www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

 پيمان صلح کچھ مسلمانوں خصوصاً مھاجرين کي ناراضگي کا باعث ھوا ھر چيز سے زيادہ صلح نامہ کي دوسري شرط سے مسلمانوں کو تکليف ھوئي کہ جس ميں مسلمانوں کے پاس پناہ لينے والوں کو واپس کر دينے کو لازم قرار ديا گيا ہے۔

مخالفين صلح ميں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدي کي روايت کے مطابق عمر اور ان کے ھمنوا افراد رسول خدا(ص) کي خدمت ميں پھنچے اور کھا کہ اے اللہ کے رسول کيا آپ نے نھيں کھا تھا کہ جلد ھي آپ مکہ ميں وارد ھوں گے اور کعبہ کي کنجي لے ليں گے اور دوسروں کے ساتھ عرفات ميں وقوف کريں گے؟ اور اب حالت يہ ہے کہ نہ ھماري قرباني خانہ خدا تک پھنچي اور نہ ھم خود پھنچے۔  رسول خدا(ص) نے عمر کو جواب ديا کہ کيا ميں اسي سفر ميں خانہ خدا تک پھنچنے کے ليے کھا تھا؟ عمر نے کھا: ”نھيں“ پھر رسول(ص) مقبول نے عمر کي طرف رخ کيا اور فرمايا کہ ”آيا احد کا دن بھول گئے جس دن تم بھاگ رھے تھے اپنے پيچھے مڑ کر نھيں ديکھتے تھے اور ميں تمھيں پکار رھا تھا؟ کيا تم احزاب کا دن بھول گئے؟ کيا تم فلاں دن بھول گئے؟

مسلمانوں نے کھا اے اللہ کے رسول جو آپ نے سوچا ہے وہ ھم نے نھيں سوچا ہے۔ آپ خدا اور اس کے حکم کو ھم سے بھتر جانتے ہيں۔

اسي طرح جب صلح نامہ لکھا گيا تو عمر اپني جگہ سے اٹھ کر رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور کھا: ”اے اللہ کے رسول کيا ھم مسلمان نھيں ہيں؟“ آپ نے فرمايا: ”بے شک ھم مسلمان ہيں۔“ عمر نے کہا کہ ”پھر دين خدا ميں ھم کيوں ذلت اور پستي برداشت کريں؟ آپ نے فرمايا کہ ميں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھوں، اس کے حکم کي مخالفت ھرگز نھيں کروں گا۔ اور وہ بھي ھم کو تباہ نھيں کرے گا۔

عمر بن خطاب نقل کرتے ہيں کہ ميں نے کبھي بھي حديبيہ کے دن کي طرح اسلام کے بارے ميں شک نھيں کيا۔

ابو بصير کي داستان اور شرط دوم کا ختم ھو جانا

ابوبصير نامي ايک مسلمان جو مدت سے مشرکين کي قيد ميں زندگي گزار رھے تھے مدينہ بھاگ آئے قريش نے پيغمبر کے پاس خط لکھا اور ياد دلايا کہ صلح حديبيہ کي شرط دوم کے مطابق ابوبصير کو آپ واپس کر ديں خط کو بني عامر کے ايک شخص کے حوالہ کيا اور اپنے غلام کو اس کے ساتھ کر ديا۔ رسول خدا (ص)نے جو معاھدہ کيا تھا اس کے مطابق ابوبصير سے کھا تمھيں مکہ لوٹ جانا چاھيے۔ کيونکہ ان کے ساتھ حيلہ بازي سے کام لينا کسي طرح بھي صحيح نھيں ہے، ميں مطمئن ھوں کہ خدا تمھاري اور دوسروں کي آزادي کا وسيلہ فراھم کرے گا۔

ابوبصير نے کھا کہ کيا آپ مجھ کو مشرکين کے سپرد کر رھے ہيں تاکہ وہ مجھ کو دين خدا سے بھکا ديں؟ رسول خدا(ص) نے پھر وھي بات دھرائي اور ان کو قريش کے نمائندہ کے سپرد کر ديا۔ جب وہ لوگ مقام ذوالحليفہ ميں پھنچے تو ابوبصير نے ان محافظين ميں سے ايک کو قتل کر ديا اور اس کي تلوار اور گھوڑے کو غنيمت کے طور پر لے ليا اور مدينہ لوٹ آئے۔ جب رسول خدا(ص) کي خدمت ميں پھنچے تو کھا: ”اے اللہ کے رسول آپ نے اپنے عھد کو پورا کيا اور مجھے اس قوم کے سپرد کر ديا ميں نے اپنے دين کا دفاع کيا تاکہ ميرا دين برباد نہ ھو۔

ابوبصير چونکہ مدينہ ميں نھيں رہ سکے اس ليے آپ صحرا کي طرف چلے گئے اور دريائے سرخ کے ساحل پر مکہ سے شام کي طرف جانے والے قافلوں کے راستہ ميں چھپ گئے اور دريائے سرخ کے ساحل پر مکہ سے شام کي طرف جانے والے قافلوں کے راستہ ميں چھپ گئے جو لوگ مکہ ميں مسلمان ھوئے تھے اور قرارداد کے مطابق مدينہ نھيں آسکتے تھے وہ ابوبصير کے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان کي تعداد زيادہ ھوگئي۔ گروہ قريش کے تجارتي قافلوں پر حملہ کرکے ان کو نقصان پھنچانے لگے۔ قريش نے اس آفت سے بچنے کے ليے پيغمبر کو خط لکھا اور ان سے عاجزانہ طور پر يہ خواھش کي کہ ابوبصير اور ان کے ساتھيوں کو مدينہ بلاليں اور پناہ گزينوں کو واپس کرنے والي شرط صلح نامہ کے متن سے حذف ھو جائے۔

صلح حديبيہ کے نتائج کا تجزيہ

پے درپے جنگ ايک دوسرے سے براہ راست ملاقات سے رکاوٹ بني ھوئي تھي ليکن اس صلح نے فکروں کے آزادانہ ارتباط اور اعتقادي بحث و مباحثہ کا راستہ کھول ديا۔ يہ عرب معاشرہ ميں اسلام کي نئي منطق اور دلوں ميں اسلام کے نفوذ کي وسعت کا ذريعہ بني اور وہ اس طرح کہ صلح حديبيہ والے سال پيغمبر کے ساتھ مسلمانوں کي تعداد چودہ سو تھي اور فتح مکہ والے سال دس ھزار افراد رسول خدا(ص) کے ساتھ تھے۔

صلح کے ذريعہ داخلي امن و امان قائم ھو جانے کے بعد اسلام کي عالمي تحريک کو سرحدوں کے پار لے جانے اور عالمي پيغام کو نشر کرنے کے ليے رسول خدا(ص) کو موقع مل گيا۔

يہ صلح درحقيقت تحريک اسلامي کو مٹانے کے ليے وجود ميں آنے والے ھر طرح کے نئے جنگي اتحاد کے ليے مانع بن گئي۔ لھذا لشکر اسلام کے ليے ايک ايسا موقع ھاتھ آگيا کہ وہ اپنے بڑے دشمنوں جيسے خيبر کے يھودي کو اپنے راستہ سے ھٹا سکيں۔ خاص کر صلح کے فوائد کے بارے ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ”پيغمبر کي زندگي ميں کوئي واقعہ صلح حديبيہ سے زيادہ فائدہ مند نھيں تھا۔

Add comment


Security code
Refresh