www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

391501
ابوعبداللہ محمد بن ادریس بن عباس شافع، شافعی مذھب کے موسس اور رئیس ہیں، آپ اھل سنت کے تیسرے امام ہیں اور امام شافعی کے نام سے مشھور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب جناب ھاشم بن عبد مناف کے بھتیجے کی نسبت سے جناب ھاشم بن عبدالمطلب تک پھنچتا ہے۔آپ کے جد ”شافع بن سائب“ ہیں، جنھوں نے رسول خدا کا زمانہ دیکھا ہے۔ آپ فلسطین کے کسی ایک شھر”غزہ یا عقلان“ یا ایک قول کی بناء پر یمن میں ۱۵۰ھجری میں متولد ھوئے اور اسی روز حنفی مذھب کے موسس ابوحنیفہ کا انتقال ھوا۔
ان کے والد کا بچپن ھی میں انتقال ھوگیا تھا اور اپنی والدہ کے ساتھ مکہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ کی زندگی بھت ھی سخت اور فقر و فاقہ میں گذری۔ آپ نے فقہ وحدیث کے دروس مکہ میں حاصل کئے اور ظاھرا ایک مدت تک یمن میں شعر و لغت اور علم نحو حاصل کیا، یھاں تک کہ مصعب بن عبداللہ بن زبیر نے آپ کو رائے دی کہ علم حدیث و فقہ حاصل کریں، لھذاآپ مدینہ چلے گئے اس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی وھاں پر آپ نے مالکی مذھب کے موسس اور راھنما مالک بن انس کے پاس علم حاصل کرتے رھے۔
شافعی خود کھتے ہیں: میں مکتب میں تھا ، قرآن کے معلم سے آیات سیکھتا اور ان کو حفظ کرتا تھا اور استاد جوبات بھی کھتے تھے وہ میرے ذھن میں بیٹھ جاتی تھی۔ ایک روز انھوں نے مجھ سے کھا : میرے لئے جائز نھیں ہے کہ میں تم سے کوئی چیز لوں، اس وجہ سے میں مکتب سے باھر آگیا ۔ مٹی کے برتن، کھال کے ٹکڑوں اور کھجور کے چوڑے پتوں کے اوپر حدیثیں لکھتا تھا ، آخر کار مکہ چلا آیا اور ھذقیل قبلیہ کے درمیان زندگی بسر کرنے لگا ، ۱۷سال وھاں پر رھا، جھاں پر بھی وہ کوچ کرتے تھے میں بھی ان کے ساتھ کوچ کرتا تھا ،جب میں مکہ واپس پلٹاتو میں نے شعر و ادب ، اخبار کو بھت اچھی طرح سیکھ لیا تھا ، یھاں تک کہ ایک روز زبیریوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے کھا: میرے لئے بھت سخت ہے کہ تم اتنی ھوشیاری اور فصاحت کے باوجود فقہ حاصل نہ کرو، لھذا میں تمھیں مالک کے پاس لے جاؤں گااس کے بعد میں نے مالک کی کتاب ”الموطا“ جو پھلے سے میرے پاس موجود تھی ، ۹روز میں اس کا خوب مطالعہ کیا اور پھر مدینہ میں مالک بن انس کے پاس چلا گیا اور وھاں پر علم حاصل کرنے لگا۔
امام شافعی، ”مالک بن انس“ کے مرنے تک مدینہ میں رھے اور پھر یمن چلے گئے، وھاں پر آپ اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے ، اس وقت یمن کا والی، ھارون الرشید کا گورنر بھت ظالم انسان تھا۔ لھذا اس نے اس بات سے ڈرتے ھوئے کہ شاید شافعی ، علویوں کے ساتھ مل کر شورش برپانہ کردے ، ان کو گرفتار کرکے ھارون الرشید کے پاس بھیج دیا ، لیکن ھارون نے ان کو معاف کردیا۔ محمد بن ادریس ایک مدت تک مصر اور پھر بغداد چلے گئے ،وھاں پر انھوں نے تدریس شروع کردی، وھاں دو سال تدریس کرنے کے بعد دوبارہ مکہ آگئے ، پھر دوبارہ بغدادگئے اور ماہ رجب کے آخر میں ۲۰۰ ھجری کو فطاط مصر میں انتقال ھوا، اس وقت آپ کی عمر ۵۴ سال تھی ، آپ کی قبر مصر میں بنی عبدالحکم کے مقبرہ میں شھداء کی قبروں اور اھل سنت کی زیارت گاہ کے پاس ہے ۔ آپ کے مشھور شاگرد احمد بن حنبل ہیں جو کہ حنبلی مذھب کے موسس تھے۔
اھل سنت نے آپ کے بھت سے آثار کا ذکر کیا ہے لیکن ھم یھاں پر چند کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
۱۔ الام
۲۔ المسند الشافعی
۳۔ السنن۔
۴۔ کتاب الطھارة۔
۵۔ کتاب استقبال القبلة۔
۶۔ کتاب ایجاب الکبیر۔
۷۔ صلواة العیدین۔
۸۔ صلواة الکسوف۔
۹۔ المناسک الکبیر۔
۱۰۔ کتاب الرسالة الجدیدة۔
۱۱۔ کتاب اختلاف الحدیث۔
۱۲۔ کتاب الشھادات۔
۱۳۔ کتاب الضحایا۔
۱۴۔ کتاب کثری الارض و غیرہ۔
چونکہ آپ کی تدریس کے بھترین مراکز بغداد اور قاھرہ میں تھے، اس لئے شافعی مذھب ان کے شاگردوں اور پیروکاروں کے ذریعہ ان دو جگھوں سے دوسری جگھوں پر منتقل ھوا اور آھستہ آھستہ اسلامی ممالک خصوصا شام،خراسان اور ماوراء النھر میں منتشر ھوا۔ اگر چہ ۵ ویں اور چھٹی صدی میں شافعیہ اور حنابلہ کے درمیان بغداد میں اور شافعیہ اور حنفیہ کے درمیان اصفھان میں کافی لڑائیاں ھوئیں، یاقوت کے زمانہ میں شافعیہ ، شیعوں اور حنفیوں سے جنگ کرنے کے بعد شھر رے پر غالب ھوگئے۔ آج کے دور میں شافعی مذھب، مصر،مشرقی اور جنوبی افریقا،مغربی اور جنوبی سعودی عرب، انڈونیشیا، فلسطین کے بعض حصہ، اور ایشیا کے ایک حصہ خصوصا کردستان میں رائج ہے۔ مذھب شافعی کے مشھور علماء میںنسائی، ابوالحسن اشعری، ابواسحاق شیرازی، امام الحرمین، ابوحامد غزالی اور امام رافعی کا نام لیا جاسکتاہے۔

Add comment


Security code
Refresh