www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عھد جاھلیت کے دوران ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج تھا اور لوگ مختلف انداز میں اپنے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔

 اس زمانہ میں کعبہ مکمل بت خانہ میں بدل چکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ اقسام اور مختلف شکل و صورت کے بت رکھے ھوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وھاں موجود نہ ھو۔ حج کے زمانے میں ھر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ھوتے، اس کی پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے پکارتے تھے۔

ظھورِ اسلام سے قبل یھود و نصاریٰ بھی جو کہ اقلیت میں تھے، جزیرہ نما عرب میں آباد تھے۔ یھودی اکثر شمال عرب کے گرد و نواح کے علاقوں، مثلاً یثرب، وادی القریٰ، تیما، خیبر اور فدک میں رھا کرتے تھے، جب کہ عیسائی نواح جنوب میں یمن اور نجران جیسی جگھوں پر بسے ھوئے تھے۔

انھی میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو وحدانیت کے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دین کے پیروکار سمجھتے تھے، مورخین نے ان لوگوں کو حنفاء کے نام سے یاد کیا ہے۔

جب حضرت محمد مصطفی پر وحی نازل ھوئی، اس وقت عرب میں مذھب کی جو حالت و کیفیت تھی اسے حضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے:

"واھل الارض یومئذ ملل متفرقة واھواء منتشرة وطرایق متشتة بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھداھم بہ من الضللة وانقذھم بمکانہ من الجھالة"

(اس زمانے میں لوگ مختلف مذاھب کے ماننے والے تھے، ان کے افکار ایک دوسرے کی ضد اور طریقے مختلف تھے۔ بعض لوگ خدا کو مخلوق سے مشابہ کرتے تھے۔ (ان کا خیال تھا کہ خدا کے بھی ھاتھ پیر ہیں اس کے رھنے کی بھی جگہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں) وہ خدا کے نام میں تصرف بھی کرتے۔ اپنے بتوں کو خدا کے مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً لات کو اللہ، عزیٰ کو عزیز اور منات کو منان کے ناموں سے یاد کرتے۔

بعض لوگ خدا کے علاوہ دوسری اشیاء کو بھی پوجتے تھے، بعض لوگ دھریئے تھے اور صرف فطرت حرکات فلکیہ اور گردش زمان ھی کو خود پر موثر سمجھتے تھے۔

خداوند تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ انھیں گمراھی سے نجات دلائی اور آپ کے وجود کی برکت سے انھیں جھالت کے اندھیرے سے باھر نکالا۔

جب ھم بت پرستوں کے گوناگوں عقائد کا مطالعہ کرتے اور ان کا جائزہ لیتے ھیں تو اس نتیجے پر پھنچتے ھیں کہ انھیں اپنے بتوں سے ایسی زبردست عقیدت تھی کہ وہ ان کے خلاف ذرا سی بھی توھین برداشت نھیں کرسکتے تھے، اسی لیے وہ حضرت ابوطالب کے پاس جاتے اور پیغمبر کی شکایت کرتے اور کھتے کہ وہ ھمارے خداؤں کو برا بھلا کھہ رھے ہیں اور ھمارے دین و مذھب میں برائیاں نکال رھے ہیں  وہ وجود خدائے مطلق و خالق اور پروردگار کے معتقد و قائل تو تھے اور اللہ کے نام سے اسے یاد کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ھی وہ بتوں کو تقدس و پاکیزگی کا مظھر اور انھیں قابل پرستش سمجھتے تھے، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بت ان کے معبود تو ہیں مگر ان کے خالق نھیں چنانچہ یھی وجہ تھی کہ جب رسول خدا(ص) ان سے گفتگو فرماتے تو یہ ثابت نھیں کرتے تھے کہ خداوند تعالیٰ ان کا خالق ہے بلکہ ثبوت و دلائل کے ساتھ یہ فرماتے کہ خدائے مطلق واحد ہے اور ان کے بنائے ھوئے معبودوں کی حیثیت و حقیقت کچھ بھی نھیں۔

قرآن مجید نے مختلف آیات میں اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے یھاں اس کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

"لئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ"

(ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کھیں گے اللہ نے)

"مانعبد ھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی"

(ھم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ھماری رسائی کرا دیں)

اس کے علاوہ وہ بت پرستی کی یہ بھی تعبیر پیش کرتے تھے:

"ھولاء شفائنا عنداللہ"

(یہ اللہ کے یھاں ھمارے سفارشی ہیں)

Add comment


Security code
Refresh