www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

310060
امام ابو حنیفہ، اس عنوان سے کہ آپ نے اھل سنت کے مذاھب میں سے پہلے مسلک کی بنیاد رکھی ہے، مذاھب اسلامی کی تاریخ میں ایک اھم شخصیت اور مقام کے حامل ہیں لھذا ان کے نسب، نشو و نما و پرورش، سماجی حیثیت، اساتذہ، اجتھاد کی روش، فقہ کی تدریس کی روش، شاگردوں کی تربیت وغیرہ کی شناخت و معرفت ھمیں حنفی مذھب اور اس کی خصوصیات و امتیازات کو سمجھنے میں مددگار و معین ثابت اور اس سے نزدیک کر سکتی ہے۔
امام ابو حنیفہ اور ان کا سماجی طبقہ
اکثر و بیشتر منابع ان کا اور کے اجداد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن زوطی (۱)، یہ کھا جا سکتا ہے کہ تمام منابع ان کے نام کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، سوائے خطیب بغیدادی (۲) کے، جبکہ ان کے جد کے سلسلے میں تمام منابع ان کا ذکر زوطی کے نام سے کرتے ہیں، الجواھر المضیئہ کے مصنف (۴) امام آپ کے سلسلہ نسب کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: نعمان بن ثابت بن کاوس بن ھرمز بن مرزبان بن ہھرام بن کھرکز بن ماحین۔ (۵)
بعض منابع نے آپ کے جد کا زوطی کی بجای ماہ (۶) تحریر کیا ہے۔ (۷) اکثر مصادر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ کا تعلق بابل سے تھا، مسلمانوں کے ذریعہ کابل کی فتح احتمالا ان کے جد کے زمانے میں ھوئی ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اسیر ھو کر بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور پھر آزاد ھو کر ان کے غلاموں میں شامل ھو جاتے ہیں۔ (۸) البتہ بعض منابع نے آپ کو اصالتا نساء، ترمذ اور انبار کا بھی لکھا ہے۔ (۹)
روایات کے یہ اختلافات سبب بنے کہ سراج ھندی (۱۰) درج ذیل روش سے ان میں مناسبت و ھماھنگی پیدا کریں وہ لکھتے ہیں: امام ابو حنیفہ کے جد کا تعلق کابل سے تھا اور پھر انھوں نے وھاں سے نساء اور ترمذ کی طرف نقل مکانی کیا اور ترمذ میں ثابت کی پیدائش اور نشو و نما ھوئی۔ (۱۱) جبکہ امام ابو حفیفہ کے پوتے اسماعیل بن حماد آپ کی اسارت کا انکار کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ ھمارے اجداد سے ساتھ ھرگز بھی ایسا کچھ پیش نھیں آیا ہے۔(۱۲) روایت میں آیا ہے کہ ثابت کے باپ کسی تھوار اور جشن کے موقع پر امام علی علیہ السلام کی خدمت میں پھنچے اور آپ کو تحفے کے طور پر فالودہ پیش کیا تو امام امیر المومنین علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ھمارے لیے ھر روز تھوار اور جشن کا روز ہے۔ (۱۳) اور یہ بھی نقل کیا جاتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے ان کے اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی تھی، جس کے اثرات و برکات ابو حنیفہ میں ظاھر ھوئے۔ (۱۴)
بھر حال ابو حنیفہ ایک جھت سے ایرانی النسل ہیں اور آپ کے اجداد اس ملک کے مشرقی علاقہ میں ساکن تھے، منابع میں آپ کے صرف ایک بیٹے کا ذکر ملتا ہے جس کا نام حماد ہے اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ کی طرف بھی کوئی اشارہ ذکر نھیں ھوا ہے۔ اکثر مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ آپ ۸۰ سن ھجری قمری میں (۱۵) کوفہ میں پیدا ھوئے۔ (۱۶) اور سن ۱۵۰ ھجری قمری میں بغداد میں وفات پائی۔ (۱۷) مطابق ۷۰۰ سے ۷۶۷ سن عیسوی۔
امام ابو حنیفہ کے مالی حالات اچھے تھے، ان کے پیشے اور کام جانوروں کی کھال کی تجارت سے ان کی اس بات کی تصدیق ھوتی ہے جس میں تاریخی و رجالی حوالے سے انھیں صاحب مقام و صاحب ثروت و سخاوت کھا گیا ہے اور ان کے اجداد کے بارے میں جیسا کہ امام علی علیہ السلام (۱۹) کو تحفہ دینے والی روایت سے پتہ چلتا ہے، اس سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی مالی لحاظ سے معاشرہ کے مرفہ اور خوشحال لوگوں میں شامل تھے۔
امام ابو حنیفہ کی تعلیم اور اساتذہ
اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد (۲۰) کے گھرانے کے مالی حالات مضبوط تھے، طبیعی ہے کہ ان کے والد کی خواھش اور آرزو ھوگی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں حالانکہ ان کے گھرانے میں حصول علم کا کوئی رواج نھیں تھا لھذا اس امر کے حصول کے اسباب کا فراھم ھونا لازمی و ضروری تھا۔ ابتداء میں تو آپ مسجدوں میں کبھی کبھی تشکیل پانے والے دروس اور جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے اور انھیں جلسات میں انھیں اپنی استعداد کا علم ھوا اور علماء بھی ان کی ذکاوت کی طرف متوجہ ھوئے اور انھیں حصول علم و دانش کی طرف رغبت دلائی۔ در حقیقت ان کا شوق شعبی (۲۱) جیسے دانشمند کی تشویق کی وجہ سے اس طرف مائل ھو گیا اور آپ ھمہ تن اس کے حصول میں لگ گئے۔
اس دور میں علمی و تعلیمی حلقے تین شعبوں میں نمایاں تھے:
۱۔ اصول عقائد کی بحث میں، معاشرہ کے مختلف فرق و مذاھب کے اعتقادات پر بحث و گفتگو کی جاتی تھی۔
۲۔ علماء حدیث کے حلقے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو ان کی فقھی جھات پر توجہ دئیے بغیر نقل اور بیان کرتے تھے اور احتمالا اس طرح کے حلقے کوفے میں زیادہ نھیں تھے۔
۳۔ کتاب و سنت سے فقھی مسائل کے استنباط کے حلقے۔ (۲۲)
ابو حنیفہ نے شروع میں ایک مدت تک اصول عقاید کے دروس و حلقات میں شرکت کی۔ اس زمانہ کی بین النھرین کی سیاسی فضا اور فرقہ گرایی نے علم کلام کو ایک کشش عطا کر دی تھی، لیکن مختلف اسباب (۲۳) کی بناء پر انھوں نے علم کلام کو ترک کر دیا اور فقہ کی طرف زمینہ فراھم ھونے کی وجہ سے اس طرف مائل ھو گئے۔ خطیب بغدادی اس تبدیلی کی دلیل پیش کرتے ھوئے اس کا ذکر اس طرح سے کرتے ہیں:
پھر میں نے علم کلام میں مھارت حاصل کی اور علم کے معروف افراد میں میرا شمار ھونے لگا، میرا حلقہ درس حماد بن حسن بن ابی سلیمان (۲۴) کے حلقہ درس سے نزدیک تھا، ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے طلاق کے بارے میں سے ایک فقھی سوال کیا، جس کا میں جواب نھیں دے سکا اور اسے معلوم کرنے کے لیے حماد کے پاس بھیجنا پڑا اور میں نے اس سے کھا کہ جواب ملنے کے بعد وہ مجھے ضرور بتائے کہ کیا اسے کیا جواب ملا ہے۔ اس نے ایسا ھی کیا لیکن میں نے اس کے بعد سے یہ فیصلہ کیا کہ میرے لیے علم کلام بھت ھو گیا اور حماد کی شاگردی اختیار کر لی اور کچھ عرصہ کے بعد میں اس کے بھترین شاگردوں میں شامل ھو گیا، اس لیے کہ میں درس میں محنت کرتا، اس کا مباحثہ کرتا، یھاں تک کہ میں نے مسلسل دس سال ان کے درس میں گزارا۔ (۲۵)
المنتظم فی التواریخ الملوک و الامم کے مصنف (۲۶) نے آپ کے درس قفہ میں شرکت کی ایک اور وجہ بیان کی ہے، جس میں ان کے فقہ کی طرف متوجہ ھونے کا سبب معاشرہ میں فقہ کی اھمیت اور فقھاء کے جوانی و پیری میں احترام و اکرام کو قرار دیا ہے۔ (۲۷)
منابع تاریخی ابو حنیفہ کو تابعین مین شمار کرتے ہیں، تابعی وہ ہے جس نے صحابہ کو دیکھا ھو، جبکہ اس بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، قاضی ابو یوسف (۲۸) سے نقل ھوا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ کو یہ کھتے ھوئے سنا ہے: میں سن اسی ھجری قمری میں پیدا ھوا اور سن ۹۶ ھجری قمری میں اپنے والد کے ھمراہ حج کا سفر کیا اور جب ھم مسجد حرام میں داخل ھوئے تو میں ایک وھاں ایک بڑا حلقہ درس دیکھا، میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ حلقہ درس کس کا ہے؟ انھوں نے کھا: عند اللہ بن جزء زبیدی، صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، میں آگے بڑھا اور میں نے انھیں رسول خدا (ص) سے یہ حدیث نقل کرتے ھوئے سنا: من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ و رزقہ من حیث لا یحتسب۔ (۲۹)
اگر چہ حماد بن ابی سلیمان کا شمار ابو حنیفہ کے مھم ترین استادوں میں ھوتا ہے، لیکن انھوں نے دوسرے اساتذہ سے کسب علم و دانش کیا ہے۔ جمال الدین یوسف مزی (۳۰) صاحب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال نے ابو حنیفہ کے اساتذہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں بھت سے مشھور افراد جیسے طاووس بن کیسان (۳۱)، عاصم بن النجود (۳۲)، عکرمہ مولی ابن عباس (۳۳)، محمد بن مسلم شھاب زھری (۳۴) اور اسی طرح سے شیعہ اماموں میں سے ابی جعفر محمد بن علی بن حسین (۳۵) اور زید بن علی بن حسین (۳۶) کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۳۷)
خلیفہ عباسی ابو جعفر منصور نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا؟ تو انھوں نے جواب دیا: حماد بن ابی سلیمان اور عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کے شاگردوں سے۔ (۳۸) اور جیسا کہ اس سے پھلے بھی ذکر کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے مھم ترین اور مشھور ترین استاد اور شیخ حماد بن ابی سلیمان تھے اور انھوں نے فقہ و دانش کو ابراھیم نخعی (۳۹) سے حاصل کیا۔ ابراھیم کا شمار اپنے زمانہ کے سب سے دانا اصحاب رای میں ھوتا ہے ان کا انتقال سن ۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی میں ھوا۔
اسی طرح سے ابو حنیفہ نے فقہ میں شعبی کے محضر سے استفادہ کیا، جبکہ ابراھیم اور شعبی نے شریح (۴۰)، علقمہ بن قیس (۴۱) اور سروق بن اجدع (۴۲) سے استفادہ کیا اور اور یہ سب عبد اللہ بن مسعود (۴۳) اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ اور ان دونوں صحابیوں نے کوفے میں سکونت کے عرصہ میں فقہ کے مضبوط ستون کی بنیاد ڈالی۔ (۴۴) البتہ عبد اللہ بن مسعود کی طولانی اقامت کا اس میں زیادہ اھم اور موثر کردار رھا ہے۔ (۴۵)
مجموعی طور پر یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کا فقھی مبناء، جس نے بعد میں نام پیدا کیا، عبد اللہ بن مسعود کے ذریعہ وجود میں آیا، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ ابو حنیفہ کے جملہ اساتذہ میں سے ایک زید بن علی زین العابدین تھے، جو اثنا عشری شیعوں کے چوتھے امام علی بن حیسن علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ زید جو زیدیہ مسلک کے رئیس شمار ھوتے ہیں، بھت سے علوم میں صاحب کمال تھے، وہ علم قراءات قرآن،فقہ و عقائد میں اپنے زمانہ کے مھم اور برجستہ عالم تھے اور معتزلہ ان کا شمار اپنے شیوخ میں سے کرتے ہیں۔ (۴۶) اور معتزلی نے جس کے افکار و آرا سے اثر قبول کیا ہے، اس علمی اتصال کے نتیجہ میں شاید فقہ حنفی اور معتزلہ کے افکار عقلائی کے درمیان ریشہ و رابطہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔
روایت میں ملتا ہے کہ ابو حنیفہ نے دو سال تک زید بن علی علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ہے اور اسی طرح سے ابو حنیفہ شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے سے علمی رابطہ رکھتے تھے۔ (۴۷) اور ابو حنیفہ کے کوفہ سے مکہ، ابن ھبیرہ (۴۸) اور بنی امیہ سلاطین کی سختی کے سبب ھجرت، انھیں مکہ میں ابن عباس سے فقہ میں استفادہ کا موقع میسر آیا، اس لیے کہ ابن عباس کے شاگرد مکہ میں صاحبان درس تھے۔ (۴۹) نقل کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنی علمی زندگی میں تقریبا ساٹھ ھزار مسئلے اور بعض روایات کے مطابق تین لاکھ فقھی مسئلے پیش کرنے میں کامیاب ھوئے۔ (۵۰) امام ابو حنیفہ نے اپنی زندگی میں مشھور شاگردوں کی تربیت اور فقہ کو مدون و مرتب کیا جس کا اکثر نمونہ ان کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی کی کتاب میں ظاھر ھوا ہے، (۵۱) اور اس کے علاوہ بھت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، یا ان کی طرف ان کتابوں کی نسبت دی گئی ہے، جیسے کتاب الصلاۃ جسے کتاب العروس بھی کھا جاتا ہے، کتاب المناسک، کتاب الرھن، کتاب الشروط، ظاھرا یہ کتابیں اپنے موضوع کے حوالہ سے نظیر نھیں رکھتیں۔ کتاب الفرائض، الرد علی القدریۃ، رسالۃ الی البستی، کتاب العالم و المتعلم و کتاب فقہ الاکبر، آخری دو کتابیں عقائد اور علم کلام کے بارے میں ہیں۔ (۵۲)
امام ابو حنیفہ کے فقھی مبانی کو متاثر کرنے والے اسباب
مھم ترین اسباب جنھوں نے امام ابو حنیفہ کے فقھی مبانی پر اثر ڈالا درج ذیل ہیں:
الف: ابو حنیفہ جس معاشرہ میں رھتے تھے انھوں نے اس سے اثر قبول کیا، فقہ اور فتوی میں فضا، ماحول، زمان اور مکان کا بڑا دخل ھوتا ہے، یھی وجہ ہے کہ ابن قیم جوزی (۵۳) نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں، جس کا موضوع اصول فقہ اور اجتھاد ہے، اس کی تیسری جلد کی پھلی فصل کو ان مباحث سے مخصوص کی ہے: فتوی میں تغییر و تفاوت کا زمان و مکان و حالات و نیات و نتائج کے سبب پیش آنا۔ (۵۴) اس جھت سے بین النھرین کے معاشرہ، فضا اور ماحول کے مد نظر، خاص طور پر کوفہ میں اھل رای کے فقھی رشد و شکوفائی ایک خاص اھمیت کی حامل ہے۔ (۵۵) اس لیے کہ ماحول اور فضا کا اثر صرف سیاسی، فلسفی و ادبی افکار تک محدود نھیں ھوتا بلکہ فقیہ کی زندگی میں بھی ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے کا اس کا رابطہ اس فضا اور ماحول سے قریبی ھوتا ہے اور وہ چاھتا ہے کہ تبیین احکام کے ذریعہ سے ان کی مشکلات کے لیے راہ حل پیش کرے، وسیع اسلامی سر زمین جو مخلتف ممالک، ثقافت، نسل، آداب اور عادات کا مجموعہ تھی، یہ تمام باتیں بین النھرین کے درمیان اقوام میں باھمی ارتباط اور قدیم نسل ھونے کی وجہ سے ان کا اثر ابو حنیفہ کی زندگی پر ھونا نا گزیر امر تھا، جس نے ان کے فقھی افکار و نظریات پر اثر ڈالا۔
ب: امام ابو حنیفہ کی زندگی میں اس ایک خاص دور کا بیحد اثر رھا ہے، جس میں وہ مشھور علماء کلام کے حلقہ درس میں شرکت کرتے تھے، ان درسی حلقوں میں قضا و قدر، ایمان، صحابہ کی روش جسے موضوعات پر بحث ھوتی تھی، علم کلام میں عقل اور عقلی مباحث ایک خاص حیثیت کے حامل تھے۔
علم کلام سے مربوط مناظروں کے نتیجہ سے معتزلہ کا ظھور میں آنا بے دلیل نھیں تھا اور اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ اگر چہ ابو حنیفہ کا عقیدہ معتزلہ کے مخالف تھا، لیکن عقل محور افکار کا اثر، قرآن پر زیادہ توجہ دینا اور حدیث پر زیادہ توجہ نہ دینا، کھا جا سکتا ہے کہ علم کلام کے حلقہ درس کے زیر اثر تھا جیسا کہ بعد میں چوتھی صدی ھجری قمری میں اشاعرہ و معتزلہ کے درمیان نھایت اساسی و بنیادی اختلاف نظر کے با وجود ھم یہ دیکھتے ہیں کہ معتزلہ کے افکار کے مطالب کا اثر اھل سنت کے درمیان نطر آتا ہے اور خود اھل سنت میں نظریات کی نرمی و اعتدال کا مشاھدہ ھوتا ہے اور یہ تاثیر ان روشوں سے استفادہ کی وجہ سے تھی جو معتزلہ نے علم کلام میں وارد کر دی تھیں۔ (۵۶)
ج: ایک روایت کے مطابق ابو حنیفہ نے مکتب کوفہ میں اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی صحبت میں اٹھارہ سال گزارے اور ان سے فقہ کا علم حاصل کیا، اس مکتب کا اپنا ایک خاص رنگ تھا، جس کی ابتدا میں عبد اللہ بن مسعود جیسے صحابی وھاں موجود تھے، وہ عراق کے پھلے استاد تھے جن کے پاس خلیفہ دوم جیسا علم، روشن فکری اور خاص دقت نظر موجود تھی، ان کے بعد بھی ابو حنیفہ کے زمانہ تک تمام اساتذہ و تلامذہ نے اس مکتب کی تقویت و ترقی کے لیے محنت کی، ھر فرد نے اپنی بضاعت بھر کوشش کی، تا کہ حدیث اور رای سے اس مکتب کو تقویت دے، یھاں تک کہ اھل رای کے حقیقی وارث حماد بن ابی سلیمان نے اس کے تمام افکار و نظریات جا احاطہ کیا اور اسے ابو حنیفہ کے سپرد کیا اور ابو حنیفہ نے اسے مذھب کی شکل دی اور ایک مستقل پھچان اور ممتاز حیثیت کے ساتھ جھان اسلام کے سامنے پیش کیا۔ (۵۷)
بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر اس طرح سے کیا ہے: فقہ کی بنیاد عبد اللہ بن مسعود نے رکھی، علقمہ بن قیس نخعی نے اس درخت کی آبیاری کی، ابراھیم نخعی نے اسے ثمر تک پھنچایا، حماد بن ابی سلیمان نے اس سے کاٹا اور ابو حنیفہ نے اس سے پکایا، یعنی اس کے اصول و فروع کو ابو حنیفہ نے وسعت عطا کی اور اس تک پھچنے کے راستے کو بتایا اور اس کے ابواب و فصول کو مدون و مرتب کیا اور تمام لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ (۵۸)
د: ابو حنیفہ کی بازار سے نزدیکی شناخت اور رابطے نے ان کے فقھی نظریات پر سیدھا اثر ڈالا اور فقہ معاملات میں ان کے فتاوی و نظریات کافی حد تک واقعیت پر مبنی ھوتے تھے۔ (۵۹) یہ بھی کھا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ بصیرت معاملات کے وقت مشاھدے سے پروان چڑھی نہ کہ فقط درسی حلقے میں علمی بحث و گفتگو سے، اور اس بات کے مد نظر کہ بین النھرین کے جنوبی و مرکزی شھر ساسانیان کے زمانہ سے ھی تجارت کے گرم اور پر رونق بازار رھے ہیں اور مسلمانوں کے اس سر زمین پر وارد ھونے اور سیاسی سرحدوں کے ختم اور ایرانیوں کے اپنے ایک شھر سے دوسرے شھر جیسے اصفھان و خراسان، جو جادہ ابریشم سے نزدیک تھے اور اسی طرح سے بڑی تعداد میں عرب مسلمانوں کی مھاجرت، جو تجارت میں کافی تجربہ رکھتے تھے، اس خطے میں تجارت کے فروغ کا سبب بنی۔ اور اس رونق نے مسلمان فقھاء کو نئے سوالات اور مسائل سے رو برو کیا جو اس سے پھلے وجود نھیں رکھتے تھے۔ اور یھاں پر یہ بات نکتہ بھی اھمیت کا حامل ہے کہ ابو حنیفہ نے مکمل طور پر درس و تدریس میں مشغول ھونے کے بعد بھی بازار سے اپنے رابطے کو منقطع نھیں کیا اور شراکت میں تجارت بھی جاری رکھی۔ (۶۰)
فقہ حنفی یا فقہ اھل رای کی روش و خصوصیت
جیسا کہ اس سے پھلے ذکر ھو چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ اپنے فقھی نظریات میں اس مکتب و مدرسہ کے پیروکار تھے جس کی بنیاد عبداللہ بن مسعود نے کوفہ میں رکھی تھی اور ان کے شاگردوں نے اسے پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، عبداللہ بن مسعود کے شاگرد بھی ان کی طرح سے جھاں پر بھی قرآن مجید سے حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نص نھیں پاتے تھے، وھاں اپنی رای اور نظر سے اجتھاد کرتے تھے اور اس روش کا سلسلہ آگے بڑھتا رھا، یھاں تک کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں نے اس روش کے قاعدوں کو منظم و منضبط کیا، امام ابو حنیفہ اس بارے میں اس طرح سے بیان کرتے ہیں:
میں اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ھوں اور اگر کسی امر کو اس میں نھیں پاتا ھوں تو سنت رسول خدا (ص) کی طرف رجوع کرتا ھوں اور اگر سنت میں بھی اس کا ذکر نھیں ملتا ہے تو سخن صحابہ کی طرف رجوع کرتا ھوں اور ان میں سے جس پر چاھتا ھوں عمل کر لیتا ھوں اور دوسرے کے کلاموں اور باتوں کو ان کی باتوں پر ترجیح نھیں دیتا ھوں، لیکن اگر بات ابراھیم، شعبی، ابن سیرین، (۶۱)، حسن بصری (۶۲)، عطاء بن ابی ریاح (۶۳) اور سعید بن مسیب (۶۴) تک پھنچ جاتی ہے، تو یہ لوگ وہ ہیں جنھوں نے اجتھاد کیا ہے تو میں بھی ان کی طرح سے اجتھاد کرتا ھوں۔ (۶۵)کوفہ کے فقھی مدرسہ کی شھرت اھل رای کے مکتب کے نام سے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ روی کے معنا کیا ہیں؟
منابع و مآخذ:
Zota .۱
۲۔ خطیب بغدادی، احمد بن علی بن ثابت بغدادی (۳۹۲۔ ۴۶۳) مطابق (۱۰۰۲۔۱۰۷۲) پانچویں صدی کے مورخ نے حدیثیں جمع کرنے کے لیے مخلتف شہروں کا سفر کیا۔
۳۔ خطیب بغدادی، ابی بکر احمد بن علی، کتاب تاریخ بغداد و مدینہ السلام۔ جلد ۱۳ صفحہ ۶ حدیث ۳۲۵۔
۴۔ عبد القادر بن ابی الوفاء قریشی متوفی ۷۷۵ ھ مطابق ۱۳۷۵ عیسوی۔
۵۔ عبدالقادر بن ابی الوفاء، کتاب الجواہر المضیئۃ، جلد ۱ صفحہ ۸۵۔
Mah.۶
۷۔ ابن خلکان، ابی العباس شمس الدین احمد بن محمد، کتاب وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، جلد ۵ صفحہ ۴۰۵۔
۸۔ بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب فتوح البلدان جلد ۲ صفحہ ۴۸۹۔
۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ترجمہ احمد بن محمد سنجری، جلد ۳ صفحہ ۳۵۹۔
۱۰۔ عمر بن اسحاق بن احمد بن غزنوی، سراج الدین ابو حفص ھندی ان کے بعد فقیہ حنفی مصری (۷۰۴۔ ۷۷۳) ھجری مطابق (۱۳۰۵۔۱۳۷۲) عیسوی، کتاب تفسیر القرآن، مجموعہ فتاوی و شرح ھدایۃ فی الفقہ، مرغینانی و ۔ ۔ ۔ ۔
۱۱۔ تقی الدین تمیمی، کتاب الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ جلد ۱ صفحہ ۸۶۔
۱۲۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔
۱۳۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔
۱۴۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۶۔
۱۵۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۲۔
۱۶۔ اسماعیل پاشا بغدادی، کتاب ھدیۃ العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنفین، جلد ۲ صفحہ ۴۹۵۔
۱۷۔ محمد بن اسحاق الندیم معروف نہ ابی یعقوب براق، کتاب الفہرست، تحقیق، رضا تجدد، صفحہ ۲۵۵۔
۱۸۔ خطین بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۵۔
۱۹۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، جلد ۵ صفحہ ۴۹۵۔
۲۰۔ منابع میں امام ابو حنیفہ کے مادری خاندان، ان کے مالی حالات اور سماجی طبقہ کے بارے کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
۲۱۔ عامر بن الشراجیل الشعبی (۱۹۔ ۱۰۳) ھجری قمری مطابق (۶۴۰۔ ۷۲۱) عیسوی، راویان حدیث اور تابعین میں سے ہیں، ضرب المثل کے حفظ میں شہرت رکھتے ہیں، کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہی انتقال کیا، خلیفہ اموی عبد الملک بن مروان سے مراسم پیدا ہونے کے بعد اس کے دوست و مصاحب ہوئے، اس کے بعد عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں قاضی مقرر ہوئے، فقیہ و محدث و شاعر بھی تھے۔
۲۲۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۱۸۔
۲۳۔ شاید اس دور کے دوسرے علوم کے ماہر علماء کی علم کلام اور اس کی خاص خصوصیات کی بناء پر، جس میں معنویت کم اور جدال کا شائبہ زیادہ پایا جاتا ہے، اور یہ کہ اس کی ضرورت سماج کے ایک خاص طبقہ کو ہوتی ہے فقط، اس سے مخالفت کے اسباب میں سے شمار کئے جا سکتے ہیں۔
۲۴۔ حماد بن ابی سلیمان، علامہ، فقیہ اور عراق کے امام ہیں، ابراہیم نخعی کے شاگرد ہیں، (۱۲۰ ھجری قمری مطابق ۷۳۸ عیسوی) میں انتقال ہوا، صاحب مال و تجمل تھے۔ (سیر اعلام البنلاء جلد ۵ صفحہ ۲۳۱)
۲۵۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۳ صفحہ ۳۳۳۔
۲۶۔ ابن جوزی، عبد الرحمان بن علی، (۵۰۸۔ ۵۹۷) ھجری قمری مطابق (۱۱۱۴۔۱۲۰۱) عیسوی کثیر التالیفات ہیں۔
۲۷۔ ابن جوزی، ابو الفرج، عبد الرحمان بن علی کتاب المنتظم فی التواریخ الملوک والامم ص ۲۲۹۳۔
۲۸۔ یعقوب بن ابراہیم، ابو یوسف (۱۱۳۔۱۸۲) ھجری قمری مطابق (۷۳۱۔۷۹۸) عیسوی، ھارون رشید کی طرف سے قاضی القضاۃ تھے اور امام ابو حنیفہ کے سے معروف شاگرد ہیں۔
۲۹۔ ترجمہ، جو بھی اللہ کے دین کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ابن دبیثی، تاریخ بغداد کے ذیل میں، جلد ۱ ص ۴۹۔
۳۰۔ جمال الدین یوسف مزی، (۶۵۴۔۷۴۲) ھجری قمری مطابق (۱۲۵۶۔۱۳۴۱) عیسوی، محدثین میں سے ہیں، حلب میں پیدا ہوئے اور کسب علم کے لیے کثرت سے سفر کیا اور آخر میں دمشق میں مستقر ہوئے اور ۵۰ سال تک حدیث کا درس کہتے رہے۔
۳۱۔ طاوس بن کیسان، (۳۳۔۱۰۶) ھ ق مطابق (۶۵۳۔۷۲۴) ع، بزرگان تابعین میں سے ہیں، فقہ و حدیث میں نہایت پر جرات، فارس کے رہنے والے تھے جبکہ پرورش یمن میں ہوئی۔
۳۲۔ عاصم بن ابی النجود، مشہور سات قاریوں میں سے ایک ہیں، متوفی (۱۲۸ ھ مطابق ۷۴۵ ع) تابعین میں سے ہیں، قراءات اور حدیث میں قابل اعتماد تھے۔
۳۳۔ عکرمہ ابن عباس کے غلام ہیں، بربر قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، متوفی (۱۰۷ ھ ق مطابق ۷۲۶ ع) تابعین میں سے ہیں اور تفسیر میں قابل اعتماد ہیں۔
۳۴۔ محمد بن مسلم بن عبد اللہ بن شہاب زھری (۵۸۔۱۲۴) ھ ق مطابق (۶۷۸۔ ۷۲۴۲) ع، حدیث کو مدون اور مرتب کرنے والے پہلے محدث ہیں، بزرگان فقہ و حدیث اور مدینہ کے تابعین میں سے ہیں، شام میں مستقر تھے اور عمر بن عبد العزیز، خلیفہ اموی کے مورد توجہ تھے۔
۳۵۔ محمد بن علی ملقب بہ باقر، شیعوں کے پانچویں امام معصوم ہیں، (۵۷۔۱۱۴ ھ ق) مطابق (۵۷۳۔۶۷۷)ع۔
۳۶۔ زید بن علی (۸۰۔ ۱۲۰ ھ ق) مطابق (۶۹۹۔۷۳۸ ع) زیدیہ مذہب کے رئیس و پیسوا اور اپنے زمانہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔
۳۷۔ مزی۔ کتاب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال، جلد ۲۹ ص ۴۱۸، ۴۱۹۔
۳۸۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۳۳۰۔
۳۹۔ ابراھیم بن زید نخعی (۴۶۔۹۶ ھ ق) مطابق (۶۶۶۔۷۱۵ ع) بزرگ تابعین میں سے ہیں اور اپنے زمانہ میں فقیہ عراق تھے۔
۴۰۔ شریح بن حارث کندی، متوفی (۷۸ ھ ق مطابق ۶۹۷ ع) صدر اسلام کے مشہور ترین قضاۃ میں سے ہیں۔
۴۱۔ علقمہ بن قیس نخعی ھمدانی متوفی (۶۲ ھ ق مطابق ۶۸۱ ع) فقیہ عراق اور ابن مسعود کے شاگرد تھے۔
۴۲۔ مسروق بن اجدع ھمدانی وادعی ثقہ تابعین میں سے ہیں، یمن کے رہنے والے ہیں اور کوفہ میں مستقر تھے، امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے۔
۴۳۔ عبد اللہ بن مسعود متوفی ( ۳۲ ھ ق مطابق ۶۵۳ ع) فضل و عقل اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قربت کے سبب بزرگ صحابہ میں سے ہیں، اھل مکہ ،سابق الاسلام اور صاحب سر رسول (ص) ہیں۔
۴۴۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۶
۴۵۔ ذھبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، کتاب سیر اعلام النبلاء جلد ۱ ص ۴۵۱۔
۴۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۲ ص ۶۵۔
۴۷۔ محمد ابو زھرہ، کتاب ابو حنیفہ حیاتہ و عصرہ، آرائہ و فقھہ صفحہ ۶۸۔
۴۸۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔
۴۹۔ یزید بن عمر بن ھبیرہ (۸۷۔ ۱۳۲ ھ ق مطابق ۷۰۶۔۷۵۰ ع) بین النہرین میں اموی حکومت کے عمال و کارگزار۔
۵۰۔ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد ابی بکر دمسقی، (۶۹۱۔ ۷۵۱ ھ ق مطابق ۱۲۹۲۔۱۳۵۰ ع) فقیہ حنبلی معروف بہ ابن قیم جوزی، مفسر و محدث، حافظ، نحوی، اصولی، متکلم و ۔ ۔ ۔ ۔
۵۱۔ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی (۱۳۱۔ ۱۸۹ ھ ق مطابق ۷۴۸۔۸۰۴ ع) امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے خاص شاگردوں میں سے اور کثیر التصانیف ہیں۔
۵۲۔ کتاب ھدیۃ العارفین اسماء المولفین و آثار المصنفین، اسماعیل پاشا بغدادی جلد ۲ ص ۴۹۵۔
۵۳۔ کتاب اعلام الموقعین، ابن قیم جوزی۔
۵۴۔ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابو بکر معروف بہ ابن قیم جوزی، کتاب اعلام الموقعین عن رب العالمین جلد ۳ ص ۳۔
۵۵۔ اھل رای، ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو حدیث کو قبول کرنے میں سخت گیری سے کام لیتے ہیں اور قیاس و استحسان سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔
۵۶۔ حسین صابری، کتاب تاریخ فرق اسلامی، جلد ۱ ص ۱۴۶۔
۵۷۔ مصطفی ابراھیم الزلمی، فقہ مذاھب میں اختلاف کی بنیادیں، ترجمہ حسین صابری صفحہ ۴۶۔
۵۸۔ المعلم پطرس بستانی، کتاب بستانی عربی انسائکلوپیڈیا جلد ۲ ص ۴۵۶۔
۵۹۔ برٹولڈ اشیولر، تاریخ ایران اوائل اسلام میں، ترجمہ مریم میر احمدی جلد ۲ ص ۲۲۰۔
۶۰۔ خطیب بغدادی، کتاب تاریخ بغداد، جلد ۱۳ ص ۶ حدیث ۳۲۵۔ و ابن حجر عسقلانی، کتاب تھذیب التھذیب جلد ۱۰ ص ۴۰۱۔
۶۱۔ محمد بن سیرین بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۵۳۔ ۷۲۹ ع) فقیہ و محدث، ابتداء میں بزاز تھے مگر بعد میں تقوی و تعبیر خواب میں شہرت حاصل کی۔
۶۲۔ حسن بن یسار بصری (۳۳۔۱۱۰ ھ ق مطابق ۶۴۲۔ ۷۲۸ ع) تابیعین میں سے ییں، اھل بصرہ کے امام اور فقیہ، محدث، اھل عبادت و شجاع تھے، بصرہ میں انتقال ہوا۔
۶۳۔ عطاء بن اسلم بن اسلم بن صفوان (۲۷۔ ۱۱۴ ھ ق مطابق ۶۴۷۔ ۷۳۲ ع) مکہ کے محدث، مفسر اور فقیہ تھے۔
۶۴۔ سعید بن مسیب بن حزن ۱۳۔۹۴ ھ ق مطابق ۶۳۴۔ ۷۱۳ ع) تابعین کے سید و سردار اور مدینہ کے سات فقہاء میں سے ہیں، محدث و فقیہ و صاحب تقوی و ورع تھے۔
۶۵۔ مزی، کتاب تھذیب الکمال، جلد ۲۹ ص ۴۴۳

Add comment


Security code
Refresh