www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

512322
بعض افراد کا طرز فکر یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی تبدیلی کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ حضرات عموماً اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوتے ہیں۔ اس مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عمر بھر کے تجربات کے باعث یہ ایک خاص طرز زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اور جب انہیں اس سے کچھ مختلف طرز زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کا ذہن اسے قبول نہیں کر پاتا، چنانچہ وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: "ہمارے وقتوں کی کیا بات تھی، آج کل تو ۔۔۔۔" اگر آپ ان کے وقتوں کے لٹریچر کو اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے بزرگ بھی اپنے بڑھاپے میں یہی کہا کرتے تھے۔"
اس کے برعکس نوجوان عموماً انقلابی خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور تبدیلی کے عمل میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان جب بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو وہ بعد میں آنے والی تبدیلیوں کے مخالف بن جاتے ہیں۔ دور جدید میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات جب مسلم ممالک میں پہنچے تو اس ضمن میں تین طرح کے طرز عمل سامنے آئے جن کی تفصیل یہ ہے۔
روایتی مذہبی طبقے نے تبدیلی کے بارے میں سوچنے کو بھی کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا کر رکھ دیا۔ اس طبقے نے دور جدید کی بعض مثبت تبدیلیوں جیسے عقل کے استعمال میں اضافے، آزادی رائے، جمہوریت اور یہاں تک کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں کی مخالفت کی۔ چونکہ اس طبقے کو مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بالعموم اسلام کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، اس وجہ سے دنیا کے سامنے اسلام کا تصور یہ پیدا ہوا کہ یہ دور جدید کا کوئی مخالف مذہب ہے جسے دور جدید سے ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں۔
دوسرا طبقہ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور ان کی اشرافیہ (Elite) کا طبقہ تھا۔ انہوں نے دور جدید میں ہونے والی تبدیلیوں کی حمایت کی۔ اس ضمن میں ان کی اکثریت نے سب سے مہلک رویہ اختیار کیا اور وہ یہ تھا کہ دور جدید کی منفی تبدیلیوں جیسے بے حیائی اور سودی نظام کو تو پوری طرح اختیار کر لیا لیکن مثبت تبدیلیوں کے بارے میں ان کی حمایت زبانی جمع خرچ کے درجے سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشروں کی اکثریت منفی پہلوؤں سے تو مغرب کی بھونڈی نقالی پر تیار ہو گئی لیکن مثبت تبدیلیوں کے فوائد ان معاشروں تک نہ پہنچ سکے۔
تیسرا رد عمل ایسے اہل علم کی جانب سے پیش آیا جو کہ دور جدید سے بھی پوری طرح واقف تھے اور دین میں بھی گہری بصیرت کے حامل تھے۔ ان اہل علم کی جانب سے تمام تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ان کے مثبت پہلوؤں کو اختیار کرنے اور ان کے منفی پہلوؤں سے اجتناب کرنے پر زور دیا گیا۔ پچھلی ایک صدی میں اگرچہ ان اہل علم کے نظریات کو مسلم ممالک میں زیادہ فروغ نہیں مل سکا ہے لیکن موجودہ حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں اسی نقطہ نظر کو فروغ مل سکے گا۔
ہمارے نزدیک تبدیلی کے بارے میں صحیح رد عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے تبدیلی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے یا منفی نوعیت کی۔ مثبت تبدیلیوں کی بھرپور حمایت کی جائے اور منفی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
اگر منفی نوعیت کی تبدیلی کے ساتھ ایسی قوتیں وابستہ ہو چکی ہیں جن کے باعث انہیں مکمل طور پر روکنا ممکن نہ ہو تو پھر ان میں اساسی نوعیت کی چند تبدیلیاں کر کے ان کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ موجودہ دور کی تبدیلیوں کے بارے میں کوئی رد عمل تجویز کرنے سے قبل ہم پچھلے ابواب میں کی گئی بحث کا خلاصہ ایک جدول کی صورت میں پیش کر دیں۔
تبدیلی
مثبت یا منفی؟
فکری تبدیلیاں
عقل کے استعمال میں اضافہ
نہایت مثبت
توہم پرستی میں کمی
نہایت مثبت
قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر
نہایت مثبت
معاشرتی تبدیلیاں
خاندانی نظام میں تبدیلی
مثبت
شخصی آزادی کا فروغ
نہایت مثبت
تعدد ازدواج میں کمی
مثبت
شادی کے طریقوں میں تبدیلی
منفی
شادیوں میں تاخیر
منفی
غلامی کا خاتمہ
نہایت مثبت
دیہاتی کی بجائے شہری معاشرے
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری
نہایت مثبت
نوجوانوں کے تناسب میں اضافہ
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
خواتین کا فعال کردار
مثبت
رہن سہن کے طریقوں (Lifestyles) بالخصوص اوقات کار میں تبدیلی
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
تعلیم کا فروغ
مثبت
میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
سیاسی تبدیلیاں
جمہوریت
نہایت مثبت
آزادی رائے
نہایت مثبت
سیکولرازم
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
ریاست کا معاشرے میں مذہبی کردار
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
عالمگیریت (Globalization)
مثبت
مذہبی جنگیں
نہایت منفی
تکنیکی اور معاشی تبدیلیاں

معلوماتی انقلاب (Information Revolution)
مثبت
سود پر مبنی نظام
نہایت منفی
بہتر معیار زندگی
مثبت
امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق
نہایت منفی
معیشت کی تنظیم نو (Restructuring)
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
توانائی کا زیادہ اور بہتر استعمال
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
جینیاتی انجینئرنگ (Genetic Engineering)
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض سے منفی
اگر اس جدول کا جائزہ لیا جائے تو ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دور جدید میں رونما ہونے والی بہت سی تبدیلیاں مثبت نوعیت کی ہیں۔ چند تبدیلیاں منفی نوعیت کی ہیں اور اکثر ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے مثبت اور منفی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ اب ہم ان تینوں قسم کی تبدیلیوں کے بارے میں مجوزہ رد عمل کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔
مثبت تبدیلیاں
موجودہ دور میں جو مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان میں عقل کے استعمال میں اضافہ، توہم پرستی میں کمی، سائنسی طرز فکر، شخصی آزادی، غلامی کا خاتمہ، جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی کمزوری، جمہوریت اور آزادی اظہار نہایت ہی مثبت تبدیلیاں ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام میں ہونے والی تبدیلیاں، تعدد ازدواج میں کمی، خواتین کا فعال کردار، تعلیم کا فروغ، سماجی عالمگیریت، معلوماتی انقلاب اور بہتر معیار زندگی بھی ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے مثبت پہلو نمایاں ہیں۔
ان مثبت تبدیلیوں کے بارے میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مسلمانوں کے دانشور، مصلحین اور اہل علم اپنی پوری قوت ان تبدیلیوں کے دفاع پر خرچ کر دیں اور ان کی مخالفت میں پیدا ہونے والی ہر آواز کو اپنے دلائل کے ذریعے کمزور کریں۔ حکومتیں اپنی قوت ان مثبت تبدیلیوں کو فروغ دینے پر خرچ کریں۔ انفرادی سطح پر مسلمان ان تبدیلیوں کو اپنانے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی، خاندانی اور عملی دائروں میں ان کے فروغ کے لئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کرتے رہیں۔
بعض پہلوؤں سے مثبت اور بعض پہلوؤں سے منفی تبدیلیاں
ایسی تبدیلیاں جن میں خیر اور شر دونوں کے امکانات پائے جاتے ہیں ان میں میڈیا کا کردار، سیکولر ازم، ریاست کا کردار، توانائی کا استعمال، جینیٹک انجینئرنگ اور نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ شامل ہیں۔
ان تبدیلیوں کے بارے میں ہمارے نزدیک صحیح طرز عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے ان تبدیلیوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا شعور اپنے اور دوسروں کے اندر پیدا کیا جائے۔ ان کے مثبت پہلوؤں کواجاگر کیا جائے اور ان کے منفی پہلوؤں کے بارے میں ایک تحریک پیدا کی جائے تا کہ ان کے منفی پہلوؤں کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
معاشرتی تبدیلیاں
میڈیا کے کردار کے بارے میں درست طرز عمل یہ ہے کہ دانشور، مصلحین اور اہل علم میڈیا کے صحیح کردار کو متعین کرنے کے لئے ایک فکری تحریک کی بنیاد رکھیں۔ میڈیا کے منفی کردار کو واضح کیا جائے۔ میڈیا کے سرکردہ افراد سے براہ راست ملاقات کر کے انہیں مثبت کردار ادا کرنے پر تیار کیا جائے۔ اچھا اور مثبت ذہن رکھنے والے افراد کو میڈیا سے وابستہ اداروں میں داخل کیا جائے تا کہ میڈیا مثبت کردار ادا کر سکے۔ حکومتوں کو اس بات پر تیار کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق کو اہمیت دیں۔ عوام الناس اپنی اپنی سطح پر اچھے پروگرام دیکھنے، اچھی ویب سائٹس وزٹ کرنے اور اپنی اولاد کو مثبت انداز میں میڈیا کو استعمال کرنے کی ترغیب دیں۔
نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مثبت طور پر استعمال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے۔ مسلم ممالک کے ارباب دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں چین اور بھارت کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے فروغ کی تحریک پیدا کریں جس میں اپنی نوجوان افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنانے کی کوشش کی جائے۔ نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیوں جیسے کھیل، اسکاؤٹنگ وغیرہ کو فروغ دیا جائے۔ ان کی اخلاقی تربیت کو پورا معاشرہ اپنی ذمہ داری بنا لے۔ یہی عمل انفرادی سطح پر عام لوگ اپنی اولاد کے لئے اختیار کریں۔
سیاسی تبدیلیاں
سیکولر ازم کے ضمن میں مسلم اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولر ازم کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں اور اس کے جو پہلو اسلامی شریعت سے متصادم ہوتے ہیں، ان پر تحقیق کر کے ان کے متبادل پیش کریں۔ دین اسلام کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جائے جس میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، مساوات، مثبت طرز فکر اور آزادی اظہار کو فروغ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
ریاست کے مذہبی کردار کے ضمن میں اخلاقیات کے معاملے میں ریاست کے کردار کی اہمیت پر زور دیا جائے۔ اختلافی معاملات کو طے کرنے کے لئے بین المسالک اور بین المذاہب مکالمے پر زور دیا جائے۔
معاشی اور تکنیکی تبدیلیاں
توانائی کے استعمال کے نتیجے میں دنیا میں جو جنگیں متوقع ہیں، اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ تیل اور گیس کے علاوہ توانائی کے دیگر ذرائع کو فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس پر جو تحقیق ہو رہی ہے، اس میں ترقی پذیر ممالک بھی حصہ لیں اور ہائیڈروجن، شمسی توانائی، ہوا اور پانی کی توانائی اور دیگر ذرائع سے توانائی کے حصول کے ذریعے اپنے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس معاملے میں انہوں نے غفلت برتی تو اس کا زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہونے کی توقع ہے۔
جینیاتی انجینئرنگ کے معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ سائنسدانوں میں اخلاقیات کو فروغ دیا جائے اور انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ وہ اپنی ایجادات کو انسانیت کے فائدے کے لئے تیار کریں اور اس کے ان پہلوؤں سے اجتناب کریں جو انسانوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔
منفی تبدیلیاں
دور جدید میں نہایت منفی تبدیلیوں میں مذہبی جنگیں، سود پر مبنی استحصالی نظام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امیر و غریب کا فرق ہے۔ دیگر منفی تبدیلیوں میں نوجوان نسل کی بے راہ روی، شہروں پر آبادی کا دباؤ اور اوقات کار میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
اہل علم، مصلحین، دانشوروں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پوری قوت ان تبدیلیوں کے خلاف صرف کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ان تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کرتے ہوئے انہیں کمزور کیا جا سکے۔
سیاسی تبدیلیاں
مذہبی جنگوں کے جنون کو کم کرنے کی ذمہ داری مذہبی علماء کی ہے۔ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے معتقدین کو یہ بتائیں کہ یہ جنگیں بجائے خود دین اسلام اور مسلمانوں کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہیں۔ قرآن و سنت کے دلائل سے نوجوان نسل کو یہ بتایا جائے کہ دین اسلام میں جہاد کا صحیح تصور کیا ہے اور دہشت گردی اسلام کی رو سے ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ امن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور نوجوان نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کی جائے۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں ان جنگوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اہم کردار ادا کریں۔ مسلم ممالک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر دراصل اہل مغرب کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وجہ سے اس ضمن میں کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ اہل مغرب سے اس باب میں مکالمہ کیا جائے اور انہیں اس ضمن میں اسلام کے اصل نقطہ نظر سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ مسلم ممالک میں مسلح مداخلت خود ان کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
معاشی تبدیلیاں
سود پر مبنی استحصالی نظام کے خاتمے کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلم ماہرین معاشیات پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے کہ وہ سود کے متبادل نظام ہائے حیات تیار کریں اور حکومت اور کاروباری اداروں کی مدد سے ان کو تجرباتی بنیادوں پر نافذ کر کے ان کا عملی تجربہ کریں۔ اہل علم اور مصلحین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سود کے خلاف عوام الناس میں زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس کے مضر اثرات سے آگاہ کریں تاکہ موجودہ سودی نظام کی ڈیمانڈ کم سے کم ہو سکے۔ عام لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سودی ڈیپازٹس اور سودی قرضوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
امیر و غریب کے فرق کو کم کرنے کی اصل ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس معاملے میں زکوۃ کے نظام کو اس کی اصل صورت میں نافذ کرنا سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ حکومتیں غربت میں کمی کے مغربی ماڈلز سے بھی استفادہ کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس نے عملی طور پر ایسا ماڈل پیش کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ اس ماڈل میں سے سود کے عنصر کو ختم کرنا بہرحال ضروری ہے۔ اس ضمن میں علماء اور دانشوروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس بات پر قائل کریں کہ غربت بذات خود ایک برائی ہے۔ اہل ثروت کو زیادہ سے زیادہ دولت غرباء کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اور گداگری کو فروغ دینے کی بجائے غریب افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ انفرادی سطح پر ہر شخص جتنا کچھ اس ضمن میں خرچ کر سکتا ہے، خرچ کر کے کم سے کم ایک آدھ خاندان کی غربت کے خاتمے کی کوشش کرے۔
معاشرتی تبدیلیاں
نوجوان نسل کی بے راہ روی کی بڑی وجہ شادیوں میں تاخیر ہے۔ اس ضمن میں ایک طرف تو میڈیا نے صنفی جذبات کو بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور دوسری طرف غیر انسانی رسوم جیسے جہیز وغیرہ کے باعث شادیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس معاملے میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مصلحین اور اہل علم کی یہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عام لوگوں میں اس مسئلے کا شعور پیدا کریں۔ غیر انسانی رسم و رواج جیسے جہیز اور شادی کے غیر ضروری اخراجات کے خاتمے کے لئے بھرپور مہم چلائی جائے۔ لوگوں کو سادگی اپنانے پر زور دیا جائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جلد شادیوں کی ترغیب دے اور اس معاملے میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی حالیہ مثال سعودی عرب میں شادی کے لئے دیے گئے بلا سود قرضوں کا اجرا ہے۔ عام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کی حد تک تاخیر سے اجتناب کریں اور نوجوانوں کی جلد شادیوں کی کوشش کریں۔
شہری معاشروں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں کو ترقی دی جائے۔ اس معاملے میں حکومت اپنا کردار دیہی علاقوں میں سہولیات اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے انجام دے سکتی ہے۔ اس معاملے میں سول سوسائٹی کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ان علاقوں میں صنعتیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
اوقات کار میں تبدیلی کے مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متعین اوقات کار کی پابندی پر زور دے اور متعین اوقات سے زیادہ کام لینے پر اوور ٹائم کی ادائیگی کو قانونی حیثیت دے۔ اس سے طویل اوقات کار کی حوصلہ شکنی ہو گی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو گی۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کو بیلنس کرنے اور وقت کو احسن انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیں۔ انفرادی سطح پر کارکن اور کمپنیوں کے مالکان اس تصور کو فروغ دیں کہ وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور غیر ضروری کاموں سے گریز کیا جائے۔
ہم نے مثبت و منفی تبدیلیوں پرردعمل کی جو تجاویز پیش کی ہیں، یہ نئی نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سی تجاویز پر پہلے ہی کام ہو رہا ہے اور بہت سی تجاویز پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس معاملے میں ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر اپنا دائرہ عمل متعین کرنا چاہیے کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ اس دائرہ عمل کے مطابق ہر شخص کو اپنا کردار ادا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے بہتر سمت میں جا سکیں۔ ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ دور حاضر کی مثبت تبدیلیوں سے ہم فائدہ اٹھا سکیں اور منفی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کر سکیں۔

Add comment


Security code
Refresh