www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

391503
اھل سنت و الجماعت کا دوسرا اھم فقھی مکتب ، مکتب مالکی ہے۔ یہ مکتب مدینہ میں وجود میں آیا اور وھیں سے دنیا کے دیگر مناطق میں پھیلا۔ مکتب مالکی کو پھچاننے کے لیے ابتدا میں ضروری ہے کہ کسی حد تک اس کے بانی مالک بن انس کی شخصیت کا مختصر تعارف حاصل کیا جائے۔
مکتب مالکی کے بانی، ابو عبد اللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر ہیں۔ مالک کے دادا یعنی ابو عامر پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود تھے اور جنگ بدر کے بعد مدینہ میں داخل ھوئے۔ وہ جنگ بدر کے علاوہ دیگر تمام جنگوں میں پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تھے۔ (۱)
البتہ بعض مورخین کا کھنا ہے کہ ابو عامر پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد مدینہ میں داخل ھوئے۔ اسی وجہ سے انھیں تابعین میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے پیغمبر کی حیات کو درک نھیں کیا بلکہ بعض اصحاب کو درک کیا ہے۔ (۲)
بھر حال مالک مدینہ میں پیدا ھوئے اور ان کے بارے میں کھا گیا ہے کہ وہ دو، یا تین ،یا چار سال شکم مادر میں رھے ہیں۔ ابن عبد البر کا کھنا ہے: واقدی کے علاوہ دوسرے مورخین نے لکھا ہے کہ مالک کے شکم مادر میں حمل کی مدت تین سال تھی۔(۳)
مالک نے ابتدائے طفولیت سے ھی قرآن کو حفظ کرنا شروع کر دیا تھا اور حفظ قرآن کے بعد احادیث کو حفظ کیا۔ مالک کا باپ احادیث سے زیادہ آشنائی نھیں رکھتا تھا اس وجہ سے مالک نے کوئی بھی حدیث اپنے باپ سے نقل نھیں کی ۔ لیکن ان کا چچا اور دادا حدیث کے میدان میں کافی اونچے مقام کے حامل تھے۔ (۴)
مالک کی ماں (عالیہ) نے ان کی علمی اور اخلاقی تربیت میں بھت بڑا رول ادا کیا۔ عالیہ بھترین لباس انھیں پھناتی تھی اور مدرسہ بھیجتی تھیں۔ اور ان سے کھتی تھی: ربعیہ کے پاس جاو علم سے پھلے ادب اور اخلاق کا ان سے درس حاصل کرو۔(۵)
مالک نے فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے آغاز سے ھی اس میں اپنی رائے کو شامل کرنا شروع کر دیا۔ بعض روایات سے یوں معلوم ھوتا ہے کہ مالک سات یا آٹھ سال ابن ھرمز کے پاس تھے اور ان سے علم حاصل کرتے رھے۔
مالک کچھ عرصہ کے بعد نافع موسی بن عمر کے پاس تحصیل علم کے لیے چلے گئے اور اس سے بھت سارے علوم حاصل کئے۔ مالک کا علم حاصل کرنے میں حد سے زیادہ شوق اس بات کا سبب بنتا تھا کہ کبھی کبھی آدھا آدھا دن نافع کے گھر کے باھر نافع کا انتظار کرتے تھے تاکہ وہ گھر سے باھر آئیں اور ان کے ساتھ مسجد میں جائیں۔ ان سے فقہ اور حدیث کے سلسلے میں سوال کرتے تھے حالانکہ نافع کا گھر مدینہ سے باھر بقیع میں تھا۔ (۶)
مالک کو ابن شھاب سے کافی لگاو تھا عید کے دن نماز عید ادا کرنے کے بعد ابن شھاب کے گھر کے باھر بیٹھے گئے ابن شھاب نے اپنی کنیز سے کھا: دروازہ پر کون بیٹھا ہے؟۔ کھا: مالک، کنیز سے کھا : اسے گھر میں لے آو۔ جب مالک گھر میں داخل ھوئے ابن شھاب نے ان سے کھا: کیا گھر نھیں گئے؟ کھا: نھیں۔ کھا: کیا کچھ کھایا ہے؟ کھا: نھیں۔ ابن شھاب نے کھا: پس جاو کھانا کھاو۔ مالک نے کھا: کھانے کی احتیاج نھیں ہے۔ ابن شھاب نے پوچھا: پس کیا کام ہے؟ کھا: میرے لیے حدیث نقل کریں۔ ابن شھاب نے الواحی کو نکالا اور ابن مالک کو چالیس حدیثیں سکھائیں۔ مالک نے ان سے مزید مطالبہ کیا۔ لیکن ابن شھاب نے کھا فی الحال یھی تمھارے لیے کافی ہیں۔ اگر تم ان کو حفظ کرو گے تو راویان حدیث میں سے شمار ھو جاو گے۔
مالک نے کھا: میں نے انھیں حفظ کر لیا ہے۔ ابن شھاب نے کتاب کو مالک کے ھاتھ سے لے لیا اور ان سے حدیث سننا شروع کیا۔ مالک نے سب ٹھیک ٹھیک جواب دئے اس کے بعد ابن شھاب نے مالک کی طرف رخ کیا اور کھا: اٹھو تم خود علم کا خزانہ ھو۔(۷)
بعض نے لکھا ہے کہ مالک نے سترہ سال کی عمر میں فتویٰ دینا شروع کیا اگر چہ بعض نے اس بات کا انکار کیا ہے۔ مالک نے ابتداء میں مسجد میں درس دینا شروع کیا لیکن اس کے بعد کہ حکومت کی طرف سے انھیں اذیتیں ھونے لگیں پیشاب نہ رکنے کی بیماری میں مبتلا ھو گئے اس وجہ سے انھوں نے گھر میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا۔ اور بھت کم گھر سے باھر نکلتے تھے۔
حوالہ جات
[1]. فكر السامى، ج 2، ص 446.
[2]. مالك حياته و عصره، ص 25.
[3]. انتقاء، ص 12.
[4]. مالك حياته و عصره، ص 26.
[5]. ترتيب المدارك، ج 1، ص 119.
[6]. گزشتہ حوالہ.
[7]. مالك حياته و عصره، ص 34.

Add comment


Security code
Refresh