www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

ذی قعدہ سنہ ۷ھجری لشکر اسلام کی پے درپے کامیابی اور مشرکین مکہ کی گوشہ گیری نے پیغمبر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دوسری بار جزیرة العرب میں مسلمانوں کی حیثیت و وقار کے استحکام کے لیے اقدام کریں۔

آپ نے حکم دیا کہ مسلمان سفر حج کے لیے تیار ھو جائیں اور ھمسایہ قبائل جو ابھی تک حالت شرک پر باقی تھے ان سے آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اس سفر میں چلنے کی خواھش ظاھر کی۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے عذر پیش کیا اور ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

اس سفر میں عبادی اور معنوی خصوصیتوں کے علاوہ مسلمانوں کے لیے وسیع اجتماعی اور سیاسی مصلحتیں بھی تھیں۔ اس لیے کہ عرب کے متعصب قبائل نے مشرکین کے غلط پروپیگنڈہ کی بنا پر یہ سمجھ رکھا تھا کہ اس خانہ کعبہ کے لیے جو سلف کی یادگار اور ان کے افتخار کا مظھر ہے، رسول خدا (ص)کسی طرح اس کی قدر و منزلت کے قائل نھیں ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی اشاعت سے شدت کے ساتھ ھراساں تھے۔ اب غلط خیالات کے پردے چاک ھوئے اور انھوں نے دیکھ لیا کہ رسول خدا(ص) حج کو ایک فریضہ واجب جانتے ہیں ایک طرف اگر قریش مانع نہیں ھوئے اور زیارت کعبہ کی توفیق ھوگئی تو یہ مسلمانوں کے لیے بڑی کامیابی ھوگی کہ وہ چند سال کے بعد ھزاروں مشرکین کی آنکھوں کے سامنے اپنی عبادت کے مراسم ادا کریں گے۔ دوسری طرف قریش مسلمانوں کے مکہ میں داخل ھونے سے اگر مانع ھوئے تو اعراب کے جذبات طبعی طور پر مجروح ھو جائیں گے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کو فریضہ حج انجام دینے کے لیے کیوں نہ آزاد چھوڑا۔ یہ سفر چونکہ جنگی سفر نہ تھا اس لیے رسول خدا(ص)  نے حکم دیا کہ ایک مسافر صرف ایک تلوار اپنے ساتھ رکھے اور بس۔

رسول خدا (ص) نے قربانی کے لیے ستر اونٹ مھیا کئے۔ پھر رسول خدا (ص) چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ھوئے اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا۔

آپ نے عباد بن بشر کو ۲۰مسلمانوں کے ساتھ ھراول دستہ کے عنوان سے آگے بھیج دیا تاکہ جو راستے میں تھے ان لوگوں کے کانوں تک لشکر اسلام کی روانگی کی خبر پھنچا دیں اور اگر ان لوگوں نے کوئی سازش کی تو اس کی خبر رسول خدا(ص)  کو دیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ص ۹۵)۔

قریش کا موقف

جب قریش رسول خدا(ص)  کی روانگی سے آگاہ ھوئے تو انھوں نے بتوں (لات و عزیٰ) کی قسم کھائی کہ ان کو مکہ میں آنے سے روکیں گے۔ قریش کے سرداروں نے رسول خدا(ص)  کو روکنے کے لیے خالد بن ولید کو دو سو سواروں کے ساتھ مقام "کراع الغیم" بھیجا انھوں نے وھاں مورچے سنبھال لیے۔ رسول خدا(ص)  قریش کے موقف سے آگاھی کے بعد چونکہ یہ چاھتے تھے کہ خونریزی کے ذریعہ اس مھینہ اور حرم کی حرمت مجروح نہ ھو اس لیے آپ نے راھنما سے فرمایا کہ کارواں کو اس راستہ سے لے چلو کہ جس راستہ میں خالد کا لشکر نہ ملے۔

راھنما قافلہٴ اسلام کو نھایت دشوار گذار راستوں سے لے گیا یھاں تک کہ یہ لوگ مکہ سے ۲۲کلومیٹر دور حدیبیہ کے مقام پر پھنچ گئے۔ آنحضرت (ص) نے سب کو یہ حکم دیا کہ یھیں اتر پڑیں اور اپنے خیمے لگالیں۔ (سیرت ابن ھشام ج۳ص ۲۲۳)

قریش کے نمائندے پیغمبر(ص)  کی خدمت میں

 قریش نے چاھا کہ آنحضرت(ص)  کے آخری مقصد سے باخبر ھو جائیں اس لیے انھوں نے اپنے یھاں کی اھم شخصیتوں کو رسول کی خدمت میں بھیجا۔

قریش کی نمائندگی میں پھلے گروپ میں "بدیل بن خزاعی" قبیلہ خزاعہ کے افراد کے ساتھ آیا۔ جب وہ رسول خدا(ص)  سے ملا تو آپ نے فرمایا میں جنگ کے لیے نھیں آیا ھوں میں تو خانہ خدا کی زیارت کے لیے آیا ھوں۔ نمائندے واپس چلے گئے اور انھوں نے یہ اطلاع قریش کو پھنچا دی لیکن قریش نے کھا خدا کی قسم، ھم ان کو مکہ میں داخل نہیں ھونے دیں گے۔ خواہ زیارت خانہ خدا ھی کی غرض سے کیوں نہ آئے ھوں۔ دوسرے اور تیسرے نمائندے بھیجے گئے اور انھوں نے بھی بدیل ھی والی رپورٹ پیش کی۔

قریش کے تیسرے نمائندہ حلیس بن علقمہ عرب کے تیر اندازوں کے افسر نے کہا کہ ھم نے ھرگز تم سے یہ معاھدہ نہیں کیا کہ ھم خانہ خدا کے زائرین کو روکیں گے، خدا کی قسم! اگر تم لوگ محمد کو آنے نہ دو گے تو میں اپنے تیر انداز ساتھیوں کے ساتھ تمھارے اوپر حملہ کرکے تمھاری اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ قریش اپنے اندر اختلاف رونما ھونے سے ڈر گئے اور انھوں نے حلیس کو اطمینان دلایا کہ ھم کوئی ایسا راستہ منتخب کریں گے جو تمھاری خوشنودی کا باعث ھوگا۔

قریش کا چوتھا نمائندہ عروة بن مسعود تھا، جس پر قریش اظمینان کامل رکھتے تھے۔ وہ جب رسول خدا(ص)  سے ملا تو اس نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی باتوں میں قریش کی طاقت کو زیادہ اور اسلام کی قوت کو کم کرکے پیش کرے اور مسلمانوں کو جھک جانے اور بلاقید و شرط واپس جانے پر آمادہ کرلے۔ لیکن جب وہ واپس گیا تو اس نے قریش سے کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور سلطان حبشہ جیسے بڑے بڑے بادشاھوں کو دیکھا ہے مگر جو بات محمد میں ہے وہ کسی میں نھیں ہے۔

میں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے وضو کا ایک قطرہ پانی بھی زمین پر گرنے نھیں دیتے وہ لوگ تبرک کے لیے اس کو بھی جمع کرتے ہیں اور اگر ان کا ایک بال بھی گر جائے تو ان کے اصحاب اس کو فوراً تبرک کے لیے اٹھا لیتے ہیں۔ لہٰذا اس خطرناک موقع پر نھایت عاقلانہ ارادہ کرنا۔ (سیرت ابن ھشام ج۳ص ۳۲۵)

رسول(ص)خدا کے سفیر

رسول خدا(ص)  نے ایک تجربہ کار شخص کو جس کا نام "خراش" تھا اپنے اونٹ پر سوار کیا اور قریش کے پاس بھیجا۔ لیکن ان لوگوں نے اونٹ کو پئے کر دیا اور نمائندہ پیغمبر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر وہ حادثہ تیر اندازان عرب کے ایک دستہ کی وساطت سے ٹل گیا۔

قریش کی نقل و حرکت یہ بتا رھی تھی کہ ان کے سر میں جنگ کا سودا سمایا ھوا ہے۔ رسول خدا(ص)  مسئلہ کو صلح کے ذریعہ حل کرنے سے مایوس نھیں ھوئے۔ لہٰذا آپ نے قریش کے پاس ایسے شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا جس کا ھاتھ کسی بھی جنگ میں قریش کے خون سے آلودہ نہ ھوا ھو۔ لہٰذا آپ نے عمر بن خطاب کو حکم دیا کہ وہ قریش کے پاس جائیں۔ انھوں نے عذر ظاھر کیا رسول خدا(ص)  نے عثمان بن عفان کو جن کی اشراف قریش سے قریب کی رشتہ داری تھی۔ اشراف قریش کے پاس بھیجا۔ عثمان قریش کے ایک آدمی کی پناہ میں مکہ میں وارد ھوئے اور پیغمبر کے پیغام کو قریش کے سربرآوردہ افراد تک پھنچایا۔ انھوں نے پیش کش رد کرنے کے ساتھ عثمان کو بھی اپنے پاس روک لیا انھیں واپس جانے کی اجازت نھیں دی۔ مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑ گئی کہ قریش نے عثمان کو قتل کر دیا۔(ایضاً ص ۳۲۸،۳۲۹)

بیعت رضوان

پیغمبر کے نمائندہ کی آنے میں تاخیر کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان عجیب اضطراب اور ھیجان پیدا ھوگیا۔ اس بار مسلمان جوش و خروش میں آکر انتقام پر آمادہ ھوگئے۔ پیغمبر نے ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے فرمایا۔ ھم یھاں سے نھیں جائیں گے تاوقتیکہ کام کو ایک ٹھکانے نہ لگا دیں۔ اس خطرناک وقت میں اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے ضروری ھتھیار اور ساز و سامان نہ تھا۔ پھر بھی رسول خدا(ص)  نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اصحاب کے ساتھ عھد و پیمان کی تجدید کریں۔ آنحضرت(ص)  ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے اور تمام اصحاب نے سوائے ایک کے آپ کے ھاتھ پر بعنوان بیعت ھاتھ رکھا اور قسم کھائی کہ خون کے آخری قطرہ تک اسلام کا دفاع کریں گے۔

یہ وھی بیعت رضوان ہے جس کے بارے میں قرآن میں اس طرح آیا ہے کہ:

خداوند عالم ان مومنین سے، جنھوں نے تمھارے ساتھ درخت کے نیچے بیعت کی ہے، خوش ھوگیا اور ان کے وقار و خلوص سے آگاہ ھوگیا اللہ نے ان کے اوپر ان کی روح کے سکون کی چیز نازل کی اور اجر کے عنوان سے عنقریب ان کو فتح عطا کرے گا۔“ (سورہٴ فتح:۱۸)

بیعت کی رسم ختم ھوئی ھی تھی کہ عثمان پلٹ آئے اور قریش کے وہ جاسوس جو دور سے بیعت کا واقعہ دیکھ رھے تھے ھاتھ پیر مار کر رہ گئے۔ قریش کے سربرآوردہ افراد نے "سھیل بن عمرو" کو صلح کی قرارداد معین کرنے کے لیے بھیجا۔(سیرت ابن ھشام ج۳ص ۳۳۰)

صلح نامہ کا مضمون

جب سھیل بن عمرو رسول خدا(ص)  کی خدمت میں پھنچا تو یوں گویا ھوا۔ قریش کے سربرآوردہ افراد کا خیال ہے کہ آپ اس سال یھاں سے مدینہ واپس چلے جائیں اور حج و عمرہ کو آئندہ سال پر اٹھا رکھیں۔

پھر مذاکرات کا باب کھل گیا اور سھیل بن عمرو بنت بات پر بے موقع سخت گیری سے کام لے کر پریشانی کھڑی کرتا رھا۔ جب کہ پیغمبر چشم پوشی کے رویہ کو اس لیے نھیں چھوڑ رھے تھے کہ کھیں صلح کا راستہ ھی بند نہ ھو جائے۔ مکمل موافقت کے ایک سلسلہ کے بعد رسول خدا(ص)  نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ صلح نامہ لکھو علی علیہ السلام نے رسول کے حکم سے صلح نامہ لکھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سھیل نے کھا کہ ھم اس جملہ سے آشنا نھیں ہیں آپ بسمک اللھم لکھیں۔ (یعنی تیرے نام سے اے خدا) رسول خدا(ص)  نے مواقفت کی پھر علی نے پیغمبر کے حکم سے لکھا کہ یہ وہ صلح ہے جسے رسول خدا محمد(ص)  انجام دے رھے ہیں۔

سھیل بولا: ھم آپ کی رسالت اور نبوت کو قبول نھیں کرتے اگر اس کو قبول کرتے تو آپ سے ھماری لڑائی نہ ھوتی۔ آپ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں۔(بحارالانوار ج۲ص ۳۳۳،۳۳۳۵)

رسول خدا(ص)  نے علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس جملہ کو مٹا دیں لیکن علی نے فرمایا کہ میرے ھاتھوں میں آپ کا نام مٹانے کی طاقت نھیں ہے۔ رسول خدا(ص)  نے اپنے ھاتھوں سے اس جملہ کو مٹا دیا۔

قریش اور مسلمان دونوں اس بات کا عھد کرتے ہیں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نھیں کریں گے۔ تاکہ اجتماعی امن و امان اور عربستان میں عمومی صلح قائم ھو جائے۔

جب کوئی قریش کا آدمی مسلمانوں کی پناہ میں چلاجائے گا تو محمد اس کو واپس کر دیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کی پناہ میں آجائے تو قریش پر یہ لازم نھیں ہے کہ وہ اس کو واپس کریں۔

مسلمان اور قریش دونوں، جس قبیلہ کے ساتھ چاھیں عھد و پیمان کرسکتے ہیں۔

محمد اور ان کے اصحاب اس سال مدینہ واپس جائیں لیکن آئندہ سال زیارت خانہ، خدا کے لیے آسکتے ہیں۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں اور مسافر جتنا ھتھیار لے کر چلتا ہے اس سے زیادہ ھتھیار اپنے ساتھ نہ رکھیں۔(سیرت ابن ہشام ج۳ص ۲۳۲)

وہ مسلمان جو مکہ میں مقیم ہیں اس پیمان کی رو سے اپنے مذھبی امور کو آزادی سے انجام دے سکتے ہیں اور قریش کو نہ انھیں آزار پھنچائیں اور نہ ہی اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذھب سے پلٹ جائیں ان کے دین کا مذاق نھیں اڑائیں گے۔ اس طرح وہ مسلمان جو مدینہ سے مکہ وارد ھوں ان کی جان و مال محترم ہے۔ (بحارالانوار ج۲۰ص ۳۵۰)

اس قرارداد کی دو کاپیاں کی گئیں ایک کاپی رسول خدا(ص)  کی خدمت میں پیش ھوئی۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور خود آپ نے وھیں سرمونڈا۔ پھر ۱۹دن کے بعد آپ مدینہ کی طرف روانہ ھوگئے۔

Add comment


Security code
Refresh