www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نھیں ھوا تھا۔

عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پھلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ھوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
" تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے لئے لباس ھو اور وہ تمھارے لئے لباس ہیں"۔
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نھایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انھیں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر بتاتے ھوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وھی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم(ص) نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
"عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمھارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے"۔
یھاں بھی عورت کو مرد کے برابر اھمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نھیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اھمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ھر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اھمیت حاصل ھوتی ہے۔
 لیکن ساتھ ھی اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ھو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ھوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لئے قرآن نے مرد کو عورت پر نگران اور"قوامیت " کی فوقیت دی ہے۔
مگر دوسری جانب اسلام نے ھی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔
یھی وہ تعلیمات ہیں جنھوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ھر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh