www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

کفر کا حملہ آور لشکر ابوسفيان کي سرکردگي ميں خندق کھد جانے کے چھ دن بعد سيلاب کي طرح مدينہ پھنچ گيا۔ انھوں نے شھر کے چاروں طرف اور اپنے آگے ايک بڑي خندق ديکھي تو مسلمانوں کي اس دفاعي ٹيکنيک پر ان کو تعجب ھوا۔

جنگي ديدہ وروں نے کہا يہ فوجي ٹيکنيک محمد نے ايرانيوں سے سيکھي ہے اس ليے کہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نھيں ہيں۔ ان لوگوں نے مجبوراً اپنے خيمے خندق کے سامنے لگاليے۔ دشمن کے لشکر کے خيموں سے سارا بيابان سياہ ھوگيا۔ لشکر اسلام نے بھي خندق کے اس طرف خيمے لگا ليے اور دشمن سے مقابلے اور ان کے حملے سے بچنے کے ليے تيار ھوگئے۔

بني قريظہ کي عھد شکني

لشکر احزاب اور اس کے کماندار ابو سفيان جن کے سروں ميں مسلمانوں پر برق رفتاري سے کاميابي حاصل کرنے کا سودا سمايا ھوا تھا، خندق جيسي بڑي رکاوٹ کے سامنے آجانے سے اب راستہ کي تلاش ميں لگ گئے تاکہ لشکر کو خندق کے پار پھنچا سکيں۔

حي بن اخطب يھودي جو قبيلہ بني نضير کا شھر بدر کيا ھوا سردار اور جنگ کي آگ بھڑکانے کا اصلي ذمہ دار تھا۔ خندق کي موجودگي سے سپاہ احزاب کے حملہ کا ناکام ھوتے ھوئے ديکھ کر سب سے زيادہ خوف زدہ تھا، وہ کوشش کر رھا تھا ہ جلد سے جلد احزاب کي کاميابي کا کوئي راستہ مل جائے۔ اس نے مدينہ کے اندر سے محاذ کھولنے کا ارادہ کيا۔ اس پروگرام کو عملي جامہ پھچنانے کے ليے بني قريظہ کے وہ يھودي جو مدينہ ميں مقيم تھے، بھترين وسيلہ تھے۔ اس نے رئيس قبيلہ سے گفتگو کرنے کا ارادہ کيا، قلعہ بني قريظہ کي طرف گيا اور قلعہ کے بند دروازوں کے پيچھے سے گفتگو کي، ليکن قبيلہ بني قريظہ کے سردار کعب بن اسد نے جواب ديا کہ ھم نے محمد سے عھد و پيمان کيا ہے اور ھم يہ معاھدہ نھیں توڑ سکتے اس ليے کہ سوائے سچائي اور وفاداري کے ان سے ھم نے اور کچھ نھيں ديکھا ہے۔

حي، کعب کے احساسات کو بھڑکانے ميں کامياب ھو گيا اور اس نے اپنے ليے قلعہ کا دروازہ کھلواليا۔ قلعہ ميں داخل ھوا اور بني قريظہ کے بزرگ افراد کو اس بات پر آمادہ کرليا کہ وہ رسول خدا(ص) سے کئے ھوئے اپنے عھد و پيمان کو توڑ ديں اور اپني فوجيں نيز دوسرے سامان حملہ آوروں کو دے ديں۔

 جب یہ لشکر مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ھوا تو قبیلہ خزاعہ کے چند سوار نھایت تیزی سے پیغمبر کے پاس پھنچے اور سپاہ احزاب کی روانگی کی خبر دی۔

رسول خدا(ص)  نے آمادگی اور لشکر کی جمع آوری کے اعلان کے ساتھ جنگی ٹیکنیک اور دفاعی طریقہ کار کی تعیین کے لیے اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا۔ اس جنگی مشورہ میں یہ بات پیش ھوئی کہ مدینہ سے باھر نکل کر ان سے جنگ کی جائے یا مدینہ کے اندر موجود رھیں اور شھر کو ایک طرح سے محصور بنا دیں؟ سلمان فارسی نے کہا: اے اللہ کے رسول جب ھم ایران میں تھے تو اس وقت اگر دشمن کے شہ سواروں کے حملہ کا خطرہ ھوتا تھا تو ھم شھر کے چاروں طرف خندق کھوددیتے تھے۔ دفاع کے لیے جو مجلس مشارت منعقد ھوئی تھی اس میں سلمان کی رائے کو مان لیا گیا رسول خدا(ص)  نے سلمان کے نقشہ کے مطابق خندق کھودنے کا حکم دیا۔ (مغازی ج۲ص ۴۴۴)

اس زمانہ میں مدینہ تین طرف سے طبیعی رکاوٹوں جیسے پھاڑوں، نخلستان کے جھنڈ اور نزدیک نزدیک بنے ھوئے گھروں سے گھرا ھوا تھا صرف ایک طرف سے کھلا اور قابل نفوذ تھا۔

رسول خدا(ص)  نے دس آدمیوں کو چالیس ھاتھ کے ایک قطعہ ارض کو کھودنے پر مامور کیا۔ جزیرة العرب کی گرم اور جھلسا دینے والی ھوا کے برخلاف مدینہ، صحراء کی طرح سرد اور تکلیف دہ ہے، جس دن خندق کی کھدائی ھو رھی تھی اس دن صبح سویرے جب آفتاب بھی نھیں نکلا تھا، جاڑے کی سخت سردی میں تین ھزار مسلمان لبوں پر، پرشور نعرہ اور دلوں میں حرارت ایمانی کے جوش و ولولہ کے ساتھ کام میں شغول ھوگئے اور غروب آفتاب تک کام کرتے رھے رسول خدا(ص)  بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کام میں مشغول تھے۔ پھاؤڑے چلاتے مٹی کو زنبیل میں ڈال کر کاندھوں پر رکھ کر باھر لاتے تھے۔ سلمان نھایت تیزی سے چند آدمیوں کے برابر کام کر رھے تھے۔ مھاجر و انصار ھر ایک نے کھا کہ سلمان ھم میں سے ہیں۔ لیکن رسول خدا(ص) نے فرمایا: سلمان ھم اہل بیت میں سے ہیں۔ (سیرت حلبی ج۳ص ۳۱۳)

خندق کھودتے کھودتے سلمان کے سامنے ایک بھت بڑا سفید پتھر آگیا۔ خود انھوں نے اور دوسرے افراد نے بھی کافی کوشش کی مگر وہ پتھر اپنی جگہ سے ھلا تک نھیں۔ رسول خدا(ص)  کو خبر ھوئی تو آپ خود تشریف لائے اور کلھاڑی سے اس پتھر پر ایک ضرب لگائی اس ضرب کی وجہ سے ایک بجلی چمکی اور پتھر کا ایک حصہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پیغمبر(ص)  نے صدائے تکبیر بلند کی۔ جب دوسری اور تیسری بار آپ نے کلھاڑی چلائی تو ھر ضرب سے بجلی چمکی اور پتھر کے ٹکڑے ھونے لگے۔ رسول خدا(ص)  ھر بار صدائے تکبیر بلند کرتے رھے، جناب سلمان نے سوال کیا کہ آپ بجلی چمکتے وقت تکبیر کیوں کھتے ہیں؟

رسول (ص)خدانے فرمایا:

جب پھلی بار بجلی چمکی تو یمن اور صنعاء کے محلوں کو میں نے کھلتے دیکھا، دوسری مرتبہ بجلی کے چمکنے میں شام و مغرب کے کاخ ھائے سرخ کو فتح ھوتے دیکھا، اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخ ھائے کسریٰ میری امت کے ھاتھوں مسخر ھو جائیں گے۔

مومنین رسول خدا(ص) کے کیے ھوئے وعدے سے خوش ھوگئے اور انھوں نے ”بشارت بشارت“ کی آواز بلند کی۔ لیکن منافقین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ حالت یہ ہے کہ دشمن ھر طرف سے ٹوٹے پڑ رھے ہیں اور ھم میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ ھم اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے باھر نکل سکیں اور محمد کاخ ھائے ایران و روم کی فتح کی گفتگو کر رھے ہیں۔ سچ تو ہے کہ یہ باتیں فریب سے زیادہ نھیں ہیں۔ (معاذ اللہ) قرآن منافقین کے بارے میں کہتا ہے: منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے وہ کھتے ہیں کہ یہ وعدے جو خدا اور اس کے رسول کر رھے ہیں یہ دھوکہ سے زیادہ نھیں ہیں۔ (تاریخ طبری ج۲ص ۵۶۹)

منافقین خندق کھودنے میں مسلمانوں کی مدد کر رھے تھے مگر ان کی کوشش تھی کہ کسی بھانے سے اپنے کاندھوں کو اس بوجھ سے خالی کرلیں اس طرح وہ اپنے نفاق کو آشکار کر رھے تھے۔

خندق کی کھدائی تمام ھوئی اس کا طول ۱۲۰۰۰ھاتھ تقریباً ۴/۵کلومیٹر گھرائی ۵ھاتھ اور اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک سوار گھوڑے کو جست دے کر پار نھیں کرسکتا تھا۔ آخر میں خندق کے بیچ میں کچھ دروازے بنا دیئے گئے اور ھر دروازہ کی نگھبانی کے لیے ایک قبیلہ معین کر دیا گیا۔ زبیر بن عوام کو دروازہ کے محافظین کی سرپرستی پر معین کیا گیا۔ (تاریخ یعقوب ج۲ص ۵۰)

مسلمانوں نے بھی خندق کے پیچھے اپنے لیے محاذ بنالیے اور شھر کے دفاع کے لیے تیر انداز مکمل آمادگی کے ساتھ موجود تھے۔

Add comment


Security code
Refresh