www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کتاب خدا ( قرآن مجید ) ھر قسم کے اسلامی تفکر کا بنیادی مآخذ ھے ، اور یہ قرآن کریم ھی ھے جو دوسرے تمام دینی مآخذ کے ثبوت کو اعتبار بخشتا ھے اور ان کے معتبر ھونے کی سند دیتا ھے یھی وجہ ھے کہ قرآن مجید سب کے لئے قابل فھم ھے ۔ 

اس کے علاوہ خود قرآن کریم اپنے آپ کو ” نور “ اور ھر چیز کو واضح کرنے والا بتاتا ھے اورچیلنج کرتے ھوئے لوگوں سے درخواست کرتا ھے کہ قرآنی آیات میں غور و خوض اور فکر کریں کہ اس کی آیات میں کسی قسم کا اختلاف اور تضاد موجود نھیں ھے اور اگر نھیں مانتے تو اس کی مانند کتاب لکہ کر لائیں اور اس کے ساتھ مقابلہ و معارضہ کریں ۔ واضح رھے کہ اگر قرآن مجید سب لوگوں کے لئے قابل فھم نہ ھوتا تو اس قسم کی حقانیت کے کوئی معنی ھی نہ ھوتے ۔
البتہ ھرگز یوں نھیں سمجھنا چاھئے کہ قرآن مجید جو خود بخود قابل فھم ھے اور گزشتہ مطلب کے منافی ھے جس میں کھا گیا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اھلبیت علیھم السلام اسلامی معارف اور علوم میں علمی مراجع (دینی اورعلمی رھبر ) ھیں اور وہ خود در حقیقت قرآن کریم کے مضامین میں سے ھیں کیونکہ بعض معارف اور علوم جن کو شریعت کے احکام اور قوانین کھا جاتا ھے ، قرآن مجید ان کو مجموعی اور کلی طور پر بیان کرتا ھے لیکن ان کی تفصیلات کو جاننے کے لئے مانند نماز ، روزہ وغیرہ اور اسی طرح لین دین اور دوسری عبادات وغیرہ سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھلبیت علیھم السلام کی احادیث کی طرف رجوع کرنے سے واضح ھوتے ھیں اور یہ امور و احکام انھیں پر موقوف ھیں ۔
اسلام کا دوسرا حصہ جو اعتقادی اور اخلاقی تعلیمات اور اسی طرح معارف اسلامی پر مشتمل ھے اگر چہ ان کے مضامین اور تفصیلات عام افراد کے لئے قابل فھم ھیں لیکن ان کے معانی سمجھنے کے لئے اھلبیت علیھم السلام کی روش اختیار کرنی چاھئے ۔ اسی طرح ھر قرآنی آیات کو اس کی دوسری آیات کے ساتھ ملا کر معنی ، توضیح اور تفسیر کرنی چاھئے نہ کہ اپنے نظریئے اور خیالات کے مطابق جیسا کہ ھمارے زمانے میں یہ رسم اور عادت عام ھو چکی ھے اور ھم بھی اس طریقے سے مانوس ھو چکے ھیں ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : ” قرآن مجید کی بعض آیات ، بعض دوسری آیات کے ذریعے واضح ھوتی ھیں اور معنی دیتی ھیں ، اور اس کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے متعلق گواھی دیتی ھیں اور ان کی تصدیق کرتی ھیں “( نھج البلاغہ خطبہ ۲۳۱) اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں :” قرآن مجید کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کی تصدیق کرتے ھیں “( در المنثور ج /۲ ص / ۶ ) اور پھر فرماتے ھیں :” جو شخص قرآن مجید کی تفسیر صرف اپنے نظریئے اور اپنی رائے کے مطابق کرے گا وہ اپنے لئے جھنم میں ٹھکانہ بنائے گا “( تفسیر صافی ص / ۸ ۔ بحار الانوار ج /۱۹ ص / ۲۸ )
قرآن سے قرآن کی تفسیر کے لئے ایک بھت ھی سادہ سی مثال وہ ھے جو خدا تعالیٰ قوم لوط کے عذاب کی داستان میں ایک جگہ فرماتا ھے :” ھم ان پر بری بارش کریں گے “ ( سورہ ٴ شعراء / ۱۷۳ ) اور ایک دوسری جگہ اسی لفظ کو ایک دوسرے لفظ کے ساتھ بدل دیتا ھے اور فرماتا ھے :” ھم ان پر پتھروں کی بارش کریں گے “( سورہ ٴ حجر / ۷۴) ان دو آیات کے انضمام سے واضح ھو جاتا ھے کہ بری بارش کا مطلب ” آسمانی پتھر ھے “ اگر کوئی شخص تحقیق و جستجو کے ساتھ اھلبیت علیھم السلام کی احادیث اور ان روایات سے جو مفسرین صحابہ اور تابعین سے ھم تک پھونچی ھیں ، ان کے اندر معنی تلاش کرے تو اس میں کوئی شک و شبہ نھیں رھے گا کہ قرآن سے قرآن کی تفسیر کا طریقہ صرف اھلبیت علیھم السلام سے ھی مختص ھے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh