www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

رشتہ ازدواج کے عھد و پيمان کو قبول کرنےسے کل کے لڑکے لڑکي آج کے مياں بيوي اور ايک دوسرے کے شريک حيات بن جاتے ہيں۔ يوں گھروں ميں ايک گھر اور معاشرے ميں ايک نئي "اکائي" کا اضافہ ھوتا ہے۔

 اگرچہ کہ حکيم و دانا خالق کي نگاہ ميں مرد و عورت، دو انساني گوھر، دو ايک جيسي آسماني روح اور ايک دوسرے کے مثل و نظير ہيں۔ جب کہ انساني حقيقت کے لحاظ سے ايک دوسرے کي نسبت ھر ايک کي ذمہ داري برابر ہے۔ ليکن حکمت ِخدا نے ان آسماني گوھروں کو ايک دوسرے سے مختلف اور ممتاز پيکروں، البتہ ايک دوسرے کے ضرورت مند ھونے کے احساس کے ساتھ دو زميني گوھروں ميں سمايا ہے۔

يہ "رشتہ ازدواج"وھي عظيم قانون، ھر لحاظ سے مکمل اور جامع سنت، بھترين رسم زندگي اور وہ خوبصورتي و زيبائي ہے کہ جو اس جھان پر حاکم ہے۔

اِسي طرح "زوجيت" کا يہ مقدس رشتہ اِس عالم ھستي کے معمار کے جمال کي پُر عظمت نشانيوں ميں سے ايک نشاني ہے۔

"شادي" يعني "گھرانے يا خاندان" کي ذمہ داري لينے کے لئے زندگي کے دو ستونوں کا ملاپ اور زندگي کے ترازو کے توازن کے لئے زندگي کے ان دو پلڑوں کي نزديکي۔ اس نئي اکائي "گھرانے" کي تشکيل کے لئے مياں بيوي ميں سے ہر ايک کے مکمل کردار کي شناخت ميں ان کے جسم و جان اور روح کي صفات و تخليق، حکمت ِ الٰھي اور اس جھان مادّي کے طبيعي و فطري فرق بنيادي کردار ادا کرتے ہيں۔

سچ سچ بتائيے کہ گھر بسانے ميں مياں بيوي کا کيا کردار ہے ؟

کس کي ذمہ داري دوسرے سے زيادہ اھم ہے؟

کيا ان دونوں ميں سے کسي ايک کي جگہ کو دوسرے سے تبديل کيا جا سکتا ہے؟

ايک دوسرے کي نسبت ان کے آپس ميں کيا حقوق ہيں ؟

زندگي کي نعمتوں اور اس کے مقابل ان کے حقوق ميں ھر ايک کا حصہ کس نسبت سے ہے؟

اور بالآخر گھر ميں بيوي کي حکومت يا جورو کے غلام کي فضا بھتر ہے يا گھر پر شوھر کے تسلط و برتري اور نوکر بيوي کا ماحول، يا دونوں ميں سے کوئي بھي نہيں ؟

يہ وہ سوالات ہيں کہ جن کے ماھرانہ اور استادانہ جواب کے علاوہ کوئي اور چيز نوجوان دولھا دو لھن کے پريشان ذھنوں کو مطمئن نھيں کر سکتي۔ زندگي کے اس نئے راستے پر قدم رکھنے پر ان دو ھمسفروں کي چشم اميد "استاد"کے راہ گُشا کلمات سے کھلنے والے نئے افق اور دريچوں پر لگي ھوئي ہے کہ جو راستے سے بھي واقف و آگاہ ہ اور محرمِ دل بھي ! ايک دوسرے کے مددگار اور دوستوں کي مانند ھم نے مشاھدہ کيا ہے کہ کبھي کبھي مرد، بيوي کو دوسرے نمبر کا درجہ ديتا ہے! ليکن در حقيقت دوسرے درجے کے انسان کا کوئي تصور موجود نھيں ہے۔ دونوں ايک دوسرے کے مثل و نظير اور امور زندگي ميں برابر حقوق کے مالک ہيں۔ مگر وہ مقامات کہ جھاں خداوند متعال نے انساني مصلحت کي بناء پر مرد و عورت ميں فرق رکھا ہے اور يہ فرق مرد کا نفع يا عورت کا نقصان نھيں ہے۔ لہٰذا مياں بيوي کو چاھيے کہ گھر ميں دو شريک اور ايک دوسرے کے مدد گار اور دوستوں کي مانند زندگي گزاريں۔

حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي(مدّ ظلہ)

Add comment


Security code
Refresh