www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھم اپنی گفتگو کا آغاز نماز سے کریں گے،میرے والد نے فرمایا:نماز(جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ھوا ہے: "عمود دین“ ہے۔)

"ان قبلت قبل ما سواھا، و ان ردت رد ماسواھا"۔

(اگر نماز قبول ھوگئی تو ھر چیزقبول ھوجائیگی اوراگرنمازردکردی گئی تو تمام چیزیںرد کردی جائیں گی)

میرے والد نے مزیدفرمایا کہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان ایک معین وثابت ملاقاتوں کی جگہ ہے اللہ تعالی نے اس کے اوقات،اس کے طریقہ،اس کی صورتوں،اس کی کیفیات کواپنے بندوں کیلئے مقرر کیاہے تم نمازکے دوران اس کے سامنے اپنی عقل وقلب اور اعضاء وجوارح کواس کی طرف متوجہ کرتے ھوئے کھڑے ھوجاؤ اس سے بات اور مناجات کرو پس تم پر لازم ہے کہ مناجات کے دوران صفائے قلب وذھن کے ساتھ اشک ریزی کرو(آنسوبھاؤ) اور شفاف روح کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

اس طرح کہ جیسے اس کے سامنے کھڑے ھو اور اسی کے ساتھ اس کی ملاقات اور اس کے وصال کی لذت وسعادت کی نعمت سے لطف اندوزھوتے ھو اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی محبت تم پر خوف کے ساتھ طاری ھوگی کیونکہ تم اپنے ایسے خالق کے سامنے کھڑے ھوگے کہ جوعظیم اور تم پر رحیم ہے اور تمھارے حال پر مھربان ہے، اور سمیع وبصیر ہے۔

آپ کے مولا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے رب کی عبادت میں پوری طرح مستغرق رھتے اور ھر وقت اس کی طرف اس طرح متوجہ رھتے کہ جنگ صفین میں آپ کے جسم سے تیر نکالا گیا تو اس کا درد و الم آپ کو اپنے رب کی مناجات سے نہ روک سکا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جب وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد پڑجاتا آپ کے گھروالوں میں سے کسی نے پوچھاآپ کا وضو کے وقت یہ کیا حال ھوجاتا ہے؟تو آپ نے جواب میں فرمایا:  کیا تم نھیں جانتے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ھونے جارھا ھوں اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ھوتے تو آپ کے جسم میں لرزہ پڑجاتا کسی نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

"میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ھونا چاھتاھوں اور اس سے مناجات کرنا چاھتاھوں تو میرے جسم میں لرزہ پڑجاتاہے "۔

اور جب تمھارے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام گوشہ تنھائی میں نماز کے لئے کھڑے ھوتے تھے تو روتے اور آپ کے جسم کے اعضاء میں اضطراب پیدا ھوجاتا اور آپ کے قلب(مبارک) میں خوف خدا سے حزن واندوہ پیدا ھو جاتاتھا۔

اور جب آپ کو ھارون رشید کے تاریک اور وحشتناک قید خانہ میں لے جایا گیا تو وھاں آپ خدا کی اطاعت وعبادت میں مشغول ھوگئے اور اس بھترین وپسندیدہ فرصت کے مھیا ھونے پر اپنے پروردگار کا شکر بجالائے اور اپنے پروردگارکومخاطب کرتے ھوئے فرماتے ہیں:"میں نے تجھ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنی عبادت کا موقعہ عنایت فرماتو نے میری اس دعا کو قبول کیا لہٰذا میں تیری اس چیزپر حمدوثنا بجالاتاھوں"۔

اور میرے والد نے بات جاری رکھتے ھوئے فرمایا نماز نفس کی اندرونی خواھش وکیفیت کی ظاھری حالت اور ایسے خدا سے لگاؤ اور ربط کانام ہے جوکائنات کا خالق،غالب،مالک اور سب کا نگھبان ہے۔جس وقت تم اپنی نماز کو شروع کرتے ھوئے (اللہ اکبر)کھتے ھوتو مادیات اور اس کی راہ وروش اور اسی کی زیب وزینت تمام کی تمام تمھارے نفس میں سے دور ھوجاتی ہے اور تم اکثر مضمحل ھوجاتے ھو کیونکہ تم اس کے سامنے کھڑے ھوتے ھو کہ جو خالق کائنات اور اس پر غالب ہے جس نے اس دنیا کو اپنی مشئیت کے مطابق مسخر کیا ہے پس وہ ھر چیز سے بڑا عظیم ہے اور ھر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور جس وقت تم سورة الحمد کی قرائت کرتے ھو "ایاک نعبدوایاک نستعین" تو تم اپنے نفس اور جسم کو اللہ قادرو حکیم کی استعانت کے علاوہ کسی دوسری استعانت کے اثر سے پاک وصاف کرلیتے ھو۔(یعنی صرف اللہ سے استعانت چاھتے ھو کسی اور سے نھیں )اور یہ خشوع کی پسندیدہ عادت ھر روز پانچ مرتبہ حتمی ھوجاتی ہے صبح ظھر،عصر،مغرب،اور عشاء،اور اگر تم چاھو اس میں مستحب نمازوں کا اضافہ کر سکتے ھو۔(کتاب "آسان مسائل" آیت اللہ سیستانی دامت برکاتہ)

Add comment


Security code
Refresh