www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عام الفیل سنہ ٥٧٠ ء حبشیوں نے ابرھہ کی قیادت میں خانہ کعبہ کو مسمار کی غرض سے شھر مکہ پر حملہ کیا۔

اس زمانہ میں ھمارے نبی حضرت محمد(ص)کے جد عبد المطلب مکہ کے رئیس وسردار تھے ،انھوں نے کعبہ کا طواف کیا اور خدا سے دعا کی اے پالنے والے اس گھر کو جسے ابراھیم خلیل اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل نے ایک خدا کی عبادت کے لئے بنایا تھا ابرھہ کے لشکر کے حملوں سے بچالے۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت عبد المطلب کی دعا مستجاب ھوئی ،اور جب ھاتھی اور لشکر خانی کعبہ کو منھدم کرنے کی غرض سے چلا تو آسمان پر ابابیل پرندے ظاھر ھوئے جو اپنی منقاروں میں کنکریوں لئے ھوئے تھے ،پرندوں نے لشکر پر کنکریاں گرانا شروع کردیں اور کعبہ کے پاس سے لشکر کو متفرق کردیا، جس سے اللہ تعالی کی قدرت اور حضرت عبد المطلب کی عظمت ظاھر ھوئی ۔

اس سال کو عام الفیل؛ کھاجاتاہے ،اسی سال ھمارے پیغمبر حضرت محمد(ص) نے ولادت پائی اس وقت حضرت ابوطالب کی عمر تیس سال تھی ،خانہ کعبہ پر ابرھہ کے حملے کا حادثہ قرآن مجید کے سورہ فیل میں بیان ھوا ہے:

کیا تم نے نھیں دیکھا کہ تمھارے رب نے ھاتھی والوں کا حال کیاہے؟

کیا ان کی تدبیر کو بیکار نھیں بنایا ؟ ان کے (سروں) پر ابابیل پرندے بھیجے جو ان پر کنکریاں گرارھے تھے پھر انہیں چبائے ھوئے بھوسے کی مانند بنادیا ۔

چاہ زمزم کو کھودنے والے حضرت عبد المطلب کے دس بیٹے تھے ،انھی میں سے ایک ھمارے نبی تھے والد گرامی حضرت عبد اللہ بھی تھے ان کے دوسرے بھائی حضرت ابوطالب تھے جو نبی کے چچا تھے ۔

ھمارے نبی یتیم تھے ،ابھی آپ بطن مادر ھی میں تھے کہ آپ کے والد حضرت عبد اللہ کا انتقال ھوگیا ،پانچ سال کے تھے کہ والدہ کی شفقت سے بھی محروم ھوگئے۔

پھر آپ  کے دادا حضرت عبد المطلب نے کفالت کی،حضرت عبد المطلب آپ سے بھت محبت کرتے تھے اور آپ میں نبوت کے آثار دیکھتے تھے ۔

حضرت عبد المطلب حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل کے دین پر قائم تھے،اپنے بیٹوں کو مکارم اخلاق کی وصیت کرتے تھے۔ مرتے وقت انھوں نے اپنے بیٹوں سے کھا:میرے صلب سے ضرور ایک نبی ھوگا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ھو اسے اس نبی پر ایمان لانا چاھیئے۔

اس کے بعد اپنے بیٹے حضرت ابوطالب کی طرف متوجہ ھوئے اورآہھستہ سے ان کے کان میں کہا: اے ابوطالب محمد شان وشوکت والے ہیں لھذا تم اپنی زبان اور ھاتھ ان کی مدد کرتے رھنا۔

ھمارے نبی آٹھ سال کے تھے کہ جب آپ کے جد عبد المطلب کا انتقال ھوا اورآپ کی کفالت حضرت ابو طالب کی طرف منتقل ھوئی۔

حضرت ابو طالب کا عبد مناف ہے ،جو شیخ بطحا کے نام سے مشھور ہیں اور ان کی والدہ قبیلہ بنی مخزوم،کے عمرو کی بیٹی ،حضرت فاطمہ ہیں۔ھمارے نبی اپنے چچا کے زیر سایہ زندگی گزارتے رھے آپ نے چچا کی آغوش تربیت میں بھت ھی محبت وشفقت پائی ،آپ کی چچی زوجہ ابوطالب فاطمہ بنت اسد بھی اپنی محبت سے سرشار رکھتی تھیں ھر چیز میں اپنے بیٹوں پر مقدم رکھتی تھیں ۔

ایسے کریم گھرانے میں حضرت محمد پروان چڑھے ،حضرت ابوطالب کے دل میں بھتیجے کی محبت بڑھتی ھی جاتی تھی خصوصا اس وقت محبت میں اضافہ ھوجاتا تھا جب آپ کے بلند اخلاق اور بھترین آداب کو دیکھتے تھے۔

کھانا کھاتے وقت یتیم بچہ ادب سے ھاتھ بڑھاتا ،بسم اللہ پڑھتا اور فارغ ھونے کے بعد الحمد للہ کھتاتھا ۔

ایک دن حضرت ابوطالب نے اپنے بھتیجے کو دسترخوان پر موجود نا پایا تو خود نے بھی کھانا نہ کھایا اور کھا: جب تک میرا بیٹا نھیں آئے گا میں کھانا نھیں کھاؤنگا جب وہ (محمد) آگئے تو پینے کے لئے انھیں دودھ کا پیالہ دیا پھر اسی سے یکے بعد دیگرے بچوں نے پیا ،سب سیراب ھوگئے اس سے ابوطالب کو بھت تعجب ھوا اور کہا: اے محمدبے شک تم بابرکت ھو۔

بشارت

ابوطالب اھل کتاب سے بھت سی بشارتیں سنتے تھے،جن سے یہ معلوم ھوتاتھا کہ نبی کے ظھور کا زمانہ قریب ہے ۔اس وجہ سے ابوطالب اپنے بھتییجے کا زیادہ خیال رکھتے تھے پھر ان میںنبوت کے آثار بھی ملاحظہ کرتے تھے ۔انھیں تنھا نھیں چھوڑتے تھے۔

جب ابوطالب نے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام جانے کا قصد کیا تو ھمارے نبی محمد بھی آپ کے ھمراہ روانہ ھوئے اس وقت آنحضرت کی عمر نو سال تھی ۔تجارتی قافلے شھر بصرہ سے گزرتے تھے بصرہ میں ایک کلیسا تھا کہ جس میں بحیرانامی نصرانی راھب رھتاتھا ۔

یہ راھب بھی نئے نبی کی آمد کا منتظر تھا،جب اس کی نگاہ محمد پرپڑی توآپ میں وہ صفات پائے جوآنے والے نبی کی بشارت سے واضح تھے ۔

راھب بچہ کے چھرے پر اپنی نظریں جمادیتاہے اور اپنے دل کی گھرائیوں میں حضرت عیسی کی دی ھوئی بشارتوں کے بارے میں غور کرنے لگتاہے۔راھب نے بچہ کانام پوچھا :ابوطالب نے فرمایا: محمداس مبارک نام کوسن کر راھب کی فروتنی میں اضافہ ھوجاتاہے اور وہ ابوطالب سے کھتاہے:

مکہ لوٹ جاؤ اور اپنے بچے کو یھودیوں سے بچاؤ کیونکہ یہ بچہ بڑی شان وشوکت والا ہے ابو طالب مکہ لوٹ آتے ہیں اوراب محمد سے اورزیادہ محبت ھوجاتی ہے اور ان کی حفاظت میں زیادہ کوشاں ھوجاتے ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh