیعہ کھا جاتا ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت اور امامت کے معتقد ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ امام، نص شرعی کی بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین ھوتا ہے۔ اور حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیھم السلام کی امامت نص شرعی کے ذریعے ثابت ہے۔(۲)
حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں اور چاھنے والوں پر لفظ شیعہ کا اطلاق سب سے پھلے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرف سے ھوا ہے۔ یہ بات معتدد حدیثوں سے ثابت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سے مروی ہیں۔ جیسا کہ سیوطی نے جابر بن عبد اللہ انصاری، ابن عباس اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ بینہ کی ساتویں آیت "ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات اولئك هم خیر البریّه" کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: تم اور تمھارے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ھوں گے۔ (۳)
تاریخ شیعہ میں معتدد فرقے وجود میں آئے کہ جن میں سے بھت سارے ختم ھو گئے ان کے بارے میں گفتگو کا کوئی فائدہ نھیں ہے شیعوں کے وہ فرقے جو موجود ہیں درج ذیل ہیں: شیعہ اثنا عشری، شیعہ زیدیہ، شیعہ اسماعیلیہ۔ ان میں سے ھر ایک کے سلسلے میں ایک الگ باب میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ھم اس مختصر تحریر میں صرف شیعہ اثنا عشری کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں:
وجہ تسمیہ
شیعوں کی اکثریت شیعہ امامیہ یا شیعہ اثنا عشری کھلاتی ہے دیگر مسلمانوں سے ان کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ بارہ اماموں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں اثنا عشری یعنی بارہ امامی کھا جاتا ہے۔ بارہ اماموں کے نام اور ان کی خصوصیات ان احادیث میں مفصل بیان ھوئی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: ۱؛ علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔ ۲؛ حسن بن علی علیہ السلام ۔ ۳؛ حسین بن علی علیہ السلام ۔۴؛ علی بن حسین علیہ السلام ۔ ۵؛ محمد بن علی علیہ السلام ۔ ۶؛ جعفر بن محمد علیہ السلام ۔ ۷؛ موسی بن جعفر علیہ السلام ۔ ۸؛ علی بن موسی علیہ السلام ۔ ۹؛ محمد بن علی علیہ السلام ۔ ۱۰؛ علی بن محمد علیہ السلام ۔ ۱۱؛ حسن بن علی علیہ السلام ۔ ۱۲؛ حجۃ بن حسن علیہ السلام۔
شیعہ اثنا عشری امامت کے مسئلہ پر کافی تاکید کرتے ہیں اور امام کی عصمت اور ان کی افضلیت کو دیگر امت مسلمہ پر ثابت کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف سے امامت کو پھلے تین اماموں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی نسل میں منحصر جانتے ہیں۔ اس خاص عقیدہ کی بنا پر وہ "امامیہ" کے عنوان سے مشھور ہیں۔
شیخ مفید شیعت کی تعریف کے بعد کہ شیعہ علی علیہ السلام کی امامتِ بلا فصل پر عقیدہ رکھتے ہیں فرماتے ہیں: " یہ عنوان شیعوں کے اس گروہ سے مخصوص ہے جو امام کے ھر دور میں موجود ھونے کو نص جلی سے ثابت کرتے اور ھر امام کے معصوم ھونے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور امامت کو پھلے تین اماموں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں منحصر جانتے ہیں"۔ (۴)
شیعت کی پیدائش کی تاریخ
اگر چہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے میں کچھ مسائل کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف وجود پا چکا تھا۔ (۵) لیکن وہ فرقوں کی کثرت جو آپ کے بعد وجود میں آئی وہ پھلے نہ تھی۔ آپ کی رحلت کی فورا بعد ھی امت میں اختلاف وجود میں آگیا جس کی بنا پر مسلمان فرقوں میں بٹنا شروع ھو گئے۔ اھم ترین اختلاف جو ان ابتدائی ایام میں وجود میں آیا وہ سرکار دوعالم کی جانشینی اور امامت کے مسئلہ میں وجود میں آیا جس نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
ایک گروہ معتقد تھا کہ امامت بھی نبوت کی طرح ایک الھی مقام و منصب ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین کے شرائط میں سے کم سے کم ایک شرط یہ ھونا چاھیے کہ جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین ھو وہ خود آپ کی طرح ھر طرح کے گناہ اور خطا سے معصوم ھو۔ اور اس صفت کو سوائے اللہ کے کوئی کسی میں اثبات نھیں کر سکتا اور نہ اس کے بارے میں جان سکتا ہے۔ اس بنا پر امام کا تعین کرنا خود خالق کائنات کا کام ہے جس نے بشریت کی ھدایت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
 اس عقیدہ کی بنا پر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں بھت ساری نصوص موجود ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور مسلمانوں کا امام ثابت کرتی ہیں۔
  حضرت علی علیہ السلام، بزرگ اصحاب کا ایک گروہ اور مھاجرین اور انصار کی کثیر تعداد اس نظریہ کی طرفدار تھی۔ اور یہ وھی شیعوں کا عقیدہ ہے جو وہ مسئلہ امامت میں رکھتے ہیں۔
دوسرا گروہ کہ جس کے سربراہ حضرت ابوبکر اور عمر تھے اس عقیدہ کے مالک تھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نھیں کیا۔ اور اس کام کو امت کے سپرد کر دیا۔
 اسی نظریہ کے پیش نظر انھوں نے مسئلہ امامت و خلافت کی اھمیت کو سمجھتے ھوئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے فورا بعد ھی حتی آپ کے جنازے میں شرکت کو بھی ترک کر کے اس حال میں کہ حضرت علی علیہ السلام اور کچھ گنے چنے افراد آپ (ص) کی تجھیز ، تکفین و تدفین میں مشغول تھے سقیفہ بنی ساعدہ میں مھاجرین اور انصار کو جمع کر کے مسئلہ خلافت کے سلسلے میں بحث و مباحثہ کا آغاز کر لیا اور اسی گفتگو کے دوران عمر نے ابوبکر کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر کے قصہ تمام کر دیا اور حضرت ابوبکر کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر دیا۔ اور حاضرین مجلس میں سے اکثر نے ان کی بیعت کر لی اور کچھ نے ناراضگی کا اظھار کیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے دنیائے اسلام کے سیاسی اور سماجی شرائط کو مد نظر رکھتے ھوئے اور نومولود اسلام کی حیات کو باقی رکھنے اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ ڈالنے سے پرھیز کرتے ھوئے خاموشی اختیار کر لی اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے اٹھتے تو یقینا مسلمانوں کے درمیان کافی اختلاف وجود میں آجاتا جنگ و جدال و قتل و غارت کا سلسلہ شروع ھو جاتا اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو موقع مل جاتا کہ وہ اسلام کو نقصان پھنچائیں۔ انھی تمام مسائل کو پیش نظر رکھ کر امیر المومنین علی علیہ السلام نے گوشہ نشینی اختیار کی اور صبر سے کام لیا۔
اگر چہ جھاں جھاں موقع ملا آپ نے اپنے حق کا مطالبہ کیا اور اپنے عقیدہ کا اظھار کیا۔ لیکن کبھی بھی کوئی جھگڑالوں بات یا اقدام نھیں کیا۔ اور خاموشی سے اسلامی سماج کی ھدایت اور رھبریت میں مشغول رھے۔ اور ضرورت پڑنے پر خلفائے وقت کی بھی رھنمائی اور مدد کرتے اور عالم اسلام کی مشکلات حل کرتے رھے۔ یھاں تک کہ خلیفہ دوم نے کئی بار کھا: " اگر علی نہ ھوتے تو میں ھلاک ھو جاتا" اور نیز کھا: " خدایا مجھے کسی ایسے مسئلہ میں گرفتار نہ کرنا جھاں علی موجود نہ ھوں"۔(۶)
بھر حال شیعہ علی علیہ السلام کے پیروکار ھونے اور ان کی خلافت بلافصل کے معتقد ھونے کے عنوان سے رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ابتدائی دنوں میں ھی مشھور ھو گئے تھے۔ البتہ کچھ معتبر روایتیں نیز پائی جاتی ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ لفظ شیعہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ کے زمانے میں چار صحابیوں پر اطلاق ھو چکا تھا جو عبارت ہیں سلمان فارسی، مقداد، ابوذر اور عمار یاسر سے۔ (۷)
یہ افراد منجملہ وہ لوگ ہیں جو مسئلہ امامت اور خلافت میں علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بلافصل جانشین مانتے تھے اس خاصیت اور اس نظریہ کے ساتھ کہ شیعہ امامت کے مسئلہ میں امامت کو کتاب و سنت کی نصوص سے مستند کرتے ہیں یہ کھا جا سکتا ہے کہ شیعت حقیقت میں اسلام واقعی کا دوسرا نام ہے۔
منبع: علی ربانی گلپائگانی، درآمدی بر علم کلام، ص۱۷۹۔
حوالہ جات
۱۔ "الشیعه القوم الذین تجتمعوا علی امر، و كل قوم اجتمعوا علی أمر فهم شیعه، و كل قوم أمرهم واحد یتبع بعضهم رأی بعض هم شیع". لسان العرب، كلمه‌ شیع، المیزان، ج17، ص147.
۲۔ اوائل المقالات، ص35، الملل و النحل، ج1، ص146.
۳۔ الدر المنثور، ج8، ص589، ط دارالفكر. نیز به الغدیر، ج2، ص57ـ58 رجوع شود.
۴۔ اوائل المقالات، ص38.
۵۔ اس سلسلے میں كتاب النص و الاجتهاد، تألیف امام شرف الدین کی طرف رجوع کیا جائے۔
۶۔ مزید آشنائی کے لیے کتاب الغدیر، ج1 کی طرف رجوع کیا جائے۔
۷۔ فرق الشیعه، ص17ـ18، اعیان الشیعه، ج1، ص18ـ19.
ترجمہ: افتخار علی جعفری
 

Add comment


Security code
Refresh