www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا


شیعہ جماعت کا عقیدہ تھاکہ اسلام کی آسمانی اور خدائی شریعت جس کا سارا مواد خدا کی کتاب اور پیغمبر اکرم (ص)کی سنت میں واضح کیا جاچکا ھے ، قیامت تک اپنی جگہ پر قائم ودائم ھے اور ھرگز قابل تغییر نھیں ھے ۔ لھذا اسلامی حکومت کے پاس اس قانون شریعت کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے کوئی عذر یابھانہ نھیں ھے کہ اس شریعت کی خلاف ورزی

کرے ۔اسلامی حکومت کا اولین فرض یہ ھے کہ شریعت اسلامی کی حدود میں مشورے اورمصلحت وقت کے پیش نظر فیصلے کرے اور قدم اٹھائے لیکن شیعوں کی سیاسی و مصلحتی بیعت اور اسی طرح کاغذ ، قلم اور دوات کا واقعہ جو پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخری ایام میں پیش آیا تھا ، سے ظاھر تھاکہ انتخابی خلافت کے طرفداروں اور اس کے چلانے والوں کا اعتقاد تھا کہ خدا کی کتاب (قرآن مجید )بنیادی قانون کی طرح محفوظ رھے لیکن پیغمبراکرم (ص) کی احادیث اور سنت اپنی جگہ پر ثابت نھیں سمجھتے ان کا عقیدہ تھا کہ اسلامی حکومت ، زمانے کی ضروریات او ر مصلحت وقت کے سبب اسلامی احکام کے نفاذ کو نظر انداز کرسکتی ھے اور یہ عقیدہ ان بھت سی احادیث وروایات کے ذریعے جو بعد میں نقل ھوئیں ، صحابہ کے حق میں ثابت ھوگیاتھا کہ وہ مجتھد ھیں اور اگر اجتھاد یا مصلحت اندیشی میں اختلاف کریں تومجبورھیں اور خطاکریں تو معذور ۔ اس کا اھم ترین نمونہ وہ ھے جبکہ خلیفہ کا گورنر خالد بن ولید رات کے وقت ایک مشھور مسلمان (مالک بن نویرہ) کے گھر مھمان ھوا اور پھر موقع پاکر اس کو قتل کردیا ۔ اس کا سرکاٹ کر بھٹی میں جلادیا اور پھر اسی رات مالک بن نویرہ کی بیوی کے ساتھ اس نے زنا کیا ۔ اس شرمناک واقعے کے بعد چونکہ خلیفۂ وقت کوایسے گورنرکی ضرورت تھی لھذا شریعت کی حد کو خالد بن ولید کے حق میں جاری نہ کیا گیا ۔ (۱) اسی طرح اھلبیت(ع) کو خمس کا حصہ نہ دیا گیا، پیغمبر اکرم کی احادیث کا لکھنا بالکل ممنوع کردیا گیا ، اگر کوئی حدیث کسی جگہ لکھی ھوئی نظر آتی یا کسی سے ملتی تواس کو فوراً ضبط کرکے جلا دیاجاتا(۲)۔ یہ ممنوعیت تمام خلفا ئے راشدین کے زمانے سے لیکر عمربن عبد العزیز اموی خلیفہ (۹۹تا ۱۰۲ھجری )کے عھد تک جاری رھی (۳)۔ خلیفہ دوم کے زمانے میں یہ سیاست بالکل واضح ھوگئی تھی ۔ خلیفۂ وقت نے بعض شرعی احکام مثلاً حج تمتع ، نکاح متعہ اوراذان میں” حی علی خیر العمل“ کھنا ممنوع قرار دیدیاتھا۔ تین طلاق دینے کی رسم نافذ کی گئی اور ایسے ھی کئی دوسرے احکام۔(۴) ان کی خلافت کے دوران بیت المال کا حصہ عوا م کے درمیان فرق اور اختلاف سے تقسیم ھوا (۵)جس کے نتیجے میں عجیب طبقاتی اختلاف اور خطرناک خونی مناظر سامنے آئے ۔ ان کے زمانے میں معاویہ، شام میں قیصروکسریٰ جیسے شاھانہ ٹھاٹ باٹ اور رسم و رواج کے ساتھ حکومت کرتا تھا ۔یھاں تک کہ خلیفہ ٴوقت بھی اسے کسریٰ عرب (عرب کا بادشاہ )کھہ کر خطاب کیاکرتا اور کبھی اس کے اس حال پر اعتراض نہ کرتاتھا ۔
خلیفہٴ دوم ۲۳ ھ میں ایک ایرانی غلام کے ھاتھوں قتل ھوئے اورچھ رکنی کمیٹی کی اکثریت رائے سے جو خلیفہ دوم کے حکم سے تشکیل پائی تھی ،خلیفۂ سوم نے زمام امور سنبھالی ۔انھوںنے اپنے عھد خلافت میں اپنے اموی خویش واقارب کو لوگوں پر مسلط کردیا تھا اور اس طرح حجاز ، عراق ، مصر اورتمام اسلامی ممالک میں عنان حکومت ان کے ھاتہ میں سونپ دی تھی (۶)۔ انھوں نے لاقانونیت کی بنیادرکھی اور آشکار ا طور پر ظلم وستم اور فسق وفجور اور اسلام کی خلاف ورزی اسلامی حکومت میں شروع کردی تھی۔ دارالخلافہ میں ھر طرف سے شکایتوں کے طومار آنے لگے لیکن خلیفہ اپنی اموی کنیزوں ، لونڈیوں اور خاص کر مروان بن الحکم (۷)کے زیر اثر ان شکووں اور شکایتوں پرتوجہ ھی نہ کرتے تھے اور اس طرح ظلم وستم کا انسداد کرنے کی نوبت ھی نہ آتی تھی بلکہ کبھی کبھی حکم دیتے کہ شکایت کرنے والوں پر مقدمہ چلایاجائے اورآخر کار ۳۵ھ میں لوگوں نے ان کے خلاف مظاھرے کئے اور چند روز تک ان کے مکان کو گھیرے رکھا اور پھر ماردھاڑ کے بعد ان کو قتل کردیاگیا ۔ خلیفہ ٴسوم نے اپنے دور ان خلافت میں شام کی حکومت معاویہ کو دے رکھی تھی جو ان کے اموی خویش واقارب میں بھت ھی اھم شخص تھا ۔ وہ معاویہ کو زیادہ سے زیادہ مدد دیتے اوراس کو مضبوط کیا کرتے تھے ۔ در اصل شام خلافت کا اصلی مرکز بن چکا تھا اور مدینہ میں صرف نا م کی حکومت باقی رہ گئی تھی ۔ (۸)خلیفہ ٴاول کی خلافت اکثریت صحابہ کی رائے اور انتخاب سے معین ھوئی تھی اور خلیفہ دوم ، اول کی وصیت سے منتخب ھوئے اور خلیفہ سوم چھ رکنی مشاورتی کمیٹی کی رائے کے ساتھ انتخاب کئے گئے تھے اس کمیٹی کا دستور العمل اورمنشو ربھی خود خلیفۂ دوم نے ترتیب دیا تھا ۔مجموعی طور پر تین خلفاء کا انتظام حکومت داری ،جنھوں نے ۲۵ سال تک حکومت کی تھی ، یوں تھا کہ اسلامی قوانین ، اجتھاد اور مصلحت وقت کے مطابق معاشرے میں نافذ کئے جائیں اور اس مصلحت بینی کو خود خلیفۂ وقت تشخیص دے ۔
اس زمانے میں اسلامی علوم ومعارف کاطریقہ یہ تھا کہ صرف قرآن کو وہ بھی کسی تفسیر اور غور و خوض اور معانی کو سمجھے بغیر پڑھا اور پیغمبر اکرم کی احادیث کو لکھے بغیر ھی بیان کیاجائے یعنی سننے یابتانے سے تجاوز نہ کیا جائے ۔ قرآن کریم کی کتابت پربھی اجارہ داری تھی ۔ حدیث کی کتابت تو ممنوع ھی تھی ۔ (۹)جنگ یمامہ جو۱۲ھ میں ختم ھوئی تھی اور اس جنگ میں صحابہ اور قرآن کے قاریوں کی ایک بھت بڑی تعداد شھید ھوگئی تھی ،کے بعد عمر بن الخطاب نے خلیفہ ٴاول کو تجویز پیش کی کہ قرآنی آیات کو ایک مصحف (جلد )میں جمع کردیاجائے کیونکہ خدانخوستہ اگر ایسی ھی ایک اورجنگ رونما ھوگئی اورباقیماندہ قاری بھی شھید ھوگئے تو قرآن مجید ھمارے ھاتھوں سے نکل جائے گا۔لھذا ضروری ھے کہ قرآنی آیات کو ایک مصحف (جلد )میں جمع کردیاجائے ۔ (۱۰)قرآن مجید کے بارے میں تویہ فیصلہ کردیاگیا مگر احادیث رسول اکرم (ص)جوقرآن مجید کے بعد دوسرے درجے پرآتی ھیں، کے بارے میں کوئی اقدام نھیں کیاگیاجبکہ احادیث کو بھی وھی خطرہ در پیش تھایعنی معانی اورکتابت میں کمی بیشی ، جعل ، فراموشی اور دست بردسے محفوظ نھیں تھیں لیکن احادیث شریف کی حفاظت کے لئے کوئی کوشش نہ کی گئی بلکہ احادیث کی کتابت تک کو ممنوع قراردے دیاگیا۔جب بھی کوئی لکھی ھوئی حدیث ھاتہ لگتی تواس کو جلا دیا جاتا تھا ، یھاں تک کہ اسلامی احکام و ضروریا ت مثلا ً نماز کے بارے میں بھی متضاد اور متعدد احادیث وروایات پیدا ھوگئیںتھیں اسی طرح دوسرے تمام علمی موضوعات کے متعلق بھی کوئی خاطرخواہ اقدا م نہ کیاگیا ۔ قرآن مجید او ر احادیث نبوی میں اجتھادوتفقہ کرنے کے بارے میں جو احترام اور تاکید موجود ھے اور علوم کو وسعت وترقی دینے پر جس قدر زور دیا گیا ھے وہ سب کے سب بے اثر ھوکر رہ گیا ۔ اکثر لوگ اسلامی فوجوں کی پے درپے فتوحات میں سرگرم اور بے اندازہ مال غنیمت سے راضی اورخوش تھے جو ھر طرف سے جزیرة العرب میں آرھاتھا ، لھذا اب خاندان رسالت مآب کے علوم کی طرف کوئی توجہ نہ تھی جس کے بانی حضرت علی علیہ السلام تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کو سب سے زیادہ عالم اور قرآن و اسلام کا شناسا کھہ کر لوگوں سے متعارف کرایا تھا ۔ حتیٰ کہ قرآن شریف کو جمع کرنے کے واقعے میں (باوجودیہ کہ سب جانتے تھے کہ آپ نے رسول اکرم کی رحلت کے بعد ایک مدت تک گوشۂ عزلت میں بیٹھ کر قرآن مجید کو ایک مصحف میں جمع کردیا تھا )بھی آپ کوشامل نہ کیا گیا (۱۱)، حتیٰ کہ آپ کا نام تک نہ لیا گیا۔ یہ اور ایسے ھی دوسرے امور تھے جو حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کواپنے عقیدے میں زیادہ سے زیادہ راسخ اور مضبوط کررھے تھے اور ان کو واقعات سے متعلق زیادہ ھوشیا ر بنا رھے تھے ۔ اس طرح روز بروز یہ لوگ اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کررھے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام بھی جو تمام لوگوں کی تربیت کرنے سے قاصر تھے صرف اپنے خاص لوگوں کی تربیت پر توجہ دے رھے تھے ۔
ان پچیس بر سوں میں حضرت علی علیہ السلام کے چار خاص اصحاب اور دوستوں میں سے تین وفات پاگئے تھے جوھر حال میں آپ کی پیروی میں ثابت قدم رھے تھے یعنی سلمان فارسی ، ابوذر غفاری اور مقداد لیکن اس مدت میں اصحاب اور تابعین کی ایک خاصی بڑی جماعت حجاز ، یمن ، عراق اور دوسرے ممالک میں حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں میں شامل ھوگئی تھی اورآخر کار خلیفہ ٴسوم کے قتل کے بعد ھرطرف سے عوام نے آپ کی طرف رجوع کرنا شروع کردیا تھا یھاں تک کہ آپ کے ھاتہ پر بیعت کرکے آپ کو خلافت کے لئے انتخاب کرلیا ۔
حوالہ:
۱۔ تاریخ یعقوبی ج/ ۲ ص /۱۱۰ ، تاریخ ابی الفداء ج/ ۱ ص / ۱۵۸۔
۲۔ کنز العمال ج / ۵ ص / ۲۳۷ ، طبقات ابن سعد ج/ ۵ ص /۱۴۰۔
۳۔ تاریخ ابی الفداء ج/ ۱ ص / ۱۵۱۔
۴۔ تاریخ یعقوبی ج/ ۲ ص / ۱۳۱ ، تاریخ ابی الفداء ج / ۱ ص / ۱۶۰۔
۵۔ اسد الغابہ ج / ۴ ص / ۳۸۶ ، الاصابہ ج / ۳۔
۶۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص /۱۵۰ ، تاریخ ابی الفداء ج / ۱ ص /۱۶۸ ، تاریخ طبری ج / ۳ ص / ۳۷۷۔
۷۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۰ ، تاریخ طبری ج / ۳ ص / ۳۹۷۔
۸۔ تاریخ طبری ج / ۳ ص / ۳۷۷۔
۹۔ صحیح بخاری ج/ ۶ ص / ۹۸ ، تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۱۳۔
۱۰۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۱۱ ، تاریخ طبری ج / ۳ ص / ۱۲۹ ۔۱۳۲۔
۱۱۔ تاریخ یعقوبی ج/ ۲ ص / ۱۳، تاریخ ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص/ ۹۔

Add comment


Security code
Refresh