www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یہ تو مکمل طور پر واضح ھے کہ شیعہ اقلیت ، سنی اکثریت سے ابتدائے اسلام میں ھی جدا اور الگ ھو گئی تھی اور ھمیشہ اپنے مخالفین کے بارے میں خاص نظریات رکھتی تھی

اور اپنے مخالف ( اھلسنت ) کے ساتھ دلائل کے ساتھ بحث کرتی تھی ۔ یہ ٹھیک ھے کہ دلائل کے ساتھ بحث کرنا دو طرفہ ھے اور طرفین اس میں برابر کے شریک ھوتے ھیں لیکن ھمیشہ شیعہ حملہ کرتے تھے اور دوسرے دفاع کرتے تھے اور جو شخص حملے میں پیش قدمی کرتا ھے وہ مجبور ھے کہ کافی ساز و سامان سے لیس ھو ۔ 
پھر وہ ترقی جو تدریجا کلامی بحثوں کو نصیب ھوئی اور دوسری صدی ھجری اور تیسری صدی ھجری کے آغاز میں معتزلی مذھب کے شروع ھو جانے سے یہ ترقی اوج پر پھونچ گئی اور شیعہ محققین اور علماء کتب اھلبیت علیھم السلام کے شاگردوں میں تھے ، بلکہ ان متکلمین ( ماھرین علم کلام ) کا سلسلہ بھی اشاعرہ اور معتزلہ سے ھوتا ھوا شیعوں کے پھلے امام ، حضرت علی علیہ السلام تک پھونچتا ھے ۔
لیکن وہ لوگ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی کتابوں سے پوری طرح واقفیت رکھتے ھیں وہ یہ بخوبی جانتے ھیں کہ صحابہ کی ان تمام کتابوں میں ( جن کی تعداد تقریباً بارہ ھزار تک پھونچتی ھے ) حتیٰ کہ ایک کتاب بھی فلسفی تفکر کے بارے میں نھیں لکھی گئی ھے ، اور صرف حضرت علی علیہ السلام ھی تھے جن کے دلچسپ اور دلکش بیانات ” علم الھیات “ کے عمیق ترین فلسفی تفکر پر مشتمل ھیں ۔
صحابہ اور علمائے تابعین جو اصلی صحابہ کے بعد آتے ھیں اور آخر کار عربی لوگ اس زمانے میں آزاد فلسفی تفکر سے واقفیت اور آشنائی نھیں رکھتے تھے لھذا پھلی صدی کے دانش مندوں اور علماء کے اقوال و بیانات میں فلسفی تحقیق کا کوئی نمونہ دیکھنے میں نھیں آیا ۔ صرف شیعہ اماموں کے پُر مغز بیانات اورخصوصاً امام اول اور امام ھشتم کے بیکراں علمی خزانے فلسفی افکار پر مشتمل ھیں اور انھوں نے ھی اپنے شاگردوں اور ماننے والوں کی ایک اچھی تعداد و جماعت کو اس طرز فکر سے آشنا کیا تھا ۔
عربی لوگ فلسفی طرز فکر سے نا واقف تھے ، یھاں تک کہ دوسری صدی ھجری کے آغاز میں بعض فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ یونانی زبان سے عربی زبان میں کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تیسری صدی ھجری کے اوائل میں یونانی ، سریانی اور دوسری زبانوں سے بھت زیادہ کتابیں عربی زبان میں ترجمہ ھو گئیں ، اس طرح فلسفی طرز تفکر عام لوگوں کی دسترس میں آگیا ، مگر پھر بھی اکثر فقھا ء اور متکلمین ( ماھرین علم کلام ) فلسفہ اور دوسرے تمام عقلی علوم کی طرف ، جو تازہ وارد مھمانوں کی حیثیت رکھتے تھے ، زیادہ توجہ نھیں دیا کرتے تھے ، اور یہ مخالفت شروع شروع میں اس لئے زیادہ موثر واقع نہ ھوئی تھی کیونکہ حکومت ِوقت ان علوم کی حمایت کیا کرتی تھی ، لیکن تھوڑے ھی عرصے بعد حالات بالکل تبدیل ھو گئے اور فلسفے کی کتابوں کے مطالعے کی سخت مخالفت اور ممانعت کے ساتھ ساتھ فلسفے کی تمام کتابوں کو سمندر میں پھینک دیا گیا اور رسائل اخوان الصفا جو مصنفین کی ایک گمنام جماعت کے ذھن کی تراوش ھے ابھی تک اس زمانے کی یاد گار باقی ھے ، یہ رسائل اس بات کی گواھی اور شھادت دیتے ھیں کہ اس زمانے میں کیسے پریشان کن اور آشفتہ حالات تھے، اس زمانے کے بعد چوتھی صدی ھجری کے آغاز میں فلسفہ ، ابو نصر قارابی کے ذریعے دوبارہ زندہ ھو گیا ۔ اور پانچویں صدی ھجری کے شروع میں مشھور فلسفی دانشور بو علی سینا کی کوششوں سے اس علم کی توسیع اور تکمیل ھوئی ، چھٹی صدی ھجری میں بھی شیخ شھاب الدین سھروردی نے فلسفہ اشراق کو پاک کیا ۔ اور اسی جرم کی وجہ سے ھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ایماء پر اس کو شھید کر دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد بھی اکثر لوگوں کے درمیان فلسفہ کی کھانی تقریباً ختم ھو گئی اور کوئی مشھور فلسفی پیدا نہ ھوا سوائے اس کے کہ ساتویں صدی ھجری میں اندلس میں جو اسلامی ممالک میں شمارھوتاتھا ، ابن رشد اندلسی پیدا ھوئے جنھوں نے فلسفے کو پاک و پاکیزہ کرنے کی کوشش کی ۔ ( مندرجہ بالا مطالب اخبار الحکماء اور وفیات ابن خلکان اور دوسری ترجمہ کی کتابوں سے اخذ کئے گئے ھیں )  

Add comment


Security code
Refresh