www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

512344
دورجدید میں بہت سے عوامل کے نتیجے میں متعدد سماجی و معاشرتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ قدیم سماجی ڈھانچہ،معاشرتی اقدار،خاندانی نظام اور سماجی ادارے شکست وریخت کا شکار ہیں اور ان کی جگہ نیا سماجی ڈھانچہ، اقدار اور ادارے بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل تبدیلیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں:
· خاندانی نظام میں تبدیلی
· شخصی آزادی کا فروغ
· تعدد ازدواج میں کمی
· ارینجڈ میرج کی بجائے لو میرج کا فروغ
· شادی میں تاخیر
· غلامی کا خاتمہ
· دیہاتی کی بجائے شہری معاشرہ
· قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا زوال
· بڑھتی ہوئی آبادی
· نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
· بے روزگاری میں اضافہ
· جرائم کی شرح میں اضافہ
· گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ
· مذہبی اور دانشورانہ معاملات میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار
· رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلی
· تعلیم کا فروغ
· میڈیا کا معاشرے میں بڑھتا ہوا کردار
خاندانی نظام میں تبدیلی
قدیم دور میں مشترک خاندان کا رواج تھا۔ ایک باپ کے تمام بیٹے ایک ہی بڑے سے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ گھر کا کھانا مشترک طور پر ایک جگہ پکتا۔ گھر کے اخراجات کو مختلف بیٹوں میں ان کی آمدنی کے لحاظ سے تقسیم کر دیا جاتا۔ والد یا بڑے بھائی کو خاندان کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی اور اس کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا۔ خاندان کے سربراہ کی حکم عدولی کو ناقابل برداشت جرم سمجھا جاتا۔ وراثت تقسیم کرنے کی بجائے اکٹھی رکھی جاتی اور بڑا بیٹا اس میں تصرف کا حق دار ہوتا۔ چھوٹے بھائیوں اور ان کی اولاد کی کفالت بڑے بھائی ہی کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ بیٹیوں کو بالعموم وراثت میں حصہ نہ دیا جاتا اور ان کی شادی کے موقع پر جہیز کی صورت میں انہیں کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جاتا۔
مشترک خاندان کا یہ تصور آج بھی ہماری دیہاتی معاشرت اور چھوٹے شہروں میں موجود ہے۔ دور جدید کی دیگر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشروں میں اہم ترین تبدیلی یہ آئی ہے کہ مشترک خاندانی نظام کی جگہ خاندانوں کی علیحدگی کا عمل جاری ہے۔ بڑے شہروں میں تو یہ عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اب بڑے سے مشترک خاندان کی جگہ میاں، بیوی اور ان کے بچوں پر مشتمل چھوٹے خاندان وجود پذیر ہو رہے ہیں۔ بیٹیوں کی طرح بیٹوں کو بھی شادی کے بعد علیحدہ گھر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
مشترک خاندان میں کسی بھی فرد بالخصوص خواتین کو شخصی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں خود سے کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے خاندان کے سربراہ کے فیصلے پر سر جھکانا پڑتا ہے۔ دور قدیم میں خاندان کی اجتماعیت کو فرد کی انفرادیت پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ دور شخصی آزادی کا دور ہے۔ اسی وجہ سے مختلف خواتین و حضرات میں مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت پیدا ہوئی ہے اور شادی کے موقع پر الگ گھر میں آباد ہونے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ اس رجحان میں جدید صنعتی نظام نے بڑا کردار ادا کیا ہے جس کی بدولت روزگار کی تلاش میں لوگ اپنے آبائی گاؤں یا شہر چھوڑ کر صنعتی و تجارتی مراکز کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔
ان تمام تبدیلیوں کے نتیجے میں خاندانی نظام میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ خاندان پہلے کی نسبت مختصر اور پابندیوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔ قدیم رسم و رواج کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے اور اجتماعیت کی بجائے انفرادیت پر زور دیا جا رہا ہے۔
اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ بڑے خاندان میں رہنے کے باعث بالعموم افراد کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ انہیں اپنی عقل سے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ چھوٹے خاندان میں یہ آزادی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے جو فرد کی فکری نشوونما کے لئے بہت اہم ہے۔ بڑے خاندانوں میں عموماً لڑائی جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ساس بہو، نند بھابی، دیورانی جیٹھانی وغیرہ کے جھگڑے ہر خاندان میں عام ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رہا جائے اور کبھی کبھی ملا جائے تو یہ دوری انسان کو نفرت سے بچا کر محبتیں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
شرعی اعتبار سے چھوٹے خاندان میں رہنے سے دو مسائل حل ہوتے ہیں۔ ایک تو مسئلہ وراثت کا ہے۔ مشترکہ خاندانوں میں بالعموم وراثت تقسیم نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو خواتین کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت میں وراثت کی تقسیم پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جب خاندان تقسیم ہو گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وراثت بھی تقسیم ہو گی۔
دوسرا مسئلہ شرم و حیا کا ہے۔ دین میں شرم و حیا کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ سورۃ نور میں مرد و خواتین کو شرم و حیا سے متعلق جو احکام دیے گئے ہیں، مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے ان احکام پر عمل کرتے ہوئے روزمرہ کے کام کاج کرنا نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے بھی بہت مشکل ہے۔ خود کو چادر میں لپیٹ کر چولہے پر کام کرنا کس قدر مشکل کام ہے، یہ خواتین ہی جانتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام کی مشکلات کے باعث خواتین اکثر ان احکام سے بے پرواہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے مرد دیور اور جیٹھ وغیرہ کے لئے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں اپنی نگاہ کو بچا کر رکھیں۔علیحدہ خاندانوں میں یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں عرب معاشروں میں ایک نہایت اچھا رواج ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی کے موقع پر بیٹے کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ جب لڑکے اور لڑکی دونوں کے والدین ضعیف العمری کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی خدمت دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر ان کے ذمے لڑکے کے والدین کی خدمت ہوتی ہے تو لڑکی کے والدین کی خدمت بھی دونوں کی مشترک ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یہ لوگ اگر افورڈ کر سکیں تو اپنے گھر کے قریب والدین کو الگ گھر لے کر دیتے ہیں اور ان کے لئے کل وقتی ملازموں کا بندوبست کر دیتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں خدمت کے لئے اپنے گھر لے آتے ہیں۔
مشترک خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ اس میں گھر کے اخراجات تمام کمانے والوں میں تقسیم ہو جایا کرتے تھے۔ تقسیم شدہ خاندانوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں گھریلو اخراجات کا بوجھ ایک ہی شخص پر آ پڑتا ہے جو بسا اوقات تمام اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مرد کے ساتھ ساتھ خواتین بھی مالی معاملات میں ہاتھ بٹانے لگی ہیں تاکہ مردوں کا معاشی بوجھ کم کیا جا سکے۔ اس صورتحال سے کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں جو ہم آگے بیان کریں گے۔
شخصی آزادی کا فروغ
موجودہ دور شخصی آزادی کا دور ہے۔ ہماری قدیم معاشرت میں فرد کو زیادہ آزادی دینا برا سمجھا جاتا تھا۔ عادات، اطوار، رہن سہن، خیالات و نظریات ہر معاملے میں انسان اپنے گرد و پیش کا پابند ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو نہایت ہی برا سمجھا جاتا۔ کسی شخص کی پرائیویسی کی کوئی اہمیت نہ ہوا کرتی تھی۔ شادی سے پہلے علیحدہ بیڈ روم کا کوئی تصور نہ تھا۔ لوگ بھی مسلسل ایک دوسرے کی سن گن لینے میں مشغول رہتے اور ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیتے۔
جدید معاشرت میں انسان کی شخصی آزادی ایک نہایت ہی اہم قدر (Value) بن چکی ہے۔ ایک شخص اگر اپنے ارد گرد کے ماحول کے خیالات و نظریات، عادات و اطوار اور رہن سہن کو اگر درست نہیں سمجھتا تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں چھوڑ کر بہتر نظریات و افعال کو اختیار کر لے۔ پرائیویسی ایک بڑی قدر بن چکی ہے اور جدید معاشروں میں رہنے والے لوگ اپنے پڑوسیوں کی ٹوہ میں نہیں رہتے۔ تبدیلی کے عمل کو برے کی بجائے بالعموم اچھا سمجھا جاتا ہے۔
ہمارا روایتی طبقہ عام طور پر شخصی آزادی کا مخالف ہے۔ ان کے نزدیک اس آزادی کے باعث لوگ گمراہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ برائیوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ بات بذات خود درست ہے لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اسی شخصی آزادی کی بدولت مغربی معاشروں میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر ان کے ہاں بھی ہماری طرح افراد کو معاشرے کی روایات اور مذہب سے سختی سے باندھ کر رکھا جاتا تو ان میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔
معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے بہترین طریقہ اخلاقی تعلیم و تربیت ہے۔ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے جس سے بچنے کے لئے ہمارے لوگ ڈنڈے کے زور پر اصلاح کے قائل ہو چکے ہیں۔ شاید وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ قوت کے زور پر کی گئی اصلاح ہمیشہ عارضی ہوتی ہے جبکہ تعلیم و تربیت کے ذریعے کی گئی اصلاح دیرپا ہوا کرتی ہے۔ ڈنڈے کے بل پر کی گئی اصلاح کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک منافق جنم لیتا ہے جبکہ تعلیم و تربیت انسان کے اندر موجود ایک اچھے اور مخلص انسان کو پروان چڑھاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس تصور کے عام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قوت کے زور پر کی جانے والی اصلاح کے نتائج فوراً نظر آتے ہیں جبکہ تعلیم و تربیت سے کی جانے والی اصلاح کے نتائج طویل عرصے میں سامنے آتے ہیں۔
جب انسان آزادانہ طور پر سوچتا ہے اور اسے فکر و عمل کی آزادی میسر آتی ہے تو اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو اپیل کر کے اسے حق قبول کرنے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ان معاشروں میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں فکر و عمل کی آزادی دستیاب ہے۔ اس کے برعکس ایسے معاشرے جو فکر و عمل کی جکڑ بندیوں کا شکار ہیں، وہاں اسلام کی دعوت پھیلنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔
شخصی آزادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے فوائد و نقصانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس میں خیر کا پہلو زیادہ ہے اور شر کا کم۔ اس لحاظ سے یہ تبدیلی مثبت سمت میں ہے اور اس کے منفی اثرات کو بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
تعدد ازدواج میں کمی
جدید نسل میں پیدا ہونے والی ایک اور بڑی تبدیلی یہ ہے کہ متعدد شادیوں کی بجائے ایک شادی کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں بالعموم اور عرب معاشروں میں بالخصوص تعدد ازدواج (Polygamy) کا رواج عام رہا ہے۔ ایک مرد کی تین یا چار بیویاں ہونا عام تھا۔ موجودہ دور میں یہ رواج کافی کم ہو گیا ہے اور ایک مرد اور ایک عورت کی شادی کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔
دین اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی جو اجازت دی گئی ہے اس کا تعلق مخصوص حالات سے ہے جب خواتین کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے۔ یہ اجازت بھی عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیویوں میں عدل نہیں کر سکتا تو اسے یہ اجازت بھی حاصل نہیں۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ مخصوص حالات میں صرف اور صرف اجازت ہی ہے، یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے جس کی پابندی ہر مرد پر لازم ہو۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اس بات کے گواہ ہیں کہ جو خاندان ایک خاوند اور ایک بیوی سے وجود پذیر ہوتے ہیں ان کے ہاں لڑائی جھگڑوں اور دیگر نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی تعداد ان خاندانوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس میں ایک خاوند کے ذمے ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں۔
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشروں میں وقوع پذیر ہونے والی یہ تبدیلی بھی مثبت ہے۔
شادی کے طریقوں میں تبدیلی
قدیم معاشرے میں سختی سے طے شدہ شادی (Arranged Marriage) کا رواج رہا ہے۔ والدین جہاں اولاد کی شادی طے کر دیں، ان کے لئے یہ لازم سمجھا جاتا رہا ہے کہ انہیں سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ موجودہ دور میں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب لڑکے اور لڑکیاں خود کر رہے ہیں۔ اکثر اوقات طے شدہ شادی میں بھی لڑکے لڑکی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات عام ہو چکے ہیں جن میں لڑکے یا لڑکی نے اپنے خاندان سے بغاوت کر کے اپنی پسند سے شادی کی ہو۔
جہاں تک تو طے شدہ شادی میں لڑکے لڑکی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنے کا تعلق ہے، یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور عقل و فطرت اور دین اسلام کے احکام کے عین مطابق ہے۔ رہا معاملہ شادی سے پہلے ایک لو افیئر چلانے کا، تو اس میں چند حقیقی مسائل درپیش ہیں۔
لو افیئر میں سب سے بڑا مسئلہ جذباتیت کا درپیش ہوتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو جذباتی محبت کی عینک سے دیکھتے ہیں جس کے باعث انہیں ایک دوسرے کے منفی پہلو نظر نہیں آتے۔ یہ سلسلہ بالعموم ایک دوسرے کو سمجھنے کے خوبصورت نام سے شروع ہوتا ہے لیکن بعد میں سمجھنے کا یہ عمل عقل و دانش کی بجائے جذبات کی نذر ہو جاتا ہے۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد جذباتیت کا یہ بھوت اتر جاتا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شخصیت کے منفی پہلو نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے تلخیوں اور الزام تراشیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اکثر اوقات طلاق ہی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ارینجڈ میرج میں معاملات کا تجزیہ کرنے اور مسائل کو طے کرنے کا کام ان تجربہ کار لوگوں کے سپرد ہوتا ہے جو جذباتیت کی پست سطح سے اٹھ کر عقلی اور منطقی انداز میں حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں اور اکثر معاملات کو معقول حد تک میچ کرنے کے بعد اپنی اولاد کی شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارینجڈ میرج کے معاملے میں کامیابی کی شرح لو میرج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ بعض اوقات والدین اپنی انانیت اور جاہلانہ روایات کا شکار ہو کر اولاد کے بارے میں غلط فیصلے بھی کر بیٹھتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس کی اصلاح ضروری ہے۔
لو افیئر کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ جذبات کی رو میں بہک کر لڑکا اور لڑکی اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں جس کا نتیجہ دونوں ہی کے لئے پشیمانی کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ دونوں ہی اپنی عفت و عصمت کے اس گوہر نایاب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کی حفاظت ان کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
ہماری رائے میں اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد سے دوستانہ برتاؤ رکھیں اور ان کی پسند و ناپسند کو اہمیت دیں۔ دوسری طرف اولاد بھی بے جا شرم سے اجتناب کرتے ہوئے کھلے طریقے سے اپنی پسند و ناپسند سے والدین کو آگاہ کرے اور تمام معاملات انہی کے ذریعے طے کرے۔
اس تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جدید میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی میں منفی پہلو غالب ہے۔
شادیوں میں تاخیر
موجود دور کی ایک اور اہم معاشرتی تبدیلی شادی میں تاخیر ہے۔ قدیم معاشرت میں لڑکے شادی زیادہ سے زیادہ بیس سال اور لڑکی شادی زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی عمر میں کر دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خاندان کی کفالت مشترکہ طور پر کی جاتی تھی۔ موجودہ دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشی طور پر خود مختار ہونے کی بعد شادی کی جانی چاہیے۔ جدید شہروں میں اب بالعموم لڑکے کی شادی کی عمر تیس سے پینتیس سال اور لڑکی کی شادی کی عمر پچیس سے تیس سال ہو چکی ہے۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں صورتحال کچھ اس طرح کی ہو رہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو اپنی بلوغت کے بعد طویل عرصے تک خود کو صنفی تعلقات کے اعتبار سے کنٹرول کرنا پڑتا ہے جس کے باعث یا تو یہ بہت سے نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور یا پھر جنسی بے راہروی اور گھناؤنی عادات کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسری انتہا غیر ضروری طور پر بہت چھوٹی عمر میں شادی کر دینا ہے جو ہمارے قدیم معاشرے کا خاصہ ہے۔ کم عمری کی شادی سے کچھ اور قسم کے پیچیدہ نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمری میں شادی کرنے والے جوڑے عموماً مالی مشکلات کا شکار بھی رہتے ہیں۔
اس تبدیلی کی بڑی وجہ مالی معاملات میں بہت بڑی بڑی توقعات وابستہ کرنا ہے۔ آج کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے میڈیا کو دیکھ دیکھ کر جس معیار زندگی کا تصور اپنے خوابوں میں سجایا ہوتا ہے اس کی تعبیر عموماً ایک مڈل کلاس کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کو بھی اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں ہی جا کر نصیب ہوتی ہے۔ اگر اپنی خواہشات کو حقیقت پسندانہ بناتے ہوئے مناسب عمر میں شادی کو فروغ دیا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے اس تجزیے کی روشنی میں دور جدید کی یہ تبدیلی بھی منفی نوعیت کی ہے۔
غلامی کا خاتمہ
تقریباً ایک سو سال قبل انسانیت غلامی کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی۔ انسانوں کی بڑی تعداد غلاموں کی صورت میں موجود تھی۔ اسی غلامی پر اس دور کی پوری معیشت کا انحصار تھا کیونکہ یہی غلام زرعی و صنعتی ورکرز تھے۔ پچھلی صدی میں دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کی بدولت انسانیت ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد کو آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوا ہے۔ اس تبدیلی کی تفصیل کے لئے میری کتاب "اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ" دیکھیے۔
دیہاتی کی بجائے شہری معاشرے
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک آبادی کا بڑا حصہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں مقیم تھا۔ شہری زندگی کی کشش کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد شہروں کی طرف آ رہی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر اوقات روزگار زیادہ تر شہروں میں دستیاب ہوتا ہے۔ مزید برآں شہری زندگی کی سہولیات جیسے تعلیم اور صحت عامہ کے باعث دیہات اور چھوٹے شہروں کے رہنے والے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ان میں توسیع کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شہروں میں مکانات کی قلت ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سہولیات اس رفتار سے فراہم کرنا ممکن نہیں رہا جس رفتار سے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ انسان فطرت کے صاف ستھرے ماحول کی بجائے تنگ و تاریک علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس کی بڑی وجہ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی ہے جس کے نتیجے میں چند شہروں میں ضرورت سے زیادہ صنعتی اور تجارتی ترقی ہو جاتی ہے اور باقی علاقے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ان مسائل کے باعث ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دور جدید کی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔
جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری
شہروں میں نقل مکانی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں قدیم جاگیردارانہ یا قبائلی نظام کی طاقت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ دیہات کے لوگ اپنے علاقے کے چوہدری، وڈیرے، جاگیردار یا قبائلی سردار کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ شہر کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں تو پھر یہ اثر زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ جاگیردار یا سردار کی اصل قوت یہ رہی ہے کہ یہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے تھے۔ روزگار کے متبادل ذرائع کے نتیجے میں اب لوگ اپنے علاقے کے سرداروں کی محتاجی سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔
دور جدید کی یہ تبدیلی بجا طور پر ایک مثبت تبدیلی ہے۔
نوجوانوں کے تناسب میں اضافہ
مغربی معاشروں کے برعکس مشرقی اور بالخصوص مسلم معاشروں کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ ان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوان افراد پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے پاپولیشن ریفرنس بیورو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2006ء میں ایشیائی ممالک میں نوجوان نسل کا تناسب مغربی ممالک کی نسبت دو گنا ہے۔
نوجوان آبادی کے اس تناسب میں اضافے کے باعث بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ نوجوان عموماً جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات ابھار کر اور انہیں سبز باغ دکھا کر بہت سے سیاسی و مذہبی راہنما اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔ نوجوان نسل کی اتنی بڑی تعداد کے باعث زیادہ تر مسلم ممالک میں روزگار کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مسلم معاشروں کی بڑی تعداد جرائم میں اضافے کا شکار ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں جرائم کی شرح اور ان کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے جرائم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
نوجوان نسل کا زیادہ ہونا بذات خود کوئی منفی تبدیلی نہیں۔ اگر اس نسل کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کیا جائے تو یہ ملکی ترقی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ تبدیلی مثبت رخ اختیار کر سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں چین اور بھارت نے اپنی نوجوان افرادی قوت کو استعمال کرتے ہوئے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم ممالک اس معاملے میں ان کی نسبت بہت پیچھے ہیں۔
اس تبدیلی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک آنے والے وقت میں نوجوان ورکرز کی کمی کا شکار ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ مشرقی ممالک سے نوجوان نسل امپورٹ کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرقی ممالک کے نوجوانوں کے لئے نئے مواقع پیدا ہونے کا امکان پیدا ہو گا۔
خواتین کا فعال کردار
جدید معاشرے میں خواتین کا کردار بڑی حد تک تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے قدیم معاشروں میں خواتین کا اصل میدان عمل ان کا گھر قرار دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ قدیم دیہاتی معاشرت میں خواتین کی بڑی تعداد زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی ان کی معیشت مرد کے تابع ہی رہی ہے اور ان کا معاوضہ بالعموم ان کے خاوند ہی وصول کرتے رہے ہیں۔
خواتین کی بڑی تعداد اب صنعت و تجارت کی طرف آ رہی ہے۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ سیاسی میدان میں خواتین اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو مذہبی یا سماجی بنیادوں پر خواتین کے گھر کے کردار ہی کی قائل ہیں۔
مذہبی معاملات میں بھی خواتین کا کردار بڑھ رہا ہے۔ پہلے عالم دین بننا صرف اور صرف مرد کا کام سمجھا جاتا تھا لیکن اب بہت سی خواتین اسکالرز بھی اعلی دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں مغربی ممالک میں رہنے والی مسلمان خواتین بہت آگے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں خواتین کا کردار مسلسل اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
خواتین کے روزگار کے نتیجے میں معاشرے میں "بے بی ہوم" کا نیا سماجی ادارہ وجود پذیر ہو رہا ہے۔ ایسے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کثیر تعداد میں ادارے بن رہے ہیں جو کام کرنے والی خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ ان اداروں کے نتیجے میں خواتین کی مزید ملازمتیں نکل رہی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی سماجی مفکرین میں زیر بحث ہے کہ اصل ماں کی بجائے رقم لے کر دیکھ بھال کرنے والی ماں بچے کی نشوونما اور اس کی اخلاقیات میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ان خواتین کے بچے زیادہ ذہین اور صحت مند ہوتے ہیں جن کی ملازمت پارٹ ٹائم ہو۔ اس کے برعکس فل ٹائم ملازمت کرنے کی والی خواتین کے بچوں کی نشوونما سست ہوتی ہے اور ان میں تشدد اور جرم کا عنصر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
خواتین کے روزگار کے نتیجے میں جنسی طور پر ہراساں کرنے (Sexual Harrassment) کا مسئلہ درپیش آ رہا ہے۔ بعض لوگ خواتین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مسلم معاشروں کے علاوہ یہ مسئلہ مغربی ممالک میں بھی درپیش ہے۔ اس مسئلے کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کا شعور پیدا کیا جائے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں سخت قانون سازی کر کے اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد بھی کیا جائے۔
اگرچہ اس تبدیلی سے چند مسائل پیدا ہو رہے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ تبدیلی مثبت ہے۔ معاشرے کا نصف حصہ جو پہلے معاشرے کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیت سے بہت کم کردار ادا کیا کرتا تھا، اب اس میں پہلے کی نسبت زیادہ حصہ لے رہا ہے۔ دین اسلام میں خواتین کے روزگار کمانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی البتہ مردوں پر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیویوں کے نان نفقے کا بندوبست کریں۔
رہن سہن کے طریقوں (Lifestyles) میں تبدیلی
جدید نظام حیات میں لباس، قیام و طعام، اوقات کار اور زندگی کے دیگر شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اب سے تقریباً سو سال قبل پینٹ کوٹ کو انگریزوں کا لباس سمجھ کر رد کر دیا گیا تھا۔ اب یہی لباس بین الاقوامی دفتری لباس بن چکا ہے اور بشمول دین دار افراد کے بہت سے مسلمان اس لباس کو اپنائے ہوئے ہیں۔ خواتین کے لباس میں بڑی حد تک تبدیلی آ رہی ہے اور اس میں اب مغربیت کا رنگ نمایاں ہے۔
کھانے پینے کے آداب میں بھی بڑا تغیر رونما ہو چکا ہے۔ گھر سے باہر کھانا کھانا جو کبھی ایک بہت برا سمجھا جاتا تھا، اب ایک تفریحی صنعت بن چکا ہے اور بہت سے شہروں میں کثیر تعداد میں فیملی ریسٹورنٹ کھل چکے ہیں۔ بڑے بڑے کھلے گھروں کی جگہ اب فلیٹ لے رہے ہیں اور ان کا سائز بھی مختصر ہوتا جا رہا ہے۔
قدیم زرعی معاشرے میں اوقات کار کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لوگ عموماً فجر کے وقت کام پر جاتے اور سورج کے بلند ہونے سے قبل اپنے کام کاج سے فارغ ہو جاتے۔ صرف فصل کی بوائی اور کٹائی کے موقع پر ان کے دن رات صرف ہوتے۔ پورے دن کی فراغت کے باعث ان کے پاس زندگی کے دیگر مشاغل کے لئے وقت ہی وقت ہوا کرتا تھا۔
جدید صنعتی معاشرے میں کام کے اوقات اس طرح مقرر کئے گئے ہیں کہ پورا دن ہی اس میں صرف ہو جاتا ہے۔ مزید برآں کام کے پریشر اور دفاتر کے مالکان کے استحصالی رویے کے باعث طویل اوقات (Long Hours) کا رواج عام ہو چکا ہے۔ اب ایک دفتری یا صنعتی کارکن صبح نو بجے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے اور بالعموم رات نو بجے فارغ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو دینا ہوتا ہے۔ سونے کا موقع اسے رات ایک دو بجے ملتا ہے اور بمشکل چند گھنٹے کی نیند لینے کے بعد اسے صبح پھر کام پر جانا ہوتا ہے۔ ان اوقات کار کے باعث لوگوں کی پوری زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دینی ، اخلاقی اور صحت کے اعتبار سے اوقات کار میں ہونے والی یہ تبدیلیاں ہمارے نزدیک مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی حامل ہیں۔
تعلیم کا فروغ
قدیم معاشرے میں تعلیم برائے تعلیم کا تصور تھا۔ عام طور پر وہی لوگ باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے جنہیں اس سے دلچسپی ہوتی۔ موجودہ دور میں تعلیم کا مقصد روزگار کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ خود ناخواندہ ہی کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کے باعث معاشروں میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف صرف انہی شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے جن کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں موجود ہے۔ دیگر شعبوں کو واضح طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
تعلیم کا فروغ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اس معاملے میں منفی پہلو یہ ہے کہ فنی تعلیم کے فروغ کے باعث اخلاقی تعلیم و تربیت کو وہ حصہ نہیں مل رہا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار
پچھلے دو عشروں میں الیکٹرانک میڈیا کو واضح طور پر غیر معمولی غلبہ نصیب ہوا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنے اور سننے والوں میں بہت بڑی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں خاص طور پر ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس میں دن بدن کثیر تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی کے اس پورے عمل میں کمرشلزم کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر اسی مواد کو زیادہ فروغ مل رہا ہے جس کے باعث زیادہ سے زیادہ لوگوں کو میڈیا کے استعمال پر راغب کیا جا سکے۔ لوگوں کے جذبات کا سستا استعمال بہت عام ہو چکا ہے۔
اس تبدیلی کا منفی پہلو یہ ہے کہ اکثر معاشروں میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ مل رہا ہے۔ قدیم دور میں رقص و سرود اور جنس سے متعلق کاروبار چند محدود علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔ میڈیا کے اس فروغ کے باعث اب یہ ہر شخص کے بیڈ روم میں داخل ہو گیا ہے۔ عریانی و فحاشی کے ساتھ ساتھ تشدد کا رجحان بھی میڈیا کے اسی منفی کردار کے باعث فروغ پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انسانیت اور اخلاقیات کے لئے مہلک ایسے نظریات اور تصورات جو پہلے چند افراد تک محدود ہوا کرتے تھے، اب انہیں ایک نئی زبان مل چکی ہے۔
میڈیا اپنی ذات میں کسی اچھائی یا برائی کا حامی نہیں ہوتا۔ اس کی اچھائی یا برائی اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں میڈیا نے برائی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہاں بھلائی کے فروغ میں بھی یہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سے دینی اور علمی چینل اور ویب سائٹس منظر عام پر آ رہی ہیں جس کے نتیجے میں نیکی بھی پھیل رہی ہے۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ برائی کے فروغ کی رفتار نیکی کے مقابلے میں زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ میڈیا کا کمرشلزم ہے۔
میڈیا کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت عام لوگ پہلے کی نسبت زیادہ باشعور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے طالع آزما سیاسی و مذہبی رہنما پہلے لوگوں کو باآسانی بے وقوف بنا لیا کرتے تھے جو میڈیا کے فروغ کے بعد اب آسان نہیں رہا ہے۔
خلاصہ بحث
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دور جدید کے مسلم معاشروں میں ایک نیا سماجی ڈھانچہ زیر تشکیل ہے۔ پرانے سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ اس کی اقدار بھی منہدم ہوتی جا رہی ہیں جبکہ جدید سماجی ڈھانچے کی نئی اقدار تخلیق ہو رہی ہیں۔ اس وقت ہم لوگ ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں جس میں نئے معاشرے کے خدوخال آہستہ آہستہ واضح ہو رہے ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں بعض مثبت اور بعض منفی پہلو ہیں لیکن بحیثیت مجموعی مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh