www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

البتہ مذھبی تفکر کے لئے بھی دوسرے تمام تفکرات کی طرح مآخذ کی ضرورت ھوتی ھے ۔ کیونکہ فکری مواد انھیں سے پیدا ھوتا ھے اور انھیں پر تکیہ کرتا ھے

جیسا کہ ریاضی کا ایک مسئلہ حل کرنے کے لئے تفکر میں معلومات کے تسلسل کو ذھن میں لانا پڑتا ھے جو آخر کار ایک نتیجے پر پھونچ جاتا ھے ۔ صرف ایک مآخذ جس پر آسمانی دین اسلام تکیہ کرتا ھے ( اس لحاظ سے کہ یہ دین آسمانی وحی تک پھونچتا ھے ) قرآن مجید ھی ھے اور قرآن مجید ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور رسالت کی ھمیشگی ، عمومی اور قطعی دستاویز ھے ۔ اس آسمانی کتاب میں جو کچھ لکھا ھوا ھے وہ اسلامی دعوت یا دین کھلاتا ھے ، البتہ قرآن کریم کے واحد اور اکیلے مآخذ کے معنی یہ نھیں ھیں کہ تفکر کے دوسرے صحیح منابع و مآخذ اور دلائل کو باطل یا منسوخ سمجھا جائے جیسا کہ ھم اگلے صفحات میں تفصیلاً بیان کرینگے ۔ 
تین طریقے جن کی طرف قرآن مجید مذھبی تفکر کے لئے رھنمائی کرتا ھے
قرآن کریم اپنی تعلیمات میں معارف اسلامی اور مقاصد دینی کو سمجھنے اور ان تک پھونچنے کے لئے اپنے پیرو کاروں کے سامنے تین طریقے رکھتا ھے ، اور یہ تین راستے ان کو دکھاتا ھے :
۱۔ ظواھر دینی ( شریعت )
۲۔ عقلی حجت
۳۔ معنوی پھچان ( شریعت ، طریقت اور حقیقت ) بندگی اور اخلاص کے ذریعے ۔
اس کی وضاحت یوں ھوتی ھے کہ ھمیں معلوم ھے کہ قرآن کریم اپنے بیانات میں سب انسانوں کو مخاطب کرتا ھے اور کبھی کبھی اپنے قول کے مطابق کسی دلیل ، حجت اور برھان کے بغیر صرف خدا وند تعالیٰ کی فرمان روائی اور حکومت کو قبول کرنے ، اعتقادی اصول مثلاً توحید ، نبوت اور معاد کو ماننے اور اسی طرح عملی احکام مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة وغیرہ کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ھے ۔ اس کے ساتھ ھی بعض اعمال اور کاموں سے منع فرماتا ھے ۔ قرآن کریم اگر ان لفظی بیانات کی دلیل نہ رکھتا تو ھرگز لوگوں کو فرماں برداری اور اس کے قبول کرنے کا حکم کبھی نہ دیتا ، پس ناگزیر یوں کھنا چاھئے کہ قرآن مجید کے ایسے سادہ بیانات ، مقاصد دینی اور معارف اسلامی کو سمجھنے کے لئے ایک مآخذ یا طریقے کا کام دیتے ھیں ۔ ھم لفظی بیانات مثلاً ” اٰمنوا با للہ و رسولہ “ اور ” اقیمو ا الصلاة “ کو دینی ظواھر کھتے ھیں ۔
اور دوسری طرف ھم دیکھتے ھیں کہ قرآن مجیدا پنی بھت زیادہ آیات میں عقلی حجت ( دلیل و برھان یا عقلی دلائل ) کی طرف رھبری و راھنمائی کرتا ھے اور لوگوں کو انفس و آفاق کی نشانیوں میں غور و خوض کرنے کی دعوت دیتا ھے اور خود بھی حقائق کو واضح کرنے کے لئے عقلی دلائل اور استدلال کو بیان کرتا ھے ، حقیقت میں دوسری کوئی آسمانی کتاب قرآن کریم کی طرح اس قدر دلائل علم و معرفت کو انسان کے لئے فراھم نھیں کرتی ۔
قرآن مجید اپنے بیانات کے ذریعے عقلی حجت اور آزاد دلائلی استدلال ( منطق ) کو مسلم سمجھتا ھے یعنی یہ نھیں کھتا کہ سب سے پھلے معارف اسلامی کی حقانیت کو قبول کرو اور پھر عقلی دلائل میں غور کر کے مذکورہ معارف اور علوم کو اس میں سے اخذ کرو ، بلکہ اپنی واقعیت اور حقیقت پر کامل اعتماد رکھتے ھوئے فرماتا ھے کہ عقلی دلائل کو سمجھتے ھوئے مذکورہ علوم اور معارف کی حقانیت پر غور کرو اور پھر اسے قبول کرو اور وہ دعویٰ اور باتیں جو تم اسلامی تحریک ( دین اسلام ) سے سنتے ھو ، تم ان کی تصدیق آفرینش جھان ( دنیا کی حقیقت اور فطرت ) سے کرو جو سچی اور حقیقی گواھی ھے اور پھر سند اور آخر کار صدق و ایمان کو اپنے غور و خوض اور دلائل کے نتیجے کے ذریعے حاصل کرو ، نہ یہ کہ پھلے ایمان لے آؤ اور پھر اس کے مطابق دلائل لاؤ ۔ پس فلسفی تفکر ایک ایسا طریقہ ھے جس کی موجودگی کی قرآن کریم تصدیق کرتا ھے ۔ دوسری طرف ھم دیکھتے ھیں کہ قرآن کریم بھت ھی دلچسپ اور واضح طور پر بیان کرتا ھے کہ دنیاکے سارے حقیقی علوم و معارف ، توحید اور حقیقی خدا شناسی سے سر چشمہ حاصل کرتے ھیں اور خدا شناسی میں کمال صرف وھی لوگ حاصل کر سکتے ھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ھر طرف سے اکٹھا کر کے صرف اپنے لئے مخصوص کر رکھا ھے ۔ یہ وھی لوگ ھیں جنھوں نے ھر طرف سے منہ موڑ کر اور ھر چیز کو بھول کر صرف اپنی بندگی اور اخلاص کی وجہ سے فقط عالم بالا ( خدا ) کی طرف مبذول کر لی ھے اور خدا وند عزوجل کے نور سے ان کی آنکھیں منور اور پر نور ھو چکی ھیں انھوں نے اپنی حقیقت بین آنکھوں سے اشیاء کی حقیقت ، آسمانی فرشتوں اور زمین کی واقعیت کو دیکہ لیا ھے ، کیونکہ اخلاص اور بندگی کے ذریعے وہ عین الیقین تک پھونچ چکے ھیں اور اسی یقین و ایمان کی وجہ سے ان کے سامنے عالم ملکوت ، آسمان ، زمین ھمیشہ کی زندگی اور ابدی دنیا کی حقیقت آشکار اور بے پردہ ھو گئی ھے ۔
ان آیات کریمہ میں توجہ کرنے سے یہ دعویٰ مکمل طور پر واضح ھو جاتا ھے :۔
” و ما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون “ (سورۂ انبیاء / ۲۵) ” اور ( اے رسول ) ھم نے تم سے پھلے جب کبھی کوئی رسول بھیجا تو اس کے پاس ھم یھی وحی بھجتے رھے کہ بس ھمارے سوا کوئی معبود قابل پرستش نھیں تو میری عباد ت کیا کرو “ ۔
اور پھر فرماتا ھے :
” سبحان اللہ عما یصفون ، الا عباد اللہ المخلصون “ (سورۂ صافات / ۱۵۹۔۱۶۰ ) ” یہ لوگ جو باتیں بنایا کرتے ھیں ان سے خدا پاک وصاف ھے مگر وہ لوگ جو خدا کے برگزیدہ اور خالص ھیں “۔
اور پھر فرماتا ھے :
” قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّ انما الٰھکم الٰہ واحد فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا ً صالحاً و لا یشرک بعبادة ربہ احدا “ ( سورہ ٴ مریم / ۱۱۰ ) ” اے نبی کھدو کہ میں بھی تمھاری طرح ایک انسان ھوں لیکن مجھے تمھارے خدا کی طرف سے وحی بھیجی جاتی ھے اور تمھارا خدا ایک ھے پس جو کوئی خدا کی ملاقات کا امیدوار ھے اس کو نیک کام کرنے چاھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کے ساتھ عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہ بنائے “۔
پھر فرماتا ھے :
” و اعبدو ربک حتی یاتیک الیقین “ (سورۂ حجرات / ۹۹ ) ” اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو یھاں تک کہ تم یقین ( عین الیقین ) تک پھونچ جاؤ “۔
اور پھر فرماتا ھے :
” وکذٰلک نری ٓ ابراھیم ملکوت السموات و الارض و لیکون من الموقنین “ ( سورۂ انعام / ۷۵)” اور اسی طرح ھم ( اپنے پیغمبر ) ابراھیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھاتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں سے ھو ( اس کو یقین ھو جائے اور اس کا ایمان مزید پختہ ھو جائے “۔
اور پھر فرماتا ھے :
”کلّآ ان کتٰب الابرار لفی علیّین ، و مآ ادرٰک ما علّیّون ، کتٰب مّرقوم یّشھد ہ المقرّبون “ ( سورہ ٴمطففین / ۱۸۔۲۱) ” حقا کہ بے شک نیکو کار لوگوں کا تقدیر نامہ علیین میں لکھا ھوا ھے ۔ کیا تو جانتا ھے کہ علیین کیا چیز ھے ۔ علیین ایک لکھی ھوئی کتاب ھے جس کی گواھی مقربان درگاہ خدا دیتے ھیں “ ۔
اور پھر فرماتا ھے :
” کلّا لو تعلمون علم الیقین ، لترونّ الجحیم “ ( سورۂ تکاثر / ۵۔۶) ” ھر گز نھیں ، کیا تم جانتے ھو کہ علم الیقین کیا ھے ؟ البتہ یہ اس وقت معلوم ھو گا جب تم دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکہ لو گے “ ۔
پس خدائی معارف کو سمجھنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ پاکی نفس اور بندگی میں اخلاص ھے ۔
ان تین طریقوں کے درمیان فرق
پچھلے بیان سے واضح ھو گیا ھے کہ قرآن مجید ، دینی معارف اور مفاھیم کو سمجھنے کے لئے تین طریقے پیش کرتا ھے ، ظواھر دینی ( شریعت ) اوربندگی میں عقل و اخلاص ، حقائق اور باطنی مشاھدات کے موجب ھیں ، لیکن یہ جاننا ضروری ھے کہ یہ تین طریقے چند لحاظ سے باھم فرق رکھتے ھیں ۔
پھلا :” ظواھری دینی “ چونکہ ایسے لفظی بیانات ھیں جو سادہ ترین الفاظ اور بیان میں بتائے گئے ھیں اور ان کو لوگوں کی دسترس اور اختیار میں دیا گیا ھے اور ھر شخص اپنے فھم و عقل کے مطابق ان سے بھرہ مند ھوتا ھے اور فائدہ اٹھاتا ھے ۔ یعنی دوسرے دو طریقوں کے بالکل بر عکس جو ایک خاص گروہ سے تعلق رکھتے ھیں اور عمومی نھیں ھیں ۔
دوسرا :” ظواھری دینی “ کا طریقہ وہ طریقہ ھے جس پر چل کر اصول دینی ، فروعات اور اسلامی معارف کو پھچان کر ایمانی اور عملی دعوت ( اصول معارف اور اخلاق ) تک رسائی حاصل کی جا سکتی ھے ، دوسرے دو طریقوں کے بالکل بر خلاف ، کیونکہ اگر چہ عقل کے ذریعے ، اعتقادی ، اخلاقی اور عملی مسائل کے کلیات کو سمجھا جا سکتا ھے لیکن احکام(شریعت) کی جزئیات چونکہ خاص مصلحتوں کی بنا ء پر عقل کی دسترس میں نھیں دی گئی ھیں لھذا اس کے دائرہ عمل سے خارج ھیں اور اسی طرح تھذیب نفس کا طریقہ ھے ۔ چونکہ اس کا نتیجہ حقائق کے انکشاف پر مبنی ھے اور وہ ایسا علم ھے جو خدا داد ھے اس لئے اس کے نتیجے اور اس سے حاصلہ حقائق کے لئے جو اس خدائی عنایت کے ساتھ ظاھر ھوتے ھیں کوئی حد معین نھیں کی جا سکتی یا اس کا اندازہ نھیں کیا جا سکتا ۔ یہ لوگ چونکہ ھر چیز سے الگ ھو چکے ھیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا انھوں نے ھر چیز کو فراموش کر دیا ھے لھذا وہ براہ راست خدا کی ولایت اور سر پرستی کے دائرے میں چلے جاتے ھیں ، پس خدا کی مرضی اور عنایت سے ( نہ کہ ان کو اپنی مرضی سے ) ھر چیز ان پر منکشف اور ظاھر و واضح ھو جاتی ھے ۔  

Add comment


Security code
Refresh