www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۶۵۱۔ جس شخص کا سفر اس کے پیشہ کا مقدمہ ھو، وہ سفر میں پوری نمازیں پڑے گا، یا یہ ( پوری نمازیں پڑھنا) اس سے مخصوص ھے جس کا پیشہ ھی سفر ھو اور مرجع دینی،

 جیسے امام خمینی(رہ) کے اس قول کے کیا معنی ھیں ” جس کا پیشہ سفر ھو “ کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ھے جس کا پیشہ سفر ھو؟ اس لئے کہ چرواھوں ، شتربان اور ملاح وغیرہ کا عمل بھی چرانا ، ھنکانا اور کشتی چلانا ھے اور مختصر یہ ھے کہ ایسا کوئی شخص نھیں پایا جاتا کہ جس کا مقصد سفر کو پیشہ بنانا ھو؟

ج۔ جس کا سفر اس کے شغل کا مقدمہ ھو اگر وہ ھر دس دن میں کم ازکم ایک مرتبہ کام کرنے کے لئے اس جگہ جاتا ھے جھاں کام کرتا ھے تو وھاں پوری نما زپڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ھے اور فقھا رضوان اللہ علیھم کے کلام میں جو یہ جملہ آتا ھے کہ ” جس کا شغل سفر ھو “ اس سے مراد وہ شخص ھوتا ھے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ھو جیسے وہ مشاغل جو سوال میں مذکور ھیں۔

س۶۵۲۔ اس شخص کے روزہ نما زکا کیا حکم ھے جس کا شغل سفر ھو جیسے کرایہ پر سفر کرنے والا ڈرائیور اور ملاح وغیرھ؟

ج۔ سفر میں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ھے۔

س۶۵۳۔ اس شخص کے روزہ نماز کا کیا حکم ھے جس کا کام سفر ھو جیسے وہ ملازم جو اپنی جائے ملازمت کی طرف سفر کرتا ھے یا وہ کاریگر جو اپنے کارخانہ کی طرف سفر کرتا ھے؟

ج۔ جب وہ ھردس دن میں کم ازکم ایک مرتبہ اپنے محل شغل یا کام کرنے کی جگہ کی طرف سفر کرتا ھو تو روزہ کے صحیح ھونے اور پوری نما زکے واجب ھونے میں اس کا حکم وھی ھے جو اس شخص کا ھے جس کا شغل سفر ھو۔

س۶۵۴۔ ان لوگوں کے روزے ، نماز کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ھے جو جس شھر میں کام کرتے ھیں ایک سال سے زیادہ ٹھھرتے ھیں یا وہ فوجی جو کسی شھر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ھیں ، کیا ان پر ھر سفر کے بعد دس روز کے قیام کی نیت کرنا واجب ھے تاکہ روزہ رکہ سکیں اور پوری نماز پڑھ  سکیں اور اگر دس روز سے کم قیام کی نیت ھو تو ان کے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟

ج۔ مفروضہ سوال میں ان کا حکم وھی ھے جو نماز قصر سے متعلق تمام مسافروں کا ھے، جب تک وہ دس دن کے قیام کی نیت نہ کریں۔

س۶۵۵۔ جنگی طیاروں کے پائیلٹ ، جو اکثر فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ھیں اور شرعی مسافت سے کھیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ھیں، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ھے؟

ج۔ اس سلسلہ میںا ن کا حکم وھی ھے جو سفر میں نما زکے تمام ھونے اور روزہ کے صحیح ھونے میں موٹر کے ڈرائیوروں ، کشتی رانوں اور جھاز کے پائیلٹوں کا ھے۔

س۶۵۶۔ وہ قبائل جو اپنی قیام گاہ سے ایک یا دو مھینہ کے لئے اِدھراُدھر منتقل ھوتے رھتے ھیں لیکن سال کا باقی حصہ گرم یا سرد علاقہ میں گذارتے ھیں تو کیا دونوں جگھیں ( گرم و سرد علاقے) ان کے لئے وطن شمار ھوں گی؟ اور ( نماز کے قصر یا تمام کے اعتبار سے ) ان کے اس سفر کا کیا حکم ھے جو ان دو جگھوں میں قیام کے دوران کرتے ھیں؟

ج۔ اگر وہ ھمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف منتقل ھوتے رھتے ھیں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام کو دوسری جگہ گذاریں اور انھوں نے دونوں جگھوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ھو تو دونوں جگھیں ان کے لئے وطن شمار ھوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ھوگا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کی مسافت، شرعی مسافت کے برابر ھے تو ان کے لئے ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کا حکم وھی ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔

س۶۵۷۔ میں ایک شھر میں سرکاری ملازم ھوں اور میری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریباً ۳۵کلومیٹر کا فاصلہ ھے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پھنچنے کے لئے طے کرتا ھوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شھر میں چند راتیں ٹھھرنے کا ارادہ کرلوں تو مجہ پر پوری نماز پڑھنا واجب ھے یا نھیں؟

اور مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے شھر سمنان جاوٴں تو مجھے پوری نماز پڑھنا ھوگی یا نھیں؟

ج۔ اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کے لئے نھیں ھے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ھیں تو اس پر شغل کے سفر کا حکم عائد نھیں ھوگا۔ لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کے لئے ھو اور آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر قیام کے دوران خاص کاموں، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کے لئے جائیں اور اتفاق سے وھاں پر ایک رات یا چند راتیں گذارنا پڑیں تو کام کے لئے سفر کا جو حکم ھے وہ ان اسباب کی وجہ سے نھیں بدلے گا بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ھوگی اور روزہ رکھنا ھوگا۔

س۶۵۸۔ اگر ملازمت کی جگہ پر ، جس کے لئے میں نے سفر کیا ھے، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں ، مثلاً سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دیتا رھوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ھے؟

ج۔ دفتری کام کو انجام دینے کے بعد کسی خاص کام کا انجام دینا، دفتری کام ( شغل ) کے سفر کے حکم کو تبدیل نھیں کرتا۔

س۶۵۹۔ ان سپاھیوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ھے جو یہ جانتے ھیں کہ وہ دس دن سے زیادہ ایک جگہ قیام کریں گے لیکن اس کا اختیار خود ان کے ھاتہ میں نھیں ھے؟ امید ھے امام خمینی  ۺکا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟

ج۔ مذکورہ سوال میں اگر انھیں دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ رھنے کا اطمینان ھو تو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ھے اور یھی فتویٰ امام خمینی  ۺکا بھی ھے۔

س۶۶۰۔ ان لوگوں کے روزھ، نماز کا کیا حکم ھے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ھیں اور جو دس دن سے زیادہ چھاوٴنیوں میں یا سرحدی علاقوں میں رھتے ھیں ؟ برائے مھربانی امام خمینی  ۺکا فتویٰ بھی بیان فرمائیں؟

ج۔ وھاں ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ھے۔

س۶۶۱۔ میں رمضان المبارک میں ایک ایسی جگہ قیام پذیر تھا کہ میری قیام گاہ اور ان تمام مقامات کے درمیان جن کے بارے میں اطلاع فراھم کرنا میرا فریضہ تھا، حد ترخص کی مقدار کے برابر فاصلہ تھا، اس صورت میں کیا مجھے نماز پوری پڑھنی ھوگی اور روزہ رکھنا واجب ھوگا؟

ج۔ جب آپ نے اپنے کام کے لئے ان تمام مقامات کا چکر لگاتے ھیں جن کی اطلاع فراھم کرنا آپ پر واجب ھے یا ان مقامات تک جاتے ھیں جو آپ کی قیام گاہ سے شرعی مسافت کے بقدر دور نھیں ھیں ، جبکہ آپ پر اپنی قیام گاہ پر پوری نماز پڑھنے کا حکم نافذ ھوچکا ھو خواہ وھاں ایک ھی چار رکعتی نما زادا کی ھو یا دس دن کے اندر ان مقامات تک کا سفر کل ملا کے ایک تھائی دن یا رات یا اس سے کم کا ھو تو اس صورتمیں آپ اپنی قیام گاہ اور ان مقامات پر پوری نماز پڑھیں گے اور روزہ رکھیں گے ورنہ دوسری صورت میں نماز قصر ھوگی اور روزہ رکھنا صحیح نہ ھوگا۔

س۶۶۲۔ امام خمینی ۺکی توضیح المسائل کے صلاة المسافر کے باب میں مسئلہ ۳۰۶میں ساتویں شرط یہ ھے :

ڈرائیور پر واجب ھے کہ پھلے سفر کے بعد پوری نما زپڑھے لیکن پھلے سفر میں اس کی نماز قصر ھے خواہ سفر طویل ھی کیوں نہ ھو پس کیا پھلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ھے خواہ وہ سفر ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک جاری رھے چاھے وہ اس مدت میں اپنے اصلی وطن کے علاوہ ایک شھر سے دوسرے شھر دسیوں بار اسباب منتقل کرتا رھا ھو؟

ج۔ اس کا پھلا سفر اس منزل و مقصد تک پھنچنے کے بعد پورا ھوتا ھے جس کا اس نے اپنے وطن یا قیام گاہ سے نکلتے وقت قصد کیا تھا تاکہ سواریوں کو وھاں منتقل کرے یا اسباب پھنچائے اور واپس وطن تک لوٹنا اس کا جزء نھیں ھے مگر یہ کہ اس کا سفر منزل و مقصد کی طرف سواریوں کو منتقل کرنے کے لئے یا اس جگہ سے سامان وھاں لے جانے کے لئے ھو جھاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔

س۶۶۳۔ وہ شخص جس کا دائمی پیشہ ڈرائیوری نہ ھو بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیوری اس کا فریضہ بن گیا ھے ، جیسے چھاوٴنیوں میں یا نگھبانی کے فرائض انجام دینے والوں پر موٹر گاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کردی جاتی ھے کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ھے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ھے؟

ج۔ جب عرف عام میں اس کو اس وقتی مدت میں ڈرائیور کھا جائے تو اس مدت میں اس کا وھی حکم ھے جو تمام ڈرائیوروں کا ھے۔

س۶۶۴۔ جب ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ھوجائے اور وہ اس کے پرزے اور اسباب لینے کے لئے دوسرے شھر جائے تو کیا اس سفر میں وہ پوری نما زپڑھے گا یا قصر جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نھیں ھے؟

ج۔ جب اس سفر میں اس کا شغل ڈرائیوری نہ ھو تو اس کا حکم وھی ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔

Add comment


Security code
Refresh