www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھم ايك بار پھر معصومين علیھم السّلام كے ارشادات كو پیش كر تے ہيں تا كہ اس اھم فر یضے كى ادا ئیگى ميں وہ ھما رے راھنما قرار پا ئيں ۔

الف۔ ايك شخص حضرت ختمى مر تبت (ص) كى خد مت ميں حا ضر ھوا اور آپ(ص) سے نصیحت كى درخو است كي،آپ(ص) نے فرمایا :''والديك فا طعھما وبرھما حیين كانا او میتين''۔ (۱)
''تم اپنے وا لدين كى اطاعت كرواور ان كى ساتھ نيك سلوك كرو ، خواہ وہ زندہ ھوں يا مر چكے ھوں "۔
ب۔ منصوربن جازم كھتے ہيں كہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام كى خدمت ميں حاضر ھوا اور عرض كيا : كس عمل كى زيادہ قدروقيمت ہے ؟
آپ نے فرمايا :
'' الصلوة لوقتھا وبرَّ الوالدين والجھا د فى سبيل اللہ ''(۲)
'' اول وقت ميں نماز كى ادائيگى ، والدين كے ساتھ نيكى اور راہ خدا ميں جھاد''
ج۔ ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميں اپنے وطن اور علاقے اور والدين سے جدا ھو كر ، آپ(ص) كى خدمت ميں مسلمان ھونےكى غرض سے حاضر ھوا ھوں ، اور جس وقت ميں رخت سفر باندھ رھا تھا ميرے والدين ميرى جدائي كے صدمہ سے رو رھے تھے۔
رسول خدا (ص) نے فرمايا :
'' تم واپس چلے جاؤ ، پھلے ماں باپ كو راضى كرو پھر ھمارے پاس آؤ" يہ سن كر اس نے آپ (ص) كے فرمان پر عمل كيا "(۳)
د ۔ رسول خدا(ص) فرماتے ہيں :
''رَضى الرب فى رضى الوالدين وسخط الرب فى سخط الوالدين " (۴)
'' رب كى رضا ، والدين كى رضامندى ميں ہے اور خالق كى ناراضگى والدين كى ناراضگى ميں ہے "۔
ھ ۔ رسول خدا(ص) سے مروى ہے كہ حضرت موسى (ع) نے اللہ تعالى سے اپنے ايك شھيد دوست كے انجام كا سوال كيا تو خدا نے فرمايا كہ وہ جھنّم ميں ہے ، انھوں نے عرض كيا كہ كيا تو نے شھداء سے جنّت كا وعدہ نھيں فرمايا ؟ ،ندا آئي : كيوں نھيں ؟ ' ليكن وہ اپنے والدين كو ھميشہ ستايا كرتا تھا ، اور ميں والدين كى نافرمانى كرنے والوں سے كوئي بھى عمل قبول نھيں كرتا " (۵)
و۔ حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہيں :
'' انَّ العبد ليكون برابو الديہ فى حيا تھما ثم يموتان فلا يقضي عَنھماَ ديونھما وَلاَ يستغفر لھما فيكتبہ اللہ عاقاً "
'' بعض اوقات ايسا ھوتا ہے كہ كوئي بندہ ، اپنے والدين كى زندگى ميں ان كے ساتھ نيكى كرتا ہے ، ليكن جب وہ مر جاتے ہيں تو وہ نہ ان كے قرضے ادا كرتا ہے اور نہ ھى خدا سے ان كے گناھوں كى بخشش طلب كرتا ہے ، تو ايسى صورت ميں خدا اسے والدين كا نافرمان اور عاق لكھ ديتا ہے '' ۔
حضرت اويس قرنى رسالتمآب (ص) كے ايك سچے عاشق اور حقيقى پيروكار تھے ، جن كا كام سار بانى تھا ، اور اس سے وہ اپنا اور اپنى والدہ كا خرچ چلاتے تھے ، وہ اپنے اس عشق و محبّت كے باو جود آنحضرت صّلى اللہ عليہ وآلہ وسّلم كى زيارت سے شرفياب نھيں ھو پائے تھے۔
ايك دن انھوں نے اپنى والدہ سے حضور(ص) كى زيارت كى اجازت مانگى ، تاكہ مدينہ پھنچ كر آنحضرت(ص) كى زيارت كا شرف حاصل كر سكيں ، ليكن وہ اس شرط پر اجازت دينے پر راضى ھوئي كہ مدينہ ميں آدھے دن سے زيادہ نھيں ٹھہريں گے ۔
حضرت اويس قرنى نے مدينہ كا سفر اختيار كيا اور بڑے شوق اور بے پناہ مشكلات كے ساتھ سفر طے كر كے حضور(ص) پاك كے در دولت پر حاضرى دى ، ان كا دل محبوب كے ديدار كے لئے تڑپ رھا تھا اور اشك شوق آنكھوں سے رواں تھے ، ليكن انھيں بتايا گيا كہ سر كار دو عالم (ص) تو مدينہ ميں تشريف فرما نھيں ہيں ، اور كھيں سفر پر گئے ہيں، اپنى ماں سے كئے ھوئے وعدے كے پيش نظر صرف آدھے دن تك آنحضرت(ص) كا انتظار كيا ، ليكن حضور(ص) تشريف نھيں لائے ، لھذا وہ ختمى مرتبت(ص) كى زيارت كا شرف حاصل كئے بغير مدينہ سے واپس چلے گئے ۔
جب حضور(ص) پاك مدينہ تشريف لے آئے اور اپنے گھر پھنچے تو آپ(ص) كو اويس قرنى كے آنے كى خبر دى گئي ۔ حضور(ص) نے فرمايا :
'' اويس قرنى ھمارے گھر ميں نور چھوڑ گئے ہيں ''
پھر فرمايا :
''يفوح روائح الجنة من قبل القرن واشو قاہ اليك يا اويس القرن ''
'' نسيم جنّت قرن كى طرف سے آ رھى ہے ، اے اويس قرنى ھم تمھارى ملاقات كے كس قدر خواھشمند ہيں ''
حوالہ جات:
۱۔اصول كافى ج ۲، ص ۱۵۸۔
۲۔اصول كافى ج۲ ،ص ۱۵۸۔
۳۔ مستدرك الوسائل ج ۲، ص ۶۲۷۔
۴۔ مستدرك الوسائل ج ۲، ص۲۷۔
۵۔اصول كافى ج ۲، ص ۱۶۳۔ 

Add comment


Security code
Refresh