www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا


اگرچہ حضرت علی علیہ السلام اپنی چار سال اورنو مھینے کی خلافت کے دوران اسلامی حکومت کے درھم برھم حالات کو مکمل طور پر سنبھال نہ سکے او راس کو اپنی پھلی حالت میں لانے میں کامیاب نہ ھوسکے لیکن تین پھلوؤں سے آپ کو کامیابی بھی حاصل ھوئی :
۱۔ آپ نے اپنی منصفانہ سیرت کے ذریعے پیغمبر اکرم(ص) کی پرکشش اور ھردلعزیز شخصیت کو عوام اور خاص طور پرجدید نسل کے سامنے پیش کیا ۔ معاویہ کی شاھانہ شان و شوکت کے مقابلے میں آپ ھمیشہ غریبوں اور فقیروں کی طرح اور بیکس وناداروں افراد کی مانند زندگی گزارتے تھے اور ھرگز اپنے دوستوں ،اعزاء و اقارب او رخاندان کے افراد کو دوسروں پر ترجیح اور امیر کو غریب پر یا طاقتور کو کمزور پر فوقیت نھیں دیتے تھے ۔
۲۔ ان تمام طاقت فرسا اور طولانی مشکلات کے باوجود آپنے معارف الھی اور علوم انسانی کے گرانبھا اور قیمتی ذخائردنیاکے حوالے کئے ھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام کے مخالفین کا دعوی ھے کہ آپ بڑے بھاد ر اور شجاع انسان توتھے لیکن اچھے سیاستداں نھیں تھے کیونکہ اپنی خلافت کے اوائل میں مخالف عناصر کے ساتھ وقتی طور پر صلح کرکے ان کو راضی رکہ سکتے تھے اور اس طرح اپنی خلافت کومستحکم اور مضبوط بنانے کے بعد ان کا قلع قمع کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسانھیںکیا۔
ان افراد نے اس نکتہ کو نظرانداز او ر فراموش کردیا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ایک انقلابی تحریک تھی اور ایک انقلابی تحریک کو بے جا تعریف ، چاپلوسی ، ظاھرپرستی اور ریا کاری سے دور رھنا چاھئے ۔ ایسی ھی حالت پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں بھی پیش آئی تھی کہ کفار و مشرکین نے کئی بار آنحضرت(ص) کو تجویز پیش کی تھی کہ اگر آنحضرت(ص) ان کے خداؤں کی مخالفت اور توھین نہ کریں یا ان کو برا بھلا نہ کھیں تو وہ بھی ان کی دعوت اور تحریک کی مخالفت نھیں کریں گے لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی یہ تجویز مسترد کردی تھی حالانکہ ان سخت حالات میں ان کی تعریف کرکے یا ان کے ساتھ مصالحت کرکے اپنی حالت اور طاقت کو مضبوط بنا سکتے تھے اور پھر دشمنوں کی مخالفت کرکے ان کا قلع قمع بھی کر سکتے تھے لیکن درحقیقت ایک اسلامی اور انقلابی تحریک ھرگز یہ اجازت نھیں دے سکتی کہ ایک حقیقت کو زندہ کرنے کے لئے دوسری حقیقت کو مٹایا یا پامال کردیا جائے اور ایک باطل کو دوسرے باطل کے ذریعے رفع کیا جائے ۔ قرآن میں متعددآیات اس بارے میں موجود ھیں۔ اس کے برعکس حضرت علی علیہ السلام کے مخالفین اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی جرم، غداری اور اسلامی قوانین کی واضح اور اعلانیہ خلا ف ورزی کو نظر انداز نھیں کرتے تھے اور ھر بدنامی کو اپنے صحابی اور مجتھد ھونے کے بھانے سے دھوڈالتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام اسلامی قوانین پر سختی سے کار بندرھتے تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام سے عقلی ، دینی اور اجتماعی علوم و فنون کے بارے میں گیارہ ھزار مختصر لیکن پر معنی متفرقہ فقرے موجود ھیں ۔(1) آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامی علوم ومعارف (2)کونھایت فصیح و بلیغ اور سلیس و رواں زبان میں بیا ن کیا ھے ۔(3) آپ نے عربی زبان کی گرامر بھی تدوین کی اور اس طرح عربی زبان وادبیات کی بنیادڈالی تھی ۔ آپ اسلام میں سب سے پھلے شخص ھیں جس نے الھی اور دینی فلسفے پرغور و خوض کیا تھا۔ (4)آپ ھمیشہ آزاد استدلال اور منطقی دلائل کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پردنیا کے فلسفیوں نے بھی اس وقت تک توجہ نھیں کی تھی ، آپ نے ان کو پیش کیا اور اس بارے میں اس قدر توجہ اورانھماک مبذول فرماتے تھے کہ حتیٰ عین جنگ کے دوران(5) بھی آپ(ع) علمی بحث ومباحثہ میں مشغول ھوجاتے تھے ۔
۳۔ آپ نے اسلامی ، مذھبی اور دینی دانشوروںپرمشتمل ایک بھت بڑی جماعت تربیت دی تھی (6)کہ ان افراد کے درمیان نھایت پارسا ، زاھد اور اھل علم و معرفت افرادمثلا ً اویس قرنی ، کمیل بن زیاد ، میثم تماراور رشید ھجری وغیرہ موجود تھے جواسلامی عرفاء اورعلماء میں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پھچانے جاتے ھیں ۔ اس کے علاوہ ایک دوسری جماعت کی تشکیل اورتربیت کی تھی جس میں بعض لوگ علم فقہ ، علم کلام ، علم تفسیر اور علم قراٴت وغیر ہ میں اپنے زمانے کے بھتیرین علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھے ۔
حوالہ:
۱۔ کتاب الغرر و الدرر آمدی و متفرقات جوامع الحدیث۔
۲۔ مروج الذھب ج / ۲ ص / ۴۳ ، تاریخ ابن ابی الحدید ج / ۱ ص / ۱۸۱۔
۳۔ اشباہ و نظائر سیوطی در نحو ج / ۲ ، تاریخ ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص / ۶
۴۔ نھج البلاغہ کی طرف رجوع کریں۔
۵۔ بحار الانوار ج/ ۲ ص / ۶۵۔
۶۔ تاریخ ابن ابی الحدید ج / ۱ ص / ۶۔۹۔

Add comment


Security code
Refresh