www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں ( جن کی تعداد کتب رجال میں تقریباً بارہ ھزار ) لکھی ھوئی ھے اور ان کی شناخت ھو چکی ھے ) سے صرف حضرت علی علیہ السلام ھی ھیں

جن کے فصیح و بلیغ بیانات عرفانی حقائق اور معنوی زندگی کے مراحل اور بیکران علمی ذخائر پر مشتمل ھیں ۔ وہ تحریریں جو تمام صحابہ کرام سے ھم تک پھونچی ھیں ان میں اس قسم کے مسائل موجود نھیں ھیں ۔ آپ کے اصحاب اور شاگردوں میں سے بعض سلمان فارسی ، اویس قرنی ، کمیل بن زیاد ، رشید ھجری اور میثیم تمار ایسے اشخاص بھی موجود ھیں جن کو عام اسلامی عارف لوگ حضرت علی علیہ السلام کے بعد اپنے سلسلوں کے بانی اور روحانی مرشد کھتے ھیں ۔ اس گروہ اور طبقے کے بعد بعض دوسرے افراد مثلاً طاؤس یمانی ، مالک بن دینار ، ابراھیم ادھم اور شفیسق بلخی ایسے افراد ھیں جو دوسری صدی ھجری میں پیدا ھوئے تھے اور تصوف و عرفان کو آشکار نہ کرتے ھوئے بھی عام زاھدوں اور لوگوں کے لئے اولیاء اللہ اور پاک بندوں کے طور پر مشھور تھے ،۔ لیکن بھر حال یہ لوگ اپنے سے پھلے طبقے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مخفی نھیں رکھتے تھے ۔ 
اس طبقے کے بعد دوسری صدی ھجری کے آخر اور تیسری صدی ھجری کے آغاز میں ایک دوسرا گروہ پیدا ھوا جن میں با یزید بسطامی ، معروف کرخی ، جنید بغدادی اور ایسے ھی دوسرے اولیاء اللہ حامل ھیں جنھوں نے عرفانی سیر و سلوک کی وادی میں قدم رکھا اور تصوف و عرفان کو آشکار کیا کرتے تھے ۔ یہ لوگ کشف و شھود اور کرامت کا اظھار بھی کیا کرتے تھے ۔ لھذا یہ لوگ اپنے نا شائستہ اور نا پسندیدہ اظھارات وبیانات کی وجہ سے اپنے وقت کے فقیھوں اور متکلمین ( ماھرین علم کلام ) کو اپنے خلاف ابھرنے کا موقع دیا کرتے تھے ، جس کے نتیجے میں انکے لئے بھت زیادہ مشکلات پیدا ھو گئیں ، اس طرح ان میںسے بھت زیادہ افراد کو قید و بند اور شکنجوں کی سزائیں دی گئیں ، حتیٰ کہ بعض کو سولی پر بھی چڑھا دیا گیا ۔
اس کے باوجود یہ لوگ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے اور اس طرح دن بدن طریقت میں توسیع اور ترقی ھوتی رھی ، یھاں تک کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ھجری میں یہ تصوف و عرفان اور طریقت بھت زیادہ وسعت اور طاقت اختیار کر گئی ۔ اس کے بعد کبھی اوج اور کبھی تنزل پر پھونچتی رھی اور آج تک اپنے طریقوں اور زندگی کو جاری رکھے ھوئے ھے ۔
اگر چہ مشائخ عرفان ، جن کے نام تذکروں میں محفوظ ھیں ، ظاھری طور پر مذھب اھلسنت رکھتے ھیں ، اور وہ طریقت جو آج ھم مشاھدہ کرتے ھیں ( کہ ایک قسم کے آداب و رسوم پر مشتمل ھے اور کتاب و سنت میں ایسی ھرگز موجود نھیں ھے ) انھیں کی یاد گار ھے ، پھر ان کے بعض آداب و رسوم شیعوں میں بھی سرایت کر چکے ھیں یا شیعوں سے ملتے جلتے ھیں ۔

جیسا کہ کھا جاتا ھے ، ایک گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ اسلام میں سیر و سلوک کا منصوبہ یا پروگرام صاف طور پر بیان نھیں کیا گیا ھے بلکہ معرفت ِ نفس ( خود ی ) کا طریقہ ھی ایسا ھے جس کو مسلمانوں نے شروع کیا تھا اور یھی خدا کا پسندیدہ اور مقبول طریقہ ھے مثلا رھبانیت کا طریقہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی دعوت حق اور تبلیغ دین میں موجود نہ تھا لیکن عیسائیوںنے خود بخود اس کو گھڑ کر مقبول بنا دیا ھے 
اس طرح مشائخ طریقت میں سے ھر ایک نے جس طرح بھی آداب و رسوم کے مطابق ٹھیک سمجھا اسے اپنے سیر و سلوک کے پروگراموں اور منصوبوں میں جاری کر دیا اور اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ اس طریقے کی پیروی کریں لھذا یہ طریقہ یا پروگرام آھستہ آھستہ ایک مستقل اور وسیع شکل اختیار کر گیا ۔
مثلاً مریدی اختیار کرنے کی رسومات ، ذکر اور وظیفے کی تلقین ، خرقہ پھنانا ، موسیقی کا استعمال ، خوراک و غذا کا پروگرام ، ذکر اور وظیفے کے وقت وجد میں آنا اور کبھی کبھی بعض فرقوں میں نوبت یھاں تک پھونچ گئی کہ شریعت کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا اور پھر شریعت و طریقت میں جدائی پڑ گئی لھذا اس طریقے کے جانبدار اور طرفدار و پیروکار عملی طور پر باطنی فرقے کے ساتھ ملحق ھو گئے ، لیکن شیعوں کے عقیدتی قوانین کے پیش نظر جو چیز حقیقی اسلام اور اس کے اصلی اصولوں اور اسناد سے ثابت ھوتی ھے ( یعنی کتاب و سنت سے ) وہ اس عقیدے اور طریقے کے بالکل خلاف ھے اور اس کا مطلب ھرگز یہ نھیں کہ دینی اسناد وبیانات ( آیات و احادیث ) اس حقیقت کی طرف رھنمائی نھیں کرتے یا اس کے بعض پروگراموں اور منصوبوں کو واضح کرنے میں سستی کرتے ھیں یا کسی شخص کے متعلق ( خواہ کوئی بھی ھو ) فرائض اور حلال و حرام کو نظر انداز کر دیتے ھیں ۔  

Add comment


Security code
Refresh