www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۱۔ ثقة الاسلام شیخ محمد بن یعقوب کلینی ( وفات ۳۲۹ھء ) شیعوں میں سے پھلے شخص تھے جنھوں نے شیعہ روایات و احادیث کو اصول سے ( ھر محدث نے جو احادیث ائمہ اھلبیت علیھم السلام سے اخذ کی ھیں

 ان کو جمع کرتے تھے اور مذکورہ کتاب کو ” اصل “ کھا جاتا ھے ) نکال کر اور ان کے بارے میں بڑے غور و خوض سے تحقیق کر کے ان کو ابواب فقہ کی ترتیب اور اعتماد سے مرتب کیا تھا ۔ ان کی کتاب جو ” کافی “ کے نام سے مشھور ھے تین حصوں میں منقسم ھے یعنی اصول ، فروع اور روضہ (متفرقہ ) اور اس کتاب میں سولہ ھزار ایک سو ننانو ے (۱۹۹،۱۶) احادیث ھیںاس طرح یہ کتاب حدیث کی کتابوں میں ایک معتبر اور مشھور کتاب ھے جو دنیائے شیعہ میں موجود ھے اور تین دوسری کتابیں جو ” کافی “ کے بعد آتی ھیں وہ یہ ھیں :” کتاب استبصار “ تالیف شیخ طوسی ( وفات ۴۶۰ھء )
ب۔ ابو القاسم جعفر بن حسن بن یحییٰ حلّی المشھور بہ ” محقق ‘ ( وفات ۶۶۷ھء ) آپ ماھر فقہ اور شعبہ فقیھوں میں سب سے بڑے عالم تھے ، ان کے فقھی شاھکاروں میں سے ایک کتاب ” نافع “ اور دوسری کتاب ” شرائع “ ھے جو سات سو سال تک فقیھوں کے درمیان بھت مشھور اور مقبول رھی ھیں اور ان کتابوں کو بڑی قدر دانی اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے ۔
محقق حلی کے بعد شھید اول شمس الدین محمد بن مکی کو شمار کرنا چاھئے ، جن کو ۷۸۶ھء میں دمشق میں شیعہ ھونے کے الزام میں شھید کر دیا گیا تھا ۔ ان کے فقھی شاھکاروں میں سے ایک کتاب ” لمعہ دمشقیہ “ ھے جو ان کی گرفتاری کے بعد سات دن کے اندر جیل میں لکھی گئی تھی اور اسی طرح شیخ جعفر کاشف الغطاء نجفی ( وفات ۱۲۲۷ھء) کو بھی انھیں دانشوروں میں شمار کرنا چاھئے ۔ان کے فقھی شاھکاروں میں ایک کتاب ” کشف الغطاء “ ھے ۔
ج۔ شیخ مرتضیٰ انصاری شوشتری جنھوں نے ۱۲۸۱ھء میں وفات پائی ، انھوں نے علم اصول فقہ کو کانٹ چھانٹ کر صاف کیا اور علمی اصول کے طریقے کو جو اس فن اور علم کا سب سے اھم حصہ ھے تحریر فرمایا ۔ اب ایک سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ھے کہ ان کا مکتب تمام شیعہ فقھا کے لئے معتبر اور جاری ھے ۔
د۔ خواجہ نصیر الدین طوسی ( وفات ۶۷۶ھء) آپ سب سے پھلے شخص ھیں جنھوں نے علم کلام کو فنی اور ٹیکنیکل شکل میں مدّون کیا اور ان کے علمی شاھکاروں میں سے ایک کتاب ” تجوید الکلام “ ھے جس کو سات سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ھے لیکن یہ کتاب اب تک اھل فن کے درمیان معتبر ھے اور اسی لئے عام و خاص نے اس کتاب پر بھت زیادہ شرحیں لکھیں اور حاشئے بھی لکھے ھیں ، خواجہ نصیر الدین طوسی علم کلام میں بھت مھارت رکھنے کے علاوہ فلسفہ اور ریاضیات میں بھی اپنے زمانے کی ماھر شخصیت رھے ھیں اور اس دعوے کا بھترین ثبوت ان کی گرانقدر تالیفات ھیں جو انھوں نے تمام عقلی علوم میں لکھی تھیں ، ان عقلی علوم میں سے وہ رصد خانہ بھی ھے جو آپ نے مراغہ شھر میں ھلاکو خان کی حکومت میںبنوایاتھا ۔
ھ۔ صدر الدین محمد شیرازی ( ولادت ۷۹ ۹ھء / وفات ۱۰۵۰ھء ) آپ سب سے پھلے فلسفی ھیں جنھوں نے فلسفے کے مسائل کو ( اگر چہ فلسفہ صدیوں تک اسلام میں مختلف مراحل طے کرتا رھا تھا ) انتشار اور پراگندگی سے باھر نکالا اور ریاضی کی طرح اس کو ایک منظم اور مرتب شکل دی ۔
اس طرح سب سے پھلے تو فلسفے کو یہ امکان اور وقار ملا کہ وہ سینکڑوں فلسفی مسائل جو پھلے کبھی فلسفہ میں داخل اور قابل بحث نھیں سمجھے گئے تھے ۔ اب ان کو پیش اور حل کیا گیا ۔ پھر عرفانی مسائل کو ( کہ اس زمانے تک ایسے مسائل کو و رائے عقل کی قسم یا نا قابل ادراک اور ایسی معلومات میں شمار کیا جاتا تھا جو حس و ادراک اور فھم و شعور سے بالاتر ھیں ) بڑاآسان اور قابل بحث بنایا ، اور ان کے بارے میں بحث اور نظریات قائم کئے ۔ تیسرا یہ کہ ظواھر دین ( احکام شرع ) میں بھت سے علمی ذخیرے اور خزانے اور ائمہ اھلبیت علیھم السلام کے گھرے فلسفی بیانات جو صدیوں تک لا ینحل معمہ کے طور پر موجود تھے اور ان میں سے اکثر ” متشابھات “ میں شمار ھوتے تھے ، حل اور واضح ھو گئے اور اسی طرح دینی ظواھر ، عرفان اور فلسفہ میں بھی ایک قسم کی مکمل مفاھمت پیدا ھو گئی اور ان تینوں علوم نے ایک مشترکہ راستہ اختیار کر لیا ۔ صدر المتاھلین سے پھلے بھی بعض دانشمند اور فلسفی پیدا ھوئے تھے ۔ مثلا شیخ شھاب الدین سھروردی مولف کتاب ” حکمة الاشراق “ چھٹی صدی ھجری کے فلسفی اور شمس الدین محمد ترکہ جو آٹھویں صدی ھجری کے فلسفی تھے وغیرہ ، جنھوں نے اس میدان میں موثر قدم اٹھائے لیکن مکمل کامیابی صدر الدین شیرازی صدر المتاھلین کو ھی ملی ۔
صدر المتاھلین اس روش اور طریقے کے ذریعے کامیاب ھو گئے کہ ” جوھری حرکت “ کے نظریئے کو ثابت کریں اور اس کے بعد ” رابع اور نظریہ ٴ اضافیت “ کو ( ذھن کے باھر نہ ذھن اور فکر کے اندر ) دریافت کریں ۔ انھوں نے تقریباً پچاس کتابیں اور رسالے تصنیف و تالیف کئے اور ان شاھکاروں میں سے ایک کتاب ” اسفار “ چار جلدوں پر مشتمل ھے ۔  

Add comment


Security code
Refresh