www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

الله اور دين کى طرف توجہ انسان کى فطرت ميں داخل ہے اس کا سرچشمہ انسان کى اپنى سرشت ہے۔ الله تعالى قرآن حکيم ميں فرماتا ہے : "فاقکم وجھک للدّين حنيفا فطرة الله التى فطر النّاس عليھا"(سورہ روم،آیت ۳۰ )

اپنا رخ دين مستقيم کا طرف کرلو وھى دين کو جو فطرت الھى کا حامل ہے اور وھى فطرت کى جس کى بنياد پر اس نے انسان کو خلق فرمايا ہے۔
ھر بچہ کى فطرى طور پر خدا پرست ہے ليکن خارجى عوامل اثر انداز ھوجائيں تو صورت بدل جاتى ہے جيسا کہرسول اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے : "کل مّولد يولد على فطرة الاسلام..."
ھر بچہ فطرت اسلام پر پيدا ھوتا ہے مگر بعدا زاں اس کے ماں باپ اسے يھودى ، عيسائي يا مجوسى ، بنا ديتے ہيں ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ اپنے بچے کے ليے ايسا ماحول پيدا کريں کہ اس ميں فطرى طور پر وديعت کيے گئے عقائد نشو و نما پا سکيں انسان بچپن ھی سے ايک ايسى قدرت کى طرف متوجہ ھوتا ہے کہ جو اس کى ضروريات پورى کر سکے ليکن اس کا ادراک اس حد تک نھيں ھوتا کہ وہ اپنى مرتکز شدہ توجہ کو بيان کر سکے ليکن آھستہ آھستہ يہ توجہ ظاھر ھوجاتى ہے جو بچہ ايک مذھبى گھرانے ميں پرورش پاتا ہے وہ کوئي چار سال کى عمر ميں الله کى طرف متوجہ ھوجاتا ہے اور يھى وہ عمر ہے جس ميں بچے کے ذھن ميں مختلف قسم کے سوالات ابھر نے لگتے ہيں کبھى کبھى وہ الله کا نام زبان پر لاتا ہے اس کے سوالوں اور باتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ اس کى فطرت بيدار ھوچکى ہے اور وہ اس سلسلے ميں زيادہ معلومات حاصل کرنا چاھتا ہے۔
بچہ سوچتا ہے کہ :
سورج کسنے بنايا ہے ؟
چاندتارے کسنے پيدا کيے ہيں؟
کيا الله تعالى مجھ سے پيار کرتا ہے؟
کيا الله تعالى ميٹھى چيزيں پسند کرتا ہے؟
بارش کون برساتا ہے؟
ابو کو کسنے پيدا کيا ہے؟
کيا الله ھمارى باتيں سنتا ہے؟
کيا ٹيلى فون کے ذريعے الله سے باتيں کى جاسکتى ہيں؟
الله کھاں رھتا ہے ؟
اس کى شکل کس طرح کى ہے ؟
کيا خدا آسمان پر ہے؟
چار سال کے بعد بچے اس طرح کے ھزاروں سوال کرتے اور سوچتے ہيں ان سوالات سے واضح ھوجاتا ہے کہ اس کى فطرت خداپرستى بيدار ھوچکى ہے اور وہ يہ باتيں پوچھ کر اپنى معلومات مکمل کرنا چاھتا ہے معلوم نھيں کہ ننّھا منّا بچہ خدا کے بارے ميں کيا تصور رکھتا ہے شايد وہ يہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ابّو کى طرح ہے ليکن اس سے بڑا اور زيادہ طاقتور ہے بچے کا شعور جسقدر ترقى کرتا جاتا ہے خدا کے بارے ميں اس کى شناخت بڑھتى جاتى ہے اس سلسلے ميں ماں باپ پر بھارى ذمہ دارى عائد ھوتى ہے وہ اپنے بچوں کے عقائد کى تکميل ميں بھت اھم خدمت انجام دے سکتے ہيں اس سلسلے ميں اگر انھوں نے کوتاھى کى تو روز قيامت ان سے بازپرس کى جائے گى ماں باپ کو چاھيے کہ بچے کے تمام سوالوں کا جواب ديں اگر انھوں نے ايسا نہ کيا تو بچے کى روح تحقيق مرجائے گى ليکن بچے کے سوالوں کا جواب دينا کوئي آسان کام نھيں جواب صحيح ، مختصر اور بچے کے ليے قابل فھم ھونا چاھيے بچے کا شعور جس قدر ترقى کرتا جائے جواب بھی اس قدر عميق ھونا چاھيے يہ کام ھر ماں باپ نھيں کرسکتے اس کے ليے ضرورى ہے کہ وہ پھلے سے اسکے ليے تيارى کريں زيادہ گھرے اور صبر آزما مطلب بيان نہ کريں کيونکہ يہ نہ فقط بچے کے ليے سودمند نہ ھوں گے بلکہ ناقابل فھم اور پريشان کن بھى ھوں گے چھوٹا بچہ مشکل مطالب نھيں سمجھ پاتا لھذا اس کى طبيعت ، فھم اور صلاحيت کے مطابق اسے دينى تعليم دى جانا چاھيے۔
امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
بچہ تين سال کا ھوجائے تو اسے ''لا الہ الا الله '' سکھائيں پھر اسے چھوڑديں جب اس کى عمر تين سال ، سات ماہ اور بيس دن ھوجائے تو اسے'' محمد رسول الله'' ياد کروائيں پھر چار سال تک اسے چھوڑديں جب چار سال کا ھوجائے تو اسے پيغمبر خدا پر درود بھيجنا سکھائيں۔
بچوں کا چھوٹے چھوٹے اور سادہ دينى اشعار يادکروانا ان کے ليے مفيد اور لذت بخش ھوتا ہے اسى طرح انھيں آھستہ آھستہ نبوت اور امامت کے بارے پھلے رسول الله صلى الله عليہ و آلہ و سلم کے بارے ميں بتائيں کہ الله نے انھيں نبى بنا کر بھيجا تا کہ ھمارى ھدايت کريں پھر ان کى خصوصيات اور کچھ واقعات بتائيں پھر عمومى نبوت کا مفھوم بتائيں اور نبوت کى ضرورى شرائط سے انھيں آگاہ کريں اور يوں ھى امامت کے بارے ميں بھى سمجھائيں چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذريعے کھانى کى صورت ميں پيار سے يہ باتيں کريں گے تو بھت مؤثر ھوں گے ھاں قيامت کے بارے ميں بچہ جلدى متوجہ نھيں ھوتا وہ سوچتا ہے کہ وہ اور اس کے ماں باپ ھميشہ يوں ھى رھيں گے مرنے کو وہ ايک لمبے سفر کى طرح خيال کرتا ہے جب تک بچہ موت کى طرف متوجہ نہ ھو تو ضرورى نھيں ہے بلکہ شايد مناسب بھى نھيں کہ اس سے اس سلسلے ميں بات چيت کى جائے البتہ نہ چاھتے ھوئے بھى ايسے واقعات پيش آجاتے ہيں کہ ماں باپ کو مجبوراً ان کے سامنے موت کى حقيقت کے بارے ميں کچھ اظھار کرنا پڑجاتا ہے ممکن ہے کسى رشتے دار، دوست يا جان پھچان والے شخص کى موت بچے کو سوچنے پر مجبور کردے مثلاً خدا نخواستہ بچے کے دادا وفات پاجائيں اور وہ پوچھے کہ : امّى دادا بّو کھاں چلے گئے ہيں؟
ايسے موقع پر بچے کو حقيقت بتادنى چاھئے جھوٹ نھيں بولنا چاھيے بچے سے يہ کھا جا سکتا ہےتمھارے دادا جان وفات پاگئے ہيں ، وہ دوسرے دنيا ميں چلے گئے ہيں ھر مرنے والا اس دنيا ميں چلا جاتا ہے اگر کوئي نيک ھوا تو جنت کے خوبصورت باغوں ميں خوش رھے گا اور اگر کوئي برا ھوا تو جھنم کى آگ ميں وہ اپنى سزا بھگتے گا بچے کو موت کا معنى رفتہ رفتہ سمجھاياجائے کہ يہ ايک دنيا سے دوسرى دنياکى طرف انتقال ہے اسے جنت ، دوزخ ، حساب کتاب اور قيامت کے بارے ميں سادا سادا اور مختصر طور پر بتايا جانا چاھيے تربيت عقايد کا يہ سلسلہ پرائمرى ، مڈل ، ھائي اور پھر بالائي سطح تک جارى رھنا چاھيے - 

Add comment


Security code
Refresh