www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

قرآن میں ملتا ہے:'' قابيل اپنى غفلت اور جھالت سے پريشان ھوگيا اور چيخ اٹھا كہ وائے ھومجھ پر ،كيا ميں اس كوّے سے بھى زيادہ ناتواں اور عاجز ھوں ،مجھ سے اتنا بھى نہ ھوسكا كہ ميں اس كى طرح اپنے بھائي كا جسم دفن كردوں، بھرحال وہ اپنے كيے پرنادم وپشيمان ھوا''(سورہ مائدہ آيت۳۱)

كيا اس كى پشيمانى اس بناءپر تھى كہ اس كاگھٹيا اور براعمل آخركار اس كے ماں باپ پر اور احتمالى طورپر دوسرے بھائيوں پر آشكار ھوجائےگا اوروہ اسے بھت سرزنش كريں گے يا كيا يہ پشيمانى اس بناءپر تھى كہ كيوں ميں ايك مدت تك بھائي كى لاش كندھے پر لئے پھرتا رھا اور اسے دفن نہ كيااور يا پھركيايہ ندامت اس وجہ سے تھى كہ اصولى طور پر انسان ھربراكام انجام دے لينے كے بعد اپنے دل ميں ھرطرح كى پريشانى اور ندامت محسوس كرتا ہے ليكن واضح ہے كہ اس كى ندامت كى جوبھى وجہ ھووہ اس كے گناہ سے توبہ كى دليل نھيں ہے كيونكہ توبہ يہ ہے كہ ندامت خوف خدا كے باعث اورعمل كے براھونے كے احساس كى بنا پر ھوا، اور يہ احساس اسے اس بات پر آمادہ كرے كہ وہ آيندہ ھرگز ايسا كام نھيں كرے گا ،قرآن ميں قابيل كى ايسى كسى توبہ كى نشاندھى نھيں كى گئي بلكہ شايد قرآن ميں ايسى توبہ كے نہ ھو نے كى طرف ھى اشارہ ہے۔

 پيغمبر اسلام (ص) سے ايك حديث منقول ہے ،آپ نے فرمايا:

''جس كسى انسان كا بھى خون بھايا جاتا ہے اس كى جوابدھى كا ايك حصہ قابيل كے ذمہ ھوتا ہے جس نے انسان كُشى كى اس برى سنت كى دنياميں بنيادركھى تھي"۔

اس ميں شك نھيں كہ حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا يہ واقعہ ايك حقيقى واقعہ ہے اس كے علاوہ كہ آيات قرآن اور اسلامى روايت كا ظاھرى مفھوم اس كى واقعيت كو ثابت كرتا ہے اس كے ''بالحق '' كى تعبير بھى جوقرآن ميں آئي ہے اس بات پر شاھدہے، لھذا جولوگ قران ميں بيان كئے گئے واقعہ كو تشبيہ ،كنايہ يا علامتى(SIMBOLIC)داستان سمجھتے ہيں ،بغيردليل كے ايسا كرتے ہيں ۔(۱)

حوالہ:

۱۔اس كے باوجود اس بات ميں كوئي مضائقہ نھيں كہ يہ حقيقى واقعہ اس جنگ كے لئے نمونہ كے طورپر بيان كيا گيا ھو جو ھميشہ سے مردان پاكباز ،صالح ومقبول بارگا ہ خدا انسانوںاور آلودہ ،منحرف ،كينہ پرور، حاسد اور ناجائزھٹ دھرمى كرنے والوں كے درميان جارى رھى ہے وہ لوگ كتنے پاكيزہ اور عظيم ہيں جنھوں نے ايسے برے لوگوں كے ھاتھوں جام شھادت نوش كيا۔ آخركار يہ برے لوگ اپنے شرمناك اور برے اعمال كے انجام سے آگاہ ھو جاتے ہيں اور ان پر پردہ ڈالنے اور انھيں دفن كرنے كے درپے ھوجاتے ہيں اس مو قع پر ان كى آرزوئيںان كى مدد كو لپكتى ہيں،كوّا ان آرزؤں كا مظھر ہے جو جلدى سے پھنچتا ہے اور انھيں ان كے جرائم پرپر دہ پوشى كى دعوت ديتا ہے ليكن آخر كار انھيں خسارے ،نقصان اور حسرت كے سوا كچھ نصيب نھيں ھوتا۔

 

 

Add comment


Security code
Refresh