www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جیسا کہ ھمیں یہ معلوم ھو چکا ھے کہ قرآن کریم اپنے لفظی بیان کے ساتھ دینی مقاصد اور مطلب کو واضح کرتا ھے ، اور لوگوں کو اعتقاد ، ایمان اورعمل کے بارے میں احکام دیتا ھے .

 لیکن قرآن مجید کے مقاصد صرف اسی مرحلے پر منحصر یا ختم نھیں ھوتے بلکہ انھیں الفاظ و عبارات کے اندر اور انھیں مقاصد کے پردے میں ایک معنوی مرحلہ اور کئی دوسرے گھرے مقاصد اپنی بے انتھا وسعتوں کے ساتھ چھپے ھوئے ھیں کہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے اپنے پاک دلوں کے ساتھ ان کو سمجھ سکتے ھیں ۔ 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو قرآن مجید کے خدائی معلم ھیں فرماتے ھیں : ” قرآن مجید کا ظاھر بھت ھی خوش آیند اور خوبصورت ھے اور اس کا باطن بھت ھی گھرا اور وسیع ھے “۔ ( تفسیر صافی ج / ۴ ) پھر فرماتے ھیں :” قرآن مجید کا ایک باطن ھے ( ایک باطنی معنی ھے ) اور ھر باطن کے اندر سات باطن ( معنی ) ھیں اور اسی طرح آئمہ علیھم السلام کی احادیث میں بھی قرآن کے باطن کی طرف بھت زیادہ اشارے ھوئے ھیں “( سفینة البحار تفسیر صافی ص ۱۵۳ ، اور تفسیر مرسلا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث نقل کی گئی ھے اور تفسیر عیاشی ، معانی الاخبار میں بھی ایسی احادیث نقل ھوئی ھیں ) ۔
ان احادیث کی اصل بنیاد اور ساکہ وہ مثال ھے جو اللہ تعالیٰ سورہ ٴ رعد آیت ۱۷/ میں بیان فرماتا ھے اللہ تعالیٰ اس آیہ کریمہ میں آسمانی فیض کو اس بارش سے تشبیہ دیتا ھے جو آسمان سے نازل ھوتی ھے اور زمین و اھل زمین کی زندگیاں اس سے وابستہ ھیں ۔ بارش آنے سے سیلاب جاری ھو جاتا ھے اور سیلاب کے مختلف راستے اپنے اندازے کے مطابق اس پانی کو اپنے اندر کھینچ لیتے ھیں اور ان کے اندر پانی بھر جاتا ھے اور وہ پانی جا ری ھو جاتا ھے ۔ سیلاب کا پانی جھاگ اور کف سے پوشیدہ ھو جاتا ھے لیکن اس جھاگ کے نیچے بھی وھی پانی ھوتا ھے جو زندگی بخش ھے اور لوگوں کے لئے بھت ھی فائدہ مند ھوتا ھے ۔ ( بحار الانوار ج / ۱ ص / ۱۱۷ )
جیسا کہ مندرجہ بالا مثال میں خدا وند تعالیٰ اشارہ کرتا ھے ، آسمانی معارف اور قرآنی علوم جو انسان کی معنویت کو جان بخشتے ھیں ، کو حاصل کرنے میں لوگوں کے فھم و ادراک اور سوچ کی گنجائش بھی مختلف ھوتی ھے بعض لوگ ایسے ھوتے ھیں جو اس چند روزہ عارضی زندگی اور جھان گزراں میں مادے اور مادی زندگی کے علاوہ کسی اور چیز کو کوئی اھمیت ھی نھیں دیتے اور اسی طرح مادی خواھشات کے بغیر کسی دوسری چیز میں زیادہ دلچسپی نھیں لیتے ۔ اور مادی نقصانات کے سوا کسی اور چیز سے نھیں ڈرتے ۔ ان لوگوں کو چاھئے کہ کم از کم اپنے درجات میں اختلاف کے لحاظ سے آسمانی معارف اور علوم کو قبول کریں اور اجمالی اعتقادات پر یقین کریں اور اسلام کے عملی دستور اور قانون پر عمل کریں اور آخر کار خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش اور عبادت ، قیامت کے دن ثواب کی خواھش یا عذاب کے ڈر سے ھی کریں اور ایسے لوگ بھی موجود ھیں جو صفائے باطن اور صفائے فطرت کے ذریعے اپنی سعادت اور خوش بختی کو اس دنیا کی چند روزہ اور عارضی زندگی کی لذتوں میں نھیں جانتے اور اس جھان کے سود و زیان ، نفع و نقصان ، تلخیوں اور شیرینیوں کو ایک دھوکے باز خیال ( سراب ) کے سوا کچھ نھیں سمجھتے اور ایسے ھی اس کاروان ھستی کے گزرے ھوئے لوگ جو گزشتہ زمانے میں سر خرو زندگی گزار کر اس جھان فانی سے رخصت ھو چکے ھیں اور آج ھمارے لئے افسانہ بن چکے ھیں ۔ ان کی زندگیوں اور کارناموں سے عبرت حاصل کرتے رھتے ھیں ۔
یہ لوگ اپنے پاک دلوں کے ذریعے فطری طور پر ابدی دنیا کی طرف متوجہ ھوتے ھیں اور اس نا پائید ار اور عارضی دنیا کے نقوش اور گونا گوں نظاروں کو خدا تعالیٰ کی نشانیوں کے طور پر دیکھتے ھیں لیکن وہ اس کے لئے کسی قسم کی حقیقت ، استقلال اور پائیداری کے قائل نھیں ھوتے ۔
اس وقت یہ لوگ ان زمینی دنیاوی اور آسمانی نشانیوں کے ذریعے خدائے پاک کی لا متناھی عظمت اور طاقت کو اپنے معنوی ادراک کے ساتھ مشاھدہ کرتے ھیں اور ان کے ناپاک دل آفرینش ، فطرت اور حقیقت کے رموز کے واقف اور شیفتہ ھو جاتے ھیں اور وہ لوگ بجائے اس کے کہ ذاتی منفعت پرستی کے تنگ و تاریک غاروں میں مقید ھوں ، ابدی دنیا کی لا متناھی فضا میں پرواز کرتے ھوئے اوپر چلے جاتے ھیں ۔
یہ لوگ جب آسمانی وحی کے ذریعے سنتے ھیں کہ خدائے تعالیٰ بتوں کی پرستش سے منع فرماتا ھے اس کے معنی ظاھری بتوں کے سامنے سجدہ نہ کرنے کے ھیں تو وہ اس ممنوعیت اور ” نھی “ کے ذریعے سمجھ جاتے ھیں کہ خدا کے سوا کسی اورکی پرستش اور اطاعت نھیں کرنی چاھئے کیونکہ اطاعت کی حقیقت بھی بندگی اور سجدہ کرنے کے سوا کچھ نھیں ھے ۔ پھر وہ لوگ اس سے اور زیادہ سمجھ جاتے ھیں کہ خدا کے سوا کسی سے نھیں ڈرنا چاھئے اور نہ ھی کسی سے امید اور توقع رکھنی چاھئے ۔ اس سے بھی اوپر چلے جاتے ھیں اور ان کو معلوم ھو جاتا ھے کہ نفسانی خواھشات کے سامنے بھی سر تسلیم خم نھیں کرنا چاھئے پھر اس سے بھی زیادہ سمجھ جاتے ھیں کہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف نھیں توجہ کرنی چاھئے ۔
اسی طرح جب کہ قرآن مجید کی زبانی سنتے ھیں کہ قرآن کریم نماز کا حکم دیتا ھے اور اس کے ظاھری معنی صرف مخصوص عبادت کی انجام دھی کے ھیں تو باطنی طور پر وہ سمجھ جاتے ھیں کہ جان و دل سے خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سجدہ ریز ھو جانا چاھئے ۔ پھر اس سے زیادہ سمجھتے ھیں کہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ، سچ جاننا چاھئے اور اپنے آپ کو بھول جانا چاھئے اور صر ف خدا کی یاد میں ھی مصروف رھنا چاھئے ۔
جیسا کہ واضح ھے مندرجہ بالا دو مثالوں میں جو باطنی معنی لکھے گئے ھیں وہ امر و نھی کے لفظی معنی نھیں ھیں لیکن جو لوگ وسیع طور پر تفکر کرتے ھیں اور جھان بینی کو خود بینی پر ترجیح دیتے ھیں ان کے لئے ان معانی کا ادراک ناقابل اجتناب ھے ۔
گزشتہ بیان سے قرآن مجید کے ظاھری اور باطنی معنی واضح ھو گئے ھیں اور یہ بھی واضح ھو گیا ھے کہ قرآن مجید کا باطن اس کے ظاھر کو منسوخ نھیں کرتا بلکہ اس روح کی طرح ھے جو اپنے جسم کو زندگی اور جان دیتی ھے ۔ اسلام ایک عمومی اور ابدی دین ھے جو انسانیت کی اصلاح اور بھتری کے لئے آیا ھے اور اس کے سامنے معاشرے اورانسانوں کی اصلاح بھت زیادہ اھمیت رکھتی ھے لھذا اسلام اپنے ظاھری قوانین سے جو معاشرے کی اصلاح کے لئے ھیں اور اپنے سادہ عقائد سے جو مذکورہ قوانین کے نگھبان اور محافظ ھیں ، ھر گز ھاتہ نھیں اٹھاتا ، یا ان کو نظر انداز نھیں کرتا۔
یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک معاشرہ اس فریب اور دھوکے کے ساتھ کہ انسان کا دل پاک ھونا چاھئے اور عمل کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ ھرج و مرج اور افرا تفری کے ساتھ زندگی گزارے اور پھر بھی سعادت اور خوش بختی کو حاصل کرے ؟ اور پھر یہ بھی کیسے ممکن ھو سکتا ھے کہ نا پاک کردار اور گفتار ، ایک پاک دل کو جنم دے سکے یا ایک پاک دل سے نا پاک کردار اور گفتار جنم لے ؟ خداوند تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتا ھے :” پاک لوگ پاک لوگوں میں سے ھیں اور نا پاک لوگ نا پاک لوگوں میں سے ھیں ۔
پھر فرماتے ھے : ” اچھی زمین اپنی نباتات کو اچھی طرح پرورش کرتی ھے اور بری زمین سے برے فصل کے سوا کچھ پیدا نھیں ھوتا “ ۔ ” و البلد الطیب یخرج بناتہ باذن ربہ ، و الذی خبت لا یخرج الا نکدا ، کذٰلک نصرف الاٰیٰت لقوم یشکرون “ (سورہ ٴ اعراف / ۵۸)
گزشتہ بیان کے ذریعے واضح ھو گیا ھے کہ قرآن مجید میں ظاھر اور باطن موجود ھے اور پھر باطن کے مختلف درجات ھیں اور وہ احادیث نبوی جو قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کرتی ھیں ، اگلے صفحات میں آئیں گی ۔  

Add comment


Security code
Refresh